سیاسی پارٹیوں میں مسلمانوں کی اہمیت کا احساس جاگا

0

شاہد زبیری

یوپی میں انتخابات کے نتائج کے بعد تمام سیاسی پارٹیوں میں حاشیہ پر پڑے مسلمانوں کی اہمیت کا احساس پھر جاگ رہا ہے اس پارٹی میںبھی جو 80-20 کے فارمولہ کی بات کرتی ہے اور ان پارٹیوں میں بھی جو مسلمانوں کو اپنا بندھوا مزدور سمجھتی ہیں ۔
یوپی میں بلدیاتی انتخابات کیلئے 4مئی کو پہلے مرحلہ میں اور 11مئی کو دوسرے مرحلہ میں پولنگ ہوئی تھی جس میں 17 کارپوریشن کے میئر، 199 میونسپلٹیوں کے چیئرمین اور 544 ٹائون ایریاز کے چیئر مین کا انتخاب ہوا تھا جس میں میئر کی سیٹوں پر بی جے پی کلین سوئپ کیا تھا اور 17میں سے 17سیٹوں پر قبضہ کرلیا جبکہ میونسپلٹی 199چیئر مین کی سیٹوں میں سے اس نے 88اور 544ٹائون ایریاز کی سیٹوں میں سے 191پر جیت درج کرائی ہے ۔جبکہ سماجوادی پارٹی کا کوئی میئر کسی سیٹ پر کامیاب نہیں ہوا تاہم میونسپلٹی میں اس کے35اور ٹائون ایریاز میں 78 چیئرمین جیتے اور اس طرح سماجوادی پارٹی دوسرے نمبر پر رہی ۔بی ایس پی نے 11مسلمان امیدواروں سمیت 17میئر کے امیدوار میدان میں اتارے تھے لیکن ایک بھی امیدوار کا میابی سے ہمکنار نہیں ہوا لیکن میونسپلٹی میں اس کے 16اور ٹائون ایریاز میں اس کے 37چیئر مین کامیاب رہے جبکہ علیگڑھ و میرٹھ کی میئر کی سیٹیں اس کے ہاتھ سے نکل گئیں اور بی ایس پی تیسرے پائیدان پر رہی۔ کانگریس کی اگر بات کریں تو کانگریس نے بلدیاتی انتخابات میں کچھ زیادہ سرگرمی نہیں دکھا ئی لیکن غیر متوقع طور مرادآباد اور کانپور جیسے شہروں میں اس کے میئر کے امیدوار دوسرے نمبر پر رہے، اس کے میونسپلٹی میں 4اور ٹائون ایریاز میں 14چیئرمین جیت کر پہنچے۔ حد تو یہ کہ اسدالدین اویسی کی مجلس اتحاد المسلمین کا امیدوار میئر کی سیٹ پر دوسرے نمبر پر رہا ۔ میونسپلٹی اور ٹائون ایریاز میں ان چار بڑی پارٹیوں کے علاوہ لوکدل کے میونسپلٹی اور ٹائون ایریاز میں 25چیئر میں کامیاب رہے دیگر پارٹیوں اور آزاد امیدواروں نے چیئر مین کی باقی سیٹوںپر جیت درج کرا ئی ہے۔ لوکد ل نے سماجوادی پارٹی کے ساتھ مل کر انتخاب لڑا تھا لیکن اس کے باوجود کئی سیٹوں پر دونوں پارٹیوںکے امیدوار آمنے سامنے رہے اور دورانِ الیکشن ہی دونوں پارٹیوں کے اتحاد میں دراڑ پڑگئی تھی۔ یہاں ہم کارپوریشن، میونسپلٹی اور ٹائون ایریا کے ممبران کی ہارجیت کے جا ئزہ کوضروری نہیں سمجھتے اس لئے کہ اصل طاقت تو میئر اور چیئر مین کے پاس ہو تی ہے اس لحاظ سے اگر دیکھیں تو بی جے پی کا پلڑا بھا ری رہا ، کونسلراور میونسپل کمشنر و ٹائون ایریاز کے ممبران بھی سب سے زیادہ کامیاب ہوئے ہیں۔ جن سنگھ اور بی جے پی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ کسی انتخاب میں اس نے مسلمانوں کو ٹکٹ دیا اورمیئر کی سیٹ کو چھوڑ کر کارپوریشن، میونسپلٹی اور ٹائون ایریا کے چیئر مین ،کونسلر اور میونسپل کمشنر کی سیٹوں پر مسلم ا میدوار میدان میں اتارے اور کئی سیٹوں پر اس کے مسلم چیئرمین اور ممبران نے جیت بھی درج کرا ئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی نے اپنے اس مسلم کارڈ سے جہاں غیر بی جے پی پارٹیوں کا کھیل بگاڑا اس نے اپنے اس داغ کو بھی دھودیا کہ وہ مسلمانوں کو اچھوت سمجھتی ہے۔ بلدیاتی انتخابات میں اس کے مسلم امیدواروں نے چاہے کوئی بڑی کا میابی حاصل نہ کی ہو لیکن مسلم امیدواروں نے بی جے پی کے غیر مسلم امیدواروں کی کا میابی میں اہم رول ادا کیا ہے جس کا اعتراف بی جے پی کے وزراء اور لیڈران بھی کررہے ہیں۔ نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ جو کبھی جالی دار ٹوپی اور تہمد کا ذکر کر کے پسماندہ مسلمانوں کا مذاق اُڑا تے تھے انہوں نے 19مئی کی سہارنپور پریس کانفرنس میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ مسلمان بالخصوص پسماندہ، غریب مسلمان بی جے پی کے قریب آرہا ہے اور ایس پی،بی ایس پی کے اس پرو پیگنڈہ کی ہوا نکل گئی ہے کہ بی جے پی مسلمانوں کو کھا جائے گی۔ انہوں نے کہاکہ مسلمانوں کے بی جے پی کے قریب آنے سے ایس پی اور بی ایس پی میں کھل بلی مچی ہے ۔واضح رہے کہ مسلم راشٹریہ منچ کے ذریعہ سنگھ اور بی جے پی ملک بھر میں درگاہوں اورمدارس میں اپنا نیٹ ورک بڑھا رہی ہے اور پسماندہ مسلمانوں کے ساتھ علماء اور سجادگان پر ڈورے ڈال رہی ہے تاکہ مسلم ووٹ بینک میں سیندھ لگا سکے اورر بی جے پی مخالف پارٹیوں کا قافیہ تنگ کیا جاسکے۔
دوسرے نمبر پر رہنے والی سماجوادی پارٹی نے ابھی یہ محسوس کیا ہے کہ نہیں کہ یو پی کا مسلمان اس سے ناراض ہے ، 2022کے اسمبلی انتخابات میںمسلمانوں نے جس طرح یکمشت ووٹ دے کر اس کے ووٹوں کا نہ صرف فیصد بڑھا یا تھا اسمبلی میں اس کو سب سے بڑی اپوزیشن کا درجہ دلایا تھا۔ بلدیاتی انتخابات میں اس نے ایسا نہیں کیا۔ بلدیاتی انتخابات میںمسلمان ووٹر سماجوادی پارٹی کو چھوڑ کر دوسری پارٹیوں کے پالے میں چلاگیا حتیٰ کہ بی جے پی سے بھی اس نے پرہیز نہیں کیا اور کانگریس کی جھولی میں بھی ووٹ ڈالے اور اس کے میئر کے امیدوار 2 سیٹوں پر نمبر 2 پر رہے ،بی ایس پی کے امیدوار اور مجلس اتحاد المسلمین کے امیدوار نے بھی دوسرا مقام حاصل کیا اسی لئے کہا جا رہا ہے کہ کانگریس، مجلس اتحاد المسلمین اور بی جے پی کی طرف مسلمانوں کا رجحان سماجوادی پارٹی اور بی ایس پی کے حق میں بہتر نہیں ہوگا او ران کا بدلتا رجحان 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں دونوں پارٹیو ں کیلئے خطرہ کی گھنٹی ہو سکتا ہے ۔بی جے پی کے راجیہ سبھا کے لکشمی کانت باجپئی نے انتہائی شاطرانہ بیان میں یہاں تک کہہ دیا کہ یو پی کا مسلمان کانگریس کی طرف لوٹ رہا ہے اور سماجوادی پارٹی اور بی ایس پی سے اس کا موہ بھنگ ہوچکا ہے۔یہ بیان یقینا ایک شاطرانہ بیان ہے۔ بی جے پی کے لیڈر یہ چاہتے ہیں کہ مسلمان سماجوادی پارٹی اور بی ایس کو ووٹ دے کر بی جے پی کیلئے مشکلیں پیدا کرتے ہیں کانگریس یوپی میں ابھی کمزور ہے اس لئے اگر مسلمانوں کا رجحان کانگریس کی طرف ہو گا تو بی جے پی کیلئے 2022کی راہ مزیدآسان ہو جا ئے گی۔ اس بیان پر یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ جب مسلمان بلدیا تی انتخابات میں بی جے پی کے ساتھ بھی گیا ہے تو لکشمی کانت باجپئی نے یہ کیوں نہیں کہا کہ مسلمان بی جے پی کے ساتھ جائے گا ۔ اس بیان کولے کر سماجوادی پارٹی اور بی ایس پی کے لوگ چراغ پا ہیں۔سماجوادی پارٹی کے جنرل سکریٹری سوامی پرساد موریہ نے کہا کہ مسلمان بیوقوف نہیںکہ وہ ایسا کرے گا ایک اور سماجوادی پارٹی کے لیڈر نے کہا کہ سماجوادی پارٹی مسلمانوں کے دل میں بسی ہے۔ عمران مسعود نے بھی باجپئی کے بیان کی کھلی اُڑائی ہے۔ لکھنؤ میں مایاوتی کی بلائی گئی انتخابی جائزہ میٹنگ میں شرکت کے بعدعمران مسعود نے کہا کہ مسلمانوں کے پاس بی ایس پی ہی ایک متبادل ہے۔ دلت اور مسلم ووٹ مل کر ہی بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھ سکتے ہیں۔ انہوں نے سہارنپور کی سیٹ کی مثال دی جہاں بی ایس پی دوسرے نمبر پر رہی۔ مایاوتی نے لکھنؤ کی جائزہ میٹنگ میں کوآرڈینیٹر، زونل اور ضلع صدور کی میٹنگ میں بی جے پی پر غصہ نکالنے کی بجائے سماجوادی پارٹی پر الزام لگا یاکہ سماجوادی پارٹی کی سازش سے بی ایس پی بلدیاتی انتخابات میں ہاری ہے خاص بات یہ کہ اس میٹنگ میں مایاوتی نے حسبِ سابق اپنی شکست کا ٹھیکرا مسلمانوں کے سر نہیں پھوڑا بلکہ میئر کے 11مسلم امیدواروںکی شکست کیلئے ان زونل صدور اور ضلع صدور کی سر زنش کی کہ انہوں نے کس بنیاد پر ان امیدواروں کو پارٹی کے ٹکٹ دلوائے ۔میٹنگ میں انہوں نے یہ واضح پیغام دیا کہ 2024کے پارلیمانی انتخاب میں بی ایس پی اکیلا چلو کی پالیسی پر عمل کرے گی اور تنہا الیکشن لڑے گی۔ بی ایس پی کی نظردلتوں اور ا و بی سی کے ووٹروں کے علاوہ مسلم ووٹروں پر بھی ہے کل ملاکر اگر دیکھا جائے تو یوپی میں بی جے پی سمیت ہر پارٹی اب مسلمانوں کی بات کررہی ہے اور سیاسی طور پر مسلمانوں کو حاشیہ پر ڈالنے والی غیر بی جے پی پارٹیوں میں یہ احساس پھر جاگا ہے کہ مسلم ووٹوں کے بغیر وہ کامیاب نہیں ہو سکتیں لیکن سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کے ووٹ لینے والی پارٹیوں نے بدلے میں مسلمانوں کو اب تک دیا کیا ہے؟۔ کیا جمہوریت اور سیکولرزم کو بچانے اور بی جے پی کو روکنے کی ذمّہ داری صرف مسلمانوں کی ہے؟ سیکولرزم کا دم بھرنے والی پارٹیاں جو اٹھتے بیٹھتے مسلمانوں کو بی جے پی اورہندوتوا کا ہوا دکھاتی رہی ہیں وہ کہاں کھڑی ہیں ،کیا وہ سیکو لرزم کے پیمانہ پر کھری اترتی ہیں۔ کیا انہوں نے نرم ہندتوا کی خاطر مسلمانوں کو سیاسی حاشیہ پر نہیں ڈال دیا ہے؟۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS