حج ایک جامع عبادت اور اسلامی زندگی کا تربیتی نصاب

0

ڈاکٹر سراج الدین ندویؔ

حج کے لغوی معنیٰ ہیں ’’ ارادہ کرنا‘‘ اور دین کی اصطلاح میں حج اس عبادت کو کہتے ہیں جس میں ایک مسلمان کعبہ کی زیارت کا ارادہ کرتاہے۔ جس کے پاس گھر کی ضرورت سے زیادہ اتنی رقم ہو کہ وہ حج کے اخراجات کے لیے اور واپس آنے تک گھر والوں کے خرچ کے لیے کافی ہو اس پر حج فرض ہے۔ قرآن کریم میں اللہ کا فرمان ہے:’’اللہ کے لیے ان لوگوں پر اللہ کے گھر کا حج فرض ہے جو وہاں تک پہنچنے کی طاقت رکھتے ہیں۔‘‘(آل عمران)
احادیث میں بھی حج کی فرضیت پر زور دیا گیا ہے اور حج کو ارکانِ اسلام میں شمار کیا گیا ہے۔ رسول ؐ نے فرمایا: اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے (۱) توحید و رسات کی گواہی (۲) نماز قائم کرنا (۳) ادائیگی زکوٰۃ (۴) رمضان کے روزے (۵) اور حج۔
تمام علمائے امت اور ائمہ فقہ کا اس کے فرض ہونے پر اتفاق ہے۔ کوئی مسلمان بھی اس کی فرضیت کا منکر نہیں ہے۔ اگر کوئی اس کی فرضیت کاانکار کرتاہے تو وہ مسلمان نہیںہے۔حج ایک جامع عبادت اور اسلامی زندگی کاتربیتی نصاب ہے۔ اس میں ذکر ودعا، نماز، زکوٰۃ ، روزہ، ہجرت جیسی تمام اہم اور بنیادی عبادات کی روح اور تربیتی مقاصد واثرات موجود ہیں۔ اس عبادت کی ابتدا لَبَّیْکَ اللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ سے ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے اذکار کا بھی اہتمام ہوتا ہے۔ بالخصوص یوم عرفہ تو ہے ہی ذکر و دعا اور توبہ و استغفار کے لیے۔ منیٰ میں قیام کے دوران بھی ذکر کی خاص تاکید ہے۔ نبی ؐ نے فرمایا: ’’گنتی کے ان چند دنوں میں اللہ کی یاد میں مشغول رہو۔ پھر جب تم جوق در جوق عرفات سے واپس ہونے لگو تو اللہ کا ذکر مشعر حرام کے پاس کرلیا کرو اور اس کا ذکر اس طرح کرو جس طرح کرنے کی اس نے تمھیں ہدایت کی ہے اور اس سے پہلے تم راہ بھولے ہوئے تھے، پھر تم اسی جگہ سے واپس آؤ جہاں سے لوگ واپس آتے ہیں اور اللہ سے مغفرت طلب کرو۔ بے شک اللہ گناہ معاف فرمانے والا اور مہربان ہے۔ پھر جب تم حج کے تمام مناسک ادا کر چکو تو اللہ کا ذکر اسی طرح کرو جس طرح تم اپنے باپ دادا کا ذکر کیا کرتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ۔‘‘۔
حاجی اللہ کے جس گھر کی طرف منہ کرکے عمر بھر نماز پڑھتا رہا ہے اسے دیکھنے کی سعادت حاصل کرتا ہے۔ اس کا طواف کرتا ہے اور اس کے مالک کے حضور سجدہ ریز ہوکر اس سے بہت قریب ہوجاتا ہے۔ وہ اللہ کی راہ میں زکوٰۃ وصدقات دیتا رہا ہے، سفر حج میں اپنے محبوب مال کا بڑا حصہ خرچ کرکے مال کی محبت کو اللہ کی محبت پر قربان کرتا ہے۔ وہ روزہ میں جن شہوات وخواہشات کو اللہ کی مرضی کے تابع کرتاہے اور تراویح و قیام میں جیسا سخت مجاہدہ کرتا ہے،اس کی تربیت احرام کی پابندیوں اور حج کے پُرمشقت مناسک میںموجود ہے۔
ہجرت کی حقیقت ترک وطن، اہل و عیال سے جدائی، سفر کی مشقت، دنیوی مفادات کی قربانی اور اللہ کے حکم پر لبیک کہنا ہے۔ حج میں بھی بندہ لَبَّیْکَ اَللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ کی ایمان پرور صدا بلند کرتے ہوئے پوری شان بندگی کے ساتھ اپنے گھر سے اللہ کے گھر کی طرف اور اپنے وطن سے اس شہر کی طرف روانہ ہوتاہے جس میں اللہ کے شعائر (نشانیاں) ہیں اور جس کا حج اس پر فرض ہے۔حج ایک غلام کی عاجزی و انکساری اور عبدیت کا سب سے بڑا مظہر ہے۔ خدا کے دربار میں حاضر ہونا ، کفن نما کپڑا پہننا، اللہ کے گھر کا چکر لگانا، صفا و مروہ کے درمیان دوڑنا، عرفات و مزدلفہ کے صحراؤں میں پڑاؤ ڈالنا، جمرات پر کنکریاں مارنا، بلند آواز میں تلبیہ کہنا اور اس قسم کے بہت سے اعمال انجام دینا بندگی اور عبدیت کا بہترین مظہر ہیں۔ یہ اللہ سے محبت کی معراج ہے۔ یہ حضرت ابراہیم ؑ کے عشق ِ خداوندی کی اداؤں کا احیاء ہے اور اسلام کا آخری رکن ہے۔ حج کو اجر و ثواب کے لحاظ سے بڑی فضیلت و اہمیت حاصل ہے۔ نبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے حج کیا اور اس نے کوئی شہوانی اور فحش کام نہ کیا اور نہ ہی خدا کی نافرمانی کی تو وہ گناہوں سے ایسا پاک و صاف ہوکر واپس لوٹتا ہے جیسا اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اس کو جنا تھا۔‘‘
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’ اے لوگو! تم پر حج فرض کیا گیا ہے اس لیے حج کرو۔ ایک شخص نے سوال کیا ’’ اے اللہ کے رسولؐ کیاہر سال حج کرنافرض قرار دیا گیا ہے، اس نے تین بار یہی سوال دہرایا۔ آپؐ نے فرمایا: ’’ اگر میں ’’ہاں‘‘ کہہ دیتا تو ہر سال حج فرض ہوجاتا اور تمہارے اندر اس کی استطاعت نہیں ہے۔‘‘ اس کے بعد آپؐ نے فرمایا: ’’ جو چیزیں میں بیان نہ کروں اس کے سلسلہ میں مجھ سے سوال مت کیا کرو اور مجھے آزاد چھوڑ دیا کرو۔ تم سے پہلی امتوں کے لوگ اسی لیے تباہ ہوگئے کہ وہ اپنے نبیوں سے بہت زیادہ سوالات کرتے تھے۔ پھر ان کے احکام کی خلاف ورزی کرتے تھے۔ لہٰذا جب میں تم کوکسی چیز کاحکم دوں تو طاقت بھر اس کی تعمیل کرو اور جب کسی چیزسے روکوں تو اس کو چھوڑ دو۔‘‘ (مسلم)
ایک بار نبی کریم ؐ سے معلوم کیا گیا کہ کون سا عمل سب سے بہتر ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا: ’’ اللہ اور اس کے رسول ؐ پر ایمان لانا۔‘‘ پھر دریافت کیا گیا اس کے بعد کون سا عمل بہتر ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: ’’ اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا۔‘‘ عرض کیا گیا اس کے بعد کون سا عمل افضل ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا: ’’ حج مبرور۔‘‘
حج مبرور وہ حج ہے جو بارگاہِ ایزدی میں مقبول ہو اور بارگاہِ ایزدی میں وہی حج مقبول ہوتا ہے جو صرف خدا کی خوشنودی کے لیے کیا جائے اور ہر قسم کی فحاشی و بے حیائی اور فسق و فجور سے بچا جائے۔بخاری و مسلم میں نبی کریم ؐکا یہ ارشاد موجود ہے’’:حج مبرور کا بدلہ جنت ہی ہے۔‘‘آپؐ نے یہ بھی ارشاد فرمایا: ’’ حج اور عمرے کو پے در پے کرو کیوں کہ یہ دونوں محتاجی اور گناہوں کو ایسا دور کردیتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے، چاندی اور سونے کے میل کچیل کو دور کردیتی ہے اور مقبول حج کا بدلہ جنت کے سوا کچھ نہیں۔‘‘(مشکوٰۃ)
حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول ؐنے فرمایا: ’’ جس شخص کے پاس حج کے لیے ضروری سامان اور ایسی سواری میسر ہو جو اسے بیت اللہ تک پہنچاسکے اور پھر بھی وہ حج نہ کرے تو اس میں کوئی فرق نہیں کہ وہ یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہوکر مرے۔‘‘(ترمذی)
اگر کوئی شخص اس حال میں مر جائے کہ اس نے حج فرض ہونے کے باوجود حج ادا نہ کیا تو اس حال مرنا یہودی اور نصرانی ہوکر مرنے کے برابر ہے۔ جس طرح نماز چھوڑنے کو کفر و شرک کے قریب تر بتایا گیا ہے ۔ اسی طرح حج ادا نہ کرنے کو یہود و نصاریٰ کے عمل سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اس لیے ترک ِ نماز کو شرک سے قریب بتایا گیا ۔ ارشاد ہوا: ’’نماز قائم کرو اور مشرکین میں سے مت ہوجاؤ۔ ‘‘ (روم)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS