اپوزیشن اتحاد کی کوشش

0

ایک بڑی ناکامی جیسے حکمراں اتحاد کے لیے آئندہ انتخابات کے نتائج کے سلسلے میں شبہات و خدشات پیدا کر دیتی ہے، اسی طرح ایک بڑی کامیابی اپوزیشن اتحاد کے لیے کوشاں پارٹیوں کی امیدیںبڑھا دیتی ہے۔ کرناٹک اسمبلی انتخابات کے نتائج کے بعد بھی کیا ایسی ہی صورتحال بنے گی؟ یہ ایک جواب طلب سوال ہے اور اس کا جواب ایک جملے میں دینا ممکن نہیں۔ یوپی کے بلدیاتی انتخابات میں بی جے پی نے شاندار جیت درج کی ہے اوراسے دیکھتے ہوئے یہ بات نہیں کہی جا سکتی کہ وہاں اس کی مقبولیت میں کچھ کمی آئی ہے۔ یہ بات بھی نظرانداز نہیں کی جانی چاہیے کہ بے شک کرناٹک اسمبلی انتخابات میں کانگریس نے تاریخی مظاہرہ کیا ہے، گزشتہ اسمبلی انتخابات کے مقابلے اس اسمبلی انتخابات میں اس کے ووٹوں میں 4.74 فیصد کا اضافہ ہوا ہے مگر گزشتہ اسمبلی انتخابات کے تقابل میں اس بار بی جے پی کے ووٹوں میں زیادہ کمی نہیں ہوئی ہے۔ اسے 0.35 فیصد ہی کم ووٹ ملے ہیں، البتہ اسے سیٹوں کے حصول میں کافی نقصان ہوا۔ اسے 38 سیٹوں کا نقصان ہوا تو کانگریس کو 55 سیٹوں کا فائدہ ہوا ہے۔ مجموعی طور پر 135 سیٹیں حاصل کر لینے سے کانگریس کی پوزیشن پہلے سے زیادہ مضبوط ہوئی ہے۔ ہماچل پردیش کے بعد اس کی یہ ایک اور بڑی کامیابی ہے۔ اس کامیابی کی زیادہ اہمیت اس لیے بھی ہے، کیونکہ ہماچل پردیش کے مقابلے کرناٹک بڑی ریاست ہے۔ اسی لیے سمجھا جاتا ہے کہ 2024 کے لیے اگر کوئی اتحاد بنتا ہے تو اب اس اتحاد میں کانگریس زیادہ مستحکم پوزیشن میں ہوگی۔
کئی لیڈران چاہتے ہیں کہ اپوزیشن پارٹیوں کا ایک بڑا اتحاد بنے۔ جنتادل(یونائٹیڈ) کے لیڈر اور بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار اپوزیشن اتحاد کے لیے سرگرم ہیں۔ راشٹریہ جنتادل کے لیڈر اور بہار کے نائب وزیراعلیٰ تیجسوی یادو ان کے ساتھ ہیں۔ شیوسینا (ادھو بالاصاحب ٹھاکرے) کے سربراہ اور مہاراشٹر کے سابق وزیراعلیٰ ادھو ٹھاکرے اور ان کے بیٹے آدتیہ ٹھاکرے بھی اپوزیشن اتحاد کے لیے کوشاں ہیں۔ کرناٹک اسمبلی انتخابات میں کانگریس کی شاندار جیت کے بعد 14 مئی، 2023کو آدتیہ ٹھاکرے کی دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کجریوال سے ملاقات اسی لیے اہمیت کی حامل ہے۔ اس سے قبل شیوسینا(ادھو بالاصاحب ٹھاکرے) کے لیڈر سنجے راؤت نے کہا تھا، ’کرناٹک ایک جھانکی ہے، ابھی پورا ہندوستان باقی ہے۔‘ اس لیے اروند کجریوال-آدتیہ ٹھاکرے کی ملاقات پر قیاس آرائیوں کا دور شروع ہونا فطری ہے۔ آدتیہ اور نتیش کے اپوزیشن اتحاد کے لیے کسی قدم کی اہمیت ہے، کیونکہ ان دونوں کی ہی پارٹیاں پہلے بی جے پی کے ساتھ این ڈی اے میں تھیں۔ بعد میں جنتادل(یونائٹیڈ) بی جے پی سے الگ ہوگئی اور نتیش کمار راشٹریہ جنتادل اورکانگریس کے ساتھ اتحاد کرکے وزیراعلیٰ بن گئے۔ ادھر مہاراشٹر میں شیوسینا نے بی جے پی سے علیحدگی اختیار کرلی اور ادھو ٹھاکرے کانگریس اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے ساتھ اتحاد کرکے وزیراعلیٰ بن گئے مگر آج ان کی پارٹی اقتدار میں نہیں اور وہ ٹوٹ چکی ہے۔ بہار میں نتیش کمار کو یہ خدشہ نہیں کہ کانگریس سے اتحاد کرنے کا اثران کے ووٹ بینک پر پڑے گا۔ مہاراشٹر میں شیوسینا کو بھی یہ اندیشہ نہیں۔ شیوسیناکا اپنا دائرۂ اثر ہے، کانگریس کا اپنا،البتہ یہی بات عام آدمی پارٹی، سماجوادی پارٹی، بھارت راشٹر سمیتی، آل انڈیا ترنمول کانگریس کے سلسلے میں نہیں کہی جاسکتی۔ عام آدمی پارٹی نے دہلی اور پنجاب میں کانگریس سے اقتدار چھینا ہے۔ گجرات میں اس کے ابھار سے کانگریس کی کارکردگی متاثرہوئی ہے، اس لیے وہ کانگریس سے اتحاد کرنے سے پہلے سوچے گی۔ سماجوادی پارٹی اگر کانگریس سے اتحاد کرتی ہے تو اس کا کتنا فائدہ اسے ملے گا، یہ جانتی ہے۔ بھارت راشٹر سمیتی کے لیے، جو پہلے تلنگانہ راشٹرسمیتی کہلاتی تھی، یہ بات ناقابل فہم نہیں کہ اتحاد کرلینے سے تلنگانہ میں کانگریس اورمضبوط ہوجائے گی اور اس کا راست اثر اس پر پڑے گا۔ یہی صورتحال مغربی بنگال میں ہے۔ اسی لیے ساگردغی میں کانگریس امیدوار بائران بسواس کی جیت کو ممتا بنرجی نے بڑی سنجیدگی سے لیا جبکہ اسی سال ہوئے میگھالیہ اسمبلی انتخابات میں مکل سنگما کی کانگریس سے علیحدگی اور ترنمول کانگریس پارٹی سے وابستگی نے ممتابنرجی کی پارٹی کو وہاں مضبوط کیا ہے، اس لیے اپوزیشن اتحاد کی باتیں ضرورکہی جا رہی ہیں مگر فی الوقت بڑے اپوزیشن اتحاد کا امکان کم نظر آتا ہے، البتہ 2024 کے عام انتخابات میں اگر کانگریس بڑی کامیابی حاصل کرتی ہے تو پھر اتحاد خودبخود بنتا چلا جائے گا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS