شاہد زبیری
یوپی کے بلدیاتی انتخابات میں بی جے پی کی کا ریکارڈ کامیابی غیر متوقع نہیں ہے۔ بی جے پی نے2024کے پارلیمانی انتخابات کے ہدف کو سامنے رکھ کر جو محنت زمین پر کی تھی وہ دکھائی دے رہی تھی بوتھ کمیٹیوں سے لے کر شہر وضلع کے لیڈران، کارکنان، ممبرانِ اسمبلی ،ایم پی وزرا یہاں تک کہ خود وزیر اعلیٰ یو گی آدتیہ ناتھ جس طرح در در کی خاک چھان رہے تھے وہ سب کو نظر آرہا تھا۔ بی جے پی نے چھوٹے مانے جا نے والے بلدیاتی انتخابات کو وہی اہمیت دی جو اسمبلی اور پارلیمانی انتخابات کی ہو تی ہے۔75اضلاع میں تنہا وزیر اعلیٰ نے 50 ریلیاں کیں جو بھیڑ اور مقصد دونوں لحاظ سے کامیاب ریلیاں تھیں۔ وہ ریلیاں اور میٹنگیں الگ رہیں جو وزرا ،ممبرانِ اسمبلی اور ممبرانِ پارلیمنٹ اور پارٹی لیڈران نے کی یہ سچ ہے کہ بی جے پی نے حسب عادت ان مقامی انتخابات میں بھی اپنے نفرت کے ایجنڈہ کے استعمال سے گریز نہیں کیا اور غنڈہ مافیا کو بھی دھرم اور مذہب کے رنگ میں پیش کیا ان کے قتل اور انکائونٹر کی واقعات پر بھی دھرم کی چادر ڈالی اور 2024کے ایجنڈہ اور ہدف کو اوجھل نہیں ہونے دیا اس نے عتیق احمد اور بھائی کے قتل وبیٹے اسعد کے انکائونٹر کا سیاسی استعمال کرنے میں کوئی پرہیز نہیں کیا اور اس کے برے اثرات سے بچنے کیلئے اس نے پہلی مرتبہ بلدیاتی انتخابات میں مسلم کارڈ بھی کھیلا اور 395امیدوار نگر پالیکا اور نگر پنچائتوں میں اتار ے جن میں 80-85 فیصد پسماندہ مسلمان تھے۔ہر چند کی مئیر کی کسی ایک سیٹ پر بھی اس نے کسی مسلمان کو ٹکٹ نہیں دیا لیکن نگر پالیکا اور نگر پنچائتوں کے چیئر مین اور پارشد کی سیٹوں پر ٹکٹ دئے اگر سہارنپور کے قصبہ کی مثال کو سامنے رکھیں تو یہاں قصبہ چلکانہ میں پہلی مرتبہ ایک مسلم خاتون پھول بانو نگر پنچائت کی چیئرمین منتخب ہوئی ہیں۔ ابھی تمام اضلاع کی تفصیلات پوری طرح سامنے نہیں آئی ہیں کہ یہ بات وثوق سے کہی جا سکے کہ بی جے پی کے ٹکٹ پر کتنے مسلمان کامیاب ہوئے لیکن ان مسلمان امیدواروں نے اپنے حلقۂ اثر کے مسلم ووٹ بی جے پی کے کھاتے میں ڈلوائے جس سے ان کا ممکن نہیں کہیں کہیں تو مسلمانوں کا جھکائو بی جے پی امیدواروں کے حق میں بھی نظر آیا ایسے لوگوں سے بات کی تو ان کی دلیل تھی کہ مسلمانوں نے بی جے پی کو ہرا نے کا ٹھیکہ تو تھوڑا ہی لے رکھا ہے آخر مسلمان ہی کیو ں بی جے پی کا ٹھیکرااپنے سر پھوڑے پڑھے لکھے مسلمانوں کی بات کریں تو ان میں اب یہ تاثر پیدا ہورہا ہے کہ سیکولر اور غیر سیکو لر کی جو لکیر تھی وہ اب دھندلی ہو چکی ہے۔ سیکولرا زم کی دعویدار جماعتیں مسلمانوں کو اپنا بندھوا مزدور سمجھنے لگی ہیں اور وہ ہندو ووٹروں کی ناراضگی کا خطرہ مول لینا نہیں چاہتی اور نرم ہندوتوا کا کا رڈ کھیلنے لگی ہیں اس لئے اب پڑھے لکھے مسلمانوں کو راہل گاندھی کی کا نگریس بھا نے لگی ہے۔ بلدیاتی انتخابات میں کانگریس تین سیٹوں مرادآ باد ،بنارس اور جھانسی میں نمبر دو پررہی اور تواورمسلمانوں کا ایک محدود طبقہ اب ردِّ عمل کے طور پر اور جذبات کے سہارے اویسی کی جماعت آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کو پسند کر نے لگا ہے بہار کے اسمبلی انتخابات کے بعد یوپی کے بلدیاتی انتخابات میں اس کے واضح اشارے ملے ہیں میرٹھ جیسی سیٹ پر جہاں ایس پی اور بی جے پی کا دبدبہ رہا ہے مجلس کا امیدوار بی جے کے مقابلہ نمبر دو پر رہا۔ علاوہ ازیں بلدیاتی انتخابات میں مسلم ووٹر کنفیوز رہا 2022کے یو پی اسمبلی انتخابات میں جس طرح آنکھ میچ کر اس نے سماجوادی پارٹی کی جھولی میں یکمشت ووٹ ڈالے تھے۔ ایسا بلدیاتی انتخابات میں نہیں ہوا اور مسلم ووٹ منتشر رہا جس کا سیدھا فائدہ بی جے پی کو پہنچا، مانا کہ میئر کی 17سیٹوں میں سے 10سیٹوں پر سماجوادی پارٹی نمبر دو پر رہی لیکن نگر پالیکائوں اور نگر پنچائتوں کے چیئر مین کی سیٹوں کے علاوہ یو پی کے 14000وارڈوں میں زیادہ پر بی جے پی نے یا آزاد امیدواروں نے کا میابی کے جھنڈے گاڑے ہیں۔کل تک جو بی جے پی صرف شہری علاقوں تک محدود تھی اب اس نے یو پی کے دیہی علاقوں میں بھی اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے ۔جن سنگھ سے بی جے پی کے سفر تک بلدیاتی انتخابات میں شہروں میں وہ ہمیشہ کا میاب ہوتی رہی ہے خواہ وہ سرکار میں تھی یا نہیں تھی یہ پہلا بلدیاتی انتخاب ہے جسمیں بی جے پی نے تحصیلوں، قصبات اور گائووں میں اپنے پیر پسار لئے ہیںجہاں کبھی سماجوادی پارٹی اور بی ایس پی کی دھمک سنا ئی دیتی تھی ۔بی جے پی اب بنیہ برہمن کی پارٹی کی امیج سے باہر نکل گئی ہے دیہی اور شہری علاقوں کے او بی سی اور دلتوں میں اس کی مقبولیت بڑھی ہے اور ایس پی اور بی ایس پی سمٹ گئی ہیں ،بی ایس پی میئر کی صرف تین سیٹوں پر دوسرے نمبر پر رہی ہے۔ سماجوادی پارٹی کی حالت اس لحاظ سے بہتر ہے کہ اس گئی گزری حالت میں بھی اس نے مئیر کی 10 سیٹوں پر بی جے پی کے مقابلہ دوسرا مقام حاصل کیا ہے اس کا سہرہ بھی مسلم ووٹروں کے سر جا تا ہے ۔بی جے پی یہ دعویٰ غلط نہیں کہ بلدیاتی انتخابات میں اس کو دلتوں اور مسلمانوں اور او بی سی کے طبقات نے ووٹ دیا ہے کبھی جن کے کاندھوں پر سوار ہو کر سماجوادی پارٹی اور بی ایس پی ایوانِ اقتدار تک پہنچتی رہی ہیں۔ایک وقت تھا کہ بی جے پی کا مسلم علاقوں میں کبھی کوئی نام لیوا بھی نہیں تھا اور امیدوار تو دور کہیں جھنڈا اور ڈنڈا بھی نظر نہیں آتا تھا اب مسلم امیدوار اس کے ٹکٹ پر چیئر مین منتخب ہو رہے ہیں سہارنپور کے قصبہ چلکانہ کی نگر پنچائت کی مثال سامنے ہے جہاں پھول با نو نے اکبر قریشی جیسے پرا نے چیئر مین کی کرسی چھین لی ہے ۔
ہم نے گزشتہ اپنے اس ہفتہ واری کالم میں بھی لکھا تھا کہ بی ایس پی سپریمو مایاوتی اور سماجوادی پارٹی کے قائد اکھلیش یادو بند کمرے اور ڈرائنگ روم کی سیاست کرتے ہیں ،اکھلیش یادو نے تو ایک دو سیٹوں پر روڈ شو کئے بھی لیکن مایاوتی نے تو اپنے کمرے سے قد م ہی باہر نہیں نکالے۔ 11مسلمانوں کو میئر کا ٹکٹ دے کر وہ مطمئن ہو گئیں کہ مسلمان اور ان کا جاٹو ووٹ بینک کامیابی دلا دے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ جاٹو ووٹ بھی کھسک گیا اور مسلم ووٹ بھی پالے میں نہیں آیا۔ رہی سہی کسر مسلم بنام مسلم کی لڑائی نے پوری کردی اور دونوں پارٹیوں کی امیدوں پر پا نی پھیرگیا ایک ہی سیٹ پر دونوں نے مسلما نوں کو ہی ٹکٹ دیا تھا۔اتنا ہی نہیں مئیر کی سیٹ سے لے کر چیئر مین اور پارشد کی ہر سیٹ پر ایس پی اور بی ایس پی باہم دست وگریبا ں رہیں اور بی جے پی کو ہر انے کی بجا ئے ایک دوسرے کو ہرا نے کی فکر میں زیادہ دکھا ئی دیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بی جے پی نے دونوں پارٹیوں کا صفایا کردیا اور دونوں پارٹیوں کا کھا تہ تک نہیں کھلا۔ حد تو یہ ہے کہ میئر کی جن 5سیٹوں پر بی جے پی مشکل میں دکھائی دے رہی تھی اس نے وہاں بھی اپنی جت درج کرا دی ہے۔ بی جے پی نے پہلے 12میئر کی سیٹوں میں سے 10 سیٹوں پر پھر 16سیٹوں میں 14سیٹو ں پر اور اب 17میں سے 17سیٹوں پر اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ کر اپوزیشن جماعتوں کی پشت پر اپنی جیت کا تازیانہ لگا یا ہے جو کچھ ماہ بعد ہونے والے 2024کے پارلیمانی انتخابات میں اپوزیشن جماعتوں کیلئے خطرہ کی گھنٹی ہے اب یہ کہہ کر کام نہیں چلے گا کہ بی جے پی نے سرکاری مشینری کا غلط استعمال کیا اور ہندو مسلم کارڈ کھیلا ہے۔ اگر اپوزیشن جماعتیں بشمول کانگریس اب بھی متحد نہیں ہوئیں اور دیوار پر لکھے کو نہیں پڑھا تو ان جماعتوں کو اس سے بھی برے دن دیکھنے پڑیں گے۔
[email protected]