پروفیسر عتیق احمدفاروقی
جیسا کہ ایگزٹ رجحانات سے ظاہر ہواتھا کرناٹک اسمبلی کے نتائج میں کانگریس کوناقابل تسخیر اکثریت مل چکی ہے۔ 224رکنی اسمبلی میں کانگریس کو 136، حکمراں بی جے پی کو 65، جنتادل سیکولر کو 19 اوردیگرامیدواروں کو چار حلقوں میں کامیابی ملی ہے ۔ ویسے تو بی جے پی نے اس ہار کو قبول کرلیاہے جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ وزیراعظم نریندرمودی نے کانگریس کی فتح پر مبارک بادپیش کی ہے اورعوام کی امنگوں کو پورا کرنے کیلئے نیک خواہشات کااظہار کیاہے۔ وزیراعلیٰ بسواراج بومئی نے اپنے بیان میں کہاکہ ہم نتائج کا تجزیہ کریں گے ، پارٹی لوک سبھا انتخابات میں زبردست واپسی کرے گی۔ کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے اپنی پارٹی کی جیت پر عوام ،پارٹی کارکنوں اورلیڈران کو مبارک بادیتے ہوئے کہا کہ اس جیت نے ریاست میں نفرت کا بازار بند کرکے محبت کی دکان کھول دی ہے۔
اب دوباتیں قابل غور ہیں ۔ اول ، کن حالات میں اورکن عناصر کے سبب کانگریس کو اتنی شاندار فتح حاصل ہوئی۔ دوم ، ان نتائج کا مستقبل کے انتخابات پر کیا اثر پڑے گا؟اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتاکہ کرناٹک میں بی جے پی کی حالت اتبدا سے ہی اچھی نہیںتھی۔ اُس کی اصل وجہ پارٹی کی اندرونی خانہ جنگی، ٹکٹ تقسیم میں پرزور مخالفت اورحکومت پر بدعنوانی کے الزامات تھے۔ دوسری جانب کانگریس نے جو سب سے بڑی دانشمندی کا مظاہرہ کیا وہ تھا مقامی مسائل کو اٹھانا اورمرکزی مسائل یا مرکز میں بی جے پی کی کمزوریوں ، جیسے اڈانی کے ذریعے کئے گئے گھوٹالے کا انکشاف، پلوامہ سے متعلق ستیہ پال ملک کے بیان وغیرہ کو اس نے چھوا تک نہیں۔ کرناٹک حکومت کی چالیس فیصد کمیشن اورکچھ دلکش وعدوں کی بنیاد پر کانگریس نے ایک مضبوط پلیٹ فارم تیار کیا۔ دوسری جانب بی جے پی نے نریندرمودی اورامت شاہ کی بدولت اس انتخاب میں اپنی پوری طاقت جھونک دی۔ کانگریس نے عوام سے وعدہ کیا کہ کرناٹک میں ہرکنبہ کی ایک خاتون کو 2000کی ماہانہ مدد اوربے روزگار نوجوانوں کو تین ہزاروپے ماہانہ بے روزگاری بھتہ ملے گا۔ مسلمانوں کو چارفیصد دیاجانے والا ریزرویشن ، جوبی جے پی نے ختم کردیاتھا اوراس کا کوٹہ لنگایت اور وکالنگاطبقات میں تقسیم کرنے کا وعدہ کیاتھا، کانگریس نے اسے بحال کرنے کاوعدہ کیا۔ کانگریس نے اقتدارمیں آنے پر پی ایف آئی اوربجرنگ دل پر پابندی لگانے کا وعدہ کیا۔ اس سے بی جے پی کو ایک اچھا مذہبی مدعا مل گیااوراس نے کانگریس پر بجرنگ بلی کی توہین کاالزام لگایا۔ دوسری جانب کانگریس نے عوام کو سمجھایا کہ دراصل بی جے پی نے بجرنگ بلی کا مقابلہ بجرنگ دل جیسی تشدد پسند تنظیم سے کرکے بجرنگ بلی کی توہین کی ہے۔ ماناجارہاتھا کہ بی جے پی کے مسلم ریزرویشن کاخاتمہ اوربجرنگ بلی والے مسائل نے کرناٹک میں انتخابات کا ماحول بدل دیاہے مگرعین وقت پر کانگریس نے ریزرویشن کا دائرہ پچاس فیصد سے بڑھاکر 75فیصد کرنے کا اعلان کرکے بی جے پی کے ہندتوا کارڈ کو پش پست ڈال دیاہے۔ کانگریس کے ریزرویشن کے اس وعدے سے لنگایت رائے دہندگان سے لے کر دیگر پسماندہ طبقات کے ساتھ دلت سماج نے بھی اس کاساتھ دیا۔
بی جے پی کے کچھ مسلم مخالف اقدام یاوعدوں سے کانگریس کو ریاست کے پندرہ فیصد مسلمانوں کا پورا ساتھ مل گیا۔ مثال کے طور پر بی جے پی نے یونیفارم سول کوڈ لاگو کرنے کا وعدہ کیا اور امت شاہ نے این آرسی کو نافذ کرنے کی بات کی۔ مسلم ریزرویشن کو ریاست میں ختم کرنا بھی انہی اقدام کی ایک کڑی تھی۔ کرناٹک میں بی جے پی کی خراب حکمرانی کے پس منظرمیں بی جے پی کے پاس ہندوتوا کارڈ چلنے کے علاوہ مزید کوئی ہتھکنڈا نہیں بچاتھا۔ اب یہ مدعا چلنے والانہیں ہے کیونکہ عوام اب سمجھ چکے ہیں کہ بی جے پی بنیادی مدعوں سے ذہن ہٹانے کیلئے جذباتی معاملوں کو اٹھاتی ہے۔ ہمارے نوجوانوں کو روزگار چاہیے ، غریبوں کو مہنگائی سے نجات چاہیے، عوام کو ہرشعبے (تعلیم،صحت اورشہری سہولیات)میں تعمیر وترقی چاہیے۔ سبھی کو امن اورتحفظ کا ماحول چاہیے ۔ کانگریس نے اپنے منشورمیں ان سبھی مدعوں کا احاطہ کیاہے۔
جہاں تک کرناٹک انتخابات کا مستقبل کے انتخابات پر اثر کا سوال ہے ، ایک بات توواضح ہے کہ اس کا اثر آنے والے انتخابات پر بی جے پی کے امکانات کے مدنظر منفی ہوگا۔ دراصل کرناٹک میں کانگریس کی کارکردگی سے پورے ملک میں اس کی شبیہ بہتر ہوگی۔ کانگریس صدر کے طور پر ملکارجن کھرگے کیلئے بھی یہ بہت اہم انتخابات تھے کیونکہ ان کا تعلق کرناٹک سے ہی ہے اوریقینایہ جیت پارٹی میں اب ان کا قد بڑھادے گی۔ کرناٹک میں کانگریس کی کامیابی کاسہرا یقینا راہل گاندھی کے سر جاتاہے ۔’بھارت جوڑو یاترا‘کے دوران راہل نے سب سے زیادہ وقت اسی ریاست میں گزاراتھا۔ اس سے کانگریس کے اندر اوررائے دہندگان کے درمیان راہل کی شبیہ نکھر کرسامنے آئی ہے۔ آئندہ پارلیمانی الیکشن سے قبل راجستھان ، مدھیہ پردیش،تلنگانہ ، آندھراپردیش اورچھتیس گڑھ میں انتخابات ہوںگے۔ کرناٹک کی جیت کااثر ان ریاستوں میں دکھائی دے سکتاہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ حزب مخالف کی وہ جماعتیں جو مرکز کی سیاست میں کانگریس پر داؤں لگانے کیلئے تیار نہیں تھیں (جیسے عام آدمی پارٹی ، ترنمول کانگریس، جنتادل متحدہ، راشٹریہ جنتادل، ایس پی اوربی ایس پی)لیکن اب ایسا لگتاہے کہ یہ پارٹیاں کانگریس کو اپنا قائد مان سکتی ہیں۔
کرناٹک انتخابات میں وزیراعظم نریندرمودی نے بہت محنت کی ۔ انہوں نے مرکز کاسارا اہم سرکاری کام چھوڑ کر کرناٹک الیکشن کی تشہیر کیلئے وہاں دس دن قیام کیا۔ متعددریلیاں کی ، روڈشوکیااورلوگوں سے ملاقاتیں کیں۔ کچھ مبصرین کا مانناہے کہ نریندرمودی کی مجموعی شبیہ ابھی محفوظ ہے کیونکہ وہاں پر جو نشستیں بھی بی جے پی کو ملی ہیں اس کا سہرا مودی کے ہی سرجاتاہے۔ کہاجاتاہے کہ وہاں بی جے پی کوجتنے بھی ووٹ ملے ہیں ان کا19فیصد مودی کے چہرے پر ملے ہیں۔ اگرانہوں نے اتنی کوشش نہ کی ہوتی تو بی جے پی کی حالت اوربدتر ہوجاتی ۔ میرا اپنا نظریہ ہے کہ ملک کے وزیراعظم کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ ایک ریاست کے الیکشن کیلئے اتنی بار وہاں دورہ کریں اوراتنی مدت تک قیام کریں۔ شاید آزاد ہندوستان کی تاریخ میں وہ ایسا سیاسی برتاؤ کرنے والے پہلے وزیراعظم ہیں۔ اس سے نہ صرف ان کی شخصیت مجروح ہوئی ہے بلکہ وزیراعظم کے عہدے کے وقار کو بھی ٹھیس پہنچی ہے۔
[email protected]
کرناٹک : کانگریس کی جیت کا راز کیا ہے
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS