کیا اردگان ایک بار پھر جیت پائیں گے؟

0

ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

یہ کالم جس وقت لکھا جا رہا ہے اس وقت ترکی کے رائے دہندگان اپنے ملک کے مستقبل کے لئے نئے صدر کا انتخاب کرنے کی غرض سے قطاروں میں کھڑے ہیں۔ چونکہ ترکی کے قانون کے مطابق رائے دہی کے بعد (اتوار) کی رات کے 9 بجے تک نتائج پر کوئی گفتگو نہیں کی جا سکتی ہے اس لئے تجزیہ نگار اور ماہرین اب تک کے حالات پر قیاس کرتے ہوئے اپنی باتیں لکھ رہے ہیں۔ تقریباً تمام تجزیہ نگار اس بات سے اتفاق رکھتے ہیں کہ حالیہ انتخاب کو ترکی کی گزشتہ سو سال کی تاریخ میں سب سے اہم مانا جا رہا ہے کیونکہ درجنوں انتخابات میں مسلسل کامیابیاں حاصل کرنے والے رجب طیب اردگان کو اس وقت حزب اختلاف کے امیدوار کمال کلیجدار اوگلو سے سخت مقابلہ آرائی ہے۔ بعض سروے کے مطابق جن کا ذکر ’رائٹرز‘ نے بطور خاص کیا ہے اردگان اپنے سیاسی حریف سے شکست کھاتے نظر آرہے ہیں، لیکن یہ طیب اردگان کی کرشمائی شخصیت کو ہلکے میں لینے کے مترادف ہوگا۔ یہ سچ ہے کہ کمال اتاترک کے ہاتھوں سیکولر اصولوں پر قائم کی جانے والی ’عوامی جمہوریت پارٹی‘کو اس بار اچھا موقع ہاتھ آیا ہے اور اس نے 6 پارٹیوں کا اتحاد قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ کمال اوگلو کے لئے یہ مقابلہ آسان نہیں ہوگا کیونکہ 2010 میں اسطنبول کے میئر کا الیکشن ہار جانے کے بعد بھی ان کو پارٹی کا صدر اسی امید میں منتخب کیا گیا تھا کہ وہ اپنی پارٹی کو اردگان کی پارٹی حزب العدالۃ و التنمیۃ (اے کے پی) کے مقابلہ کامیابی سے ہمکنار کریں گے لیکن 2018 میں ان کو اردگان کے مقابلہ جو شکست فاش ملی اس سے یہ ظاہر ہوگیا تھا کہ ان میں اردگان کو ہرانے کی قابلیت مفقود ہے۔ البتہ اس بار’عوامی جمہوریت پارٹی‘ (سی ایچ پی) کو اگر کچھ امیدیں پیدا ہوئی ہیں تو اس کے اسباب داخلی اور خارجی دونوں ہیں۔ خارجی اسباب تو یہ ہیں کہ اردگان کو مغربی طاقتیں بالکل پسند نہیں کرتی ہیں اور وہ چاہتی ہیں کہ بہر صورت اردگان کو بدلا جائے۔ اس بات کا برملا اظہار سب سے پہلے امریکہ کے حالیہ صدر جو بائڈن نے اس وقت کیا تھا جب وہ اپنی انتخابی مہم کو زور و شور سے چلا رہے تھے۔ بائیڈن نے کہا تھا کہ امریکہ کو چاہئے کہ وہ ترکی کے حزب اختلاف کی مدد کرے اور اردگان کی حکومت کو گرادے۔ بعد میں جب بائیڈن سے اس بیان کی وضاحت معلوم کی گئی تو انہوں نے کہا کہ میرا مطلب یہ تھا کہ انتخابات میں اردگان کو ناکام کیا جائے۔ دنیا بھر میں جمہوریت کی بحالی کا ڈنکا پیٹنے والے امریکہ کے مستقبل کے صدر کے منہ سے یہ بات بہت عجیب معلوم ہوئی تھی۔ یہ بات اس لئے بھی بڑی حیرت انگیز تھی کہ بائیڈن انہی دنوں ٹرمپ کی غیر جمہوری حرکتوں سے نالاں تھے اور امریکیوں کو یقین دلا رہے تھے کہ اگر وہ جیت گئے تو جمہوریت کو دنیا بھر میں مضبوط کرنے کے لئے وہ جمہوری ممالک کے لیڈران کو دعوت دے کر بلائیں گے اور جمہوری نظام کو مزید بہتر بنانے کے لئے ان کے ساتھ تبادلۂ خیال کریں گے۔ اس وعدہ کو بائیڈن نے صدر بننے کے بعد پورا بھی کیا لیکن پھر بھی ترکی میں عوام کے ذریعہ منتخب صدر کے خلاف غیر جمہوری موقف اپنانے سے باز نہیں آئے۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی میں حالیہ انتخابی مہم کے آغاز سے چند دنوں قبل ہی وہاں کے وزیر داخلہ اور اردگان کی پارٹی ’اے کے پی‘ سے پارلیمانی انتخابات کے امیدوار سلیمان صویلو نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ مغربی ممالک 14 مئی کو سیاسی بغاوت پیدا کرنے کی کوشش کریں گے اور جس مقصد کے حصول میں وہ 2016 کیاندر ناکام ہوگئے تھے اس کی تکمیل اس موقع پر کریں گے۔ ان کا اشارہ 2016 میں اردگان کے خلاف کی جانے والی فوجی بغاوت کی طرف تھا جس کے پیچھے مغرب کا ہاتھ مانا جاتا ہے۔ صویلو کے اس بیان سے ترکی میں ایک طوفان کھڑا ہوگیا اور اپوزیشن پارٹیوں نے ان پر یہ الزام عائد کرنا شروع کر دیا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اردگان 14 مئی کو الیکشن میں ہار جاتے ہیں تو مغربی مداخلت کا بہانہ بنا کر وہ حکومت سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ لیکن صویلو اپنی بات ہر قائم رہے اور بائیڈن کے مذکورہ بالا بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن پارٹیوں کا باہمی اتحاد اور ایک ہی امیدوار پر ان کا ایسا اتفاق جو ماضی میں کبھی نہیں ہوا، ساتھ ہی تمام معاملوں میں ان کے درمیان آپسی تنسیق اور کوآرڈینیشن اس بات کا غماز ہے کہ یہ سب کچھ بائیڈن کے بیان کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کیا جا رہا ہے۔ صویلو کے علاوہ خود طیب اردگان نے اپنے سیاسی حریف کمال کلیجدار اوگلو کے اس بیان کو خارجی مداخلت کے زمرہ میں شمار کیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر وہ صدر منتخب ہوتے ہیں تو وہ 300 ارب ڈالر کا انوسٹمنٹ مغربی ممالک سے ترکی میں لائیں گے جس سے عوام کی معاشی حالت بہتر ہوگی۔ ان باتوں کا اثر اردگان کے حامیوں پر اس قدر گہرا پڑا ہے کہ اب ان کے درمیان یہ خیال جڑ پکڑ گیا ہے کہ اردگان کو ہٹانے کی غرض سے اپوزیشن پارٹیاں مغرب کی مداخلت قبول کر رہی ہیں۔ اسطنبول کے حالیہ میئر اکرم امام اوگلو جو اردگان کے خلاف صدارتی الیکشن لڑنے کا عزم رکھتے تھے ان کے بارے میں بھی یہ بات پھیل گئی ہے کہ انہوں نے یورپی یونین کے سفارتکاروں کے ساتھ ملاقات کرکے اردگان کو شکست دینے کا پلان تیار کیا تھا۔
الجزیرہ عربی کے ایک تجزیہ نگار کے مطابق تو افواہیں اس درجہ تک پھیل گئی ہیں کہ خود کمال کلیجدار اوگلو کی امیدواری پر اپوزیشن پارٹیوں کا اتفاق بھی مغربی ممالک کی کوششوں کا نتیجہ مانا جا رہا ہے۔ دراصل اردگان کے خلاف مغربی سازش کا پروپیگنڈہ اس لئے کامیاب ہوتا نظر آتا ہے کیونکہ ان کے دور اقتدار میں نہ صرف مغربی ممالک بلکہ اس خطہ کے اکثر ممالک کے ساتھ ترکی کے تعلقات خراب ہوگئے تھے۔ حالانکہ اردگان کی پالیسیاں ترکی کے حق میں تھیں لیکن مغربی میڈیا نے ان کے خلاف مسلسل اپنا محاذ کھولے رکھا یہاں تک کہ 2023 کے انتخابات سے چند دن قبل بھی لندن سے شائع ہونے والا مجلہ ’دی اکانومسٹ‘نے اپنی کور اسٹوری بنائی کہ جمہوریت کو بچائے رکھنے کے لئے اردگان کی شکست ضروری ہے۔ ان باتوں سے عام قاری کو یہ اندازہ ہوگا کہ اردگان کے خلاف مغربی سازش کارفرما ہے اور انہیں ہر حال میں ہٹانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ لیکن سچ بات یہ ہے کہ ان بیانات کو انتخاباتی پروپیگنڈوں سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاسکتی۔ کیونکہ خود امریکہ کے ساتھ ترکی نے اپنے تعلقات کو بہتر بنایا ہے اور خاص طور سے فن لینڈ کی ناٹو میں شمولیت کو قبول کرکے ترکی نے امریکہ کے شکوے دور کر دیئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے بھی انتخابات سے چند مہینے قبل ہی ایف-15 کی تجدید کاری کے لئے مطلوب آلات ترکی کو دینے کا اعلان کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ امریکہ نے اردگان کے ساتھ معاملات طے کرنے کا طریقہ سیکھ لیا ہے۔ نئی قیادت کی آمد کی صورت میں پالیسیوں کی سطح پر جو تبدیلیاں ترکی میں پیدا ہوں گی ان کے ساتھ خود کو ہم آہنگ بنانا خود امریکہ کے لئے آسان نہیں ہوگا اور اسی لئے اردگان کی موجودگی ہی مغربی ممالک کے لئے بھی کار آمد ثابت ہوگی۔ اردگان کو خارجی سطح پر ایک فائدہ یہ بھی حاصل ہے کہ روس چاہتا ہے کہ اردگان ہی بر سر اقتدار رہے کیونکہ انہوں نے روس-یوکرین معاملہ میں سب سے متوازن موقف اختیار کیا تھا۔ ساتھ ہی اردگان کی موجودگی میں شام کے معاملہ کا سیاسی حل آسانی سے ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ اس کے برعکس کمال اوگلو ترکی کی خارجہ پالیسی کو مغرب کے ساتھ ہم آہنگ بنانا چاہتے ہیں جس کو ترکی عوام کی اکثریت پسند نہیں کرے گی۔ چونکہ ترکی کے معاملہ میں امریکہ اور روس کے موقف کی ہی زیادہ اہمیت ہے اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ خارجی مداخلت کے پروپیگنڈہ کے باوجود ان کا کوئی خاص گہرا اثر الیکشن پر نہیں پڑے گا۔ اردگان کے لئے اصل مسئلہ خارجی نہیں بلکہ داخلی ہے۔ ترکی کی لگاتار کمزور ہوتی معیشت، بینکوں کے شرح سود میں کمی سے پیدا ہونے والا انفلیشن جو بڑھ کر 85 فیصد تک پہونچ چکا ہے، اسی طرح شامی پناہ گزینوں کے ترکی میں قیام سے ترکی معیشت پر پڑنے والے اثرات اور حالیہ زلزلہ میں عمارتوں کی تباہی کے نتیجہ میں مرنے والوں کی کثیر تعداد ایسے مسائل ہیں جن سے اردگان کی شہرت اور مقبولیت میں فرق پیدا ہوا ہے اور اسی لئے اپوزیشن کو یہ یقین ہو چلا ہے 69 سالہ اردگان کے مقابلہ میں 74 برس کے کمال کلیجدار اوگلو جنہیں مالیاتی امور کو منظم ڈھنگ سے چلانے کا تجربہ حاصل ہے شاید کامیاب ہو جائیں اور اردگان کو شکست سے دوچار کرنے کے لئے اس سے اچھا موقع ہاتھ نہیں آئے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا کمال اوگلو اس بار وہ کامیابی حاصل کر پائیں گے جس کو وہ 2018 میں حاصل نہیں کر پائے تھے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا ہے اور اردگان اس بار بھی جیت جاتے ہیں تو وہ اپنے دور اقتدار کی تیسری دہائی میں داخل ہونے والے ترکی کے پہلے لیڈر ہو جائیں گے اور تاریخ رقم کریں گے۔ اردگان نے اپنے ملک اور خطہ کو جس گہرائی کے ساتھ متاثر کیا ہے اس میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ اردگان کی جیت یہ بھی ثابت کرے گی کہ اب ترکی کا مزاج مکمل طور پر اسلامی رنگ میں رنگ چکا ہے اور کمال اتاترک جس نے خلافت کو 1924 میں ختم کرکے مغربی تہذیب کے ساتھ اپنے ملک کی قسمت کو مربوط کر دیا تھا اس کا دور ختم ہوچکا ہے۔ کمال کلیجدار اوگلو چونکہ اتاترک کی سیکولر سیاست کی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں اس لئے ان کے ساتھ مغرب کی ہمدردی فطری بات ہے لیکن ترکی کا معاشرہ اس کو قبول کرنے کے لئے اب تیار نہیں ہوگا اور وہ ہر حال میں اردگان اور ان کی وراثت کو آگے لے جانے کے لئے ان کا ساتھ دے گا۔ ترکی کے قانون کے مطابق اگر کوئی امیدوار پہلے مرحلہ میں 50 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل نہیں کرپاتا ہے تو اس کو دوسرے راؤنڈ میں جانا ہوگا۔ ایسی صورت میں دوسرے راؤنڈ کا انتخاب 28 مئی کو ہوگا۔ ترکی کا یہ انتخاب کئی معنوں میں بڑی اہمیت کا حامل ہے اور پوری دنیا کی نظریں اس کے نتائج کے انتظار میں ہیں۔ اب یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ ساڑھے آٹھ کروڑ کی آبادی والا یہ ملک اپنا مستقبل کس کے ہاتھ میں سونپتا ہے۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS