چین کا دائرہ اثر بڑھنا ہندوستان کیلئے باعث تشویش

0

ایس ایم خان

سابق صدر اے پی جے عبدالکلام کی قربت جن لوگوں کو حاصل رہی، ان میں ایس ایم خان کا نام بے حد اہم ہے۔ وہ صدر اے پی جے عبدالکلام کے پریس سکریٹری تھے مگر کلام صاحب سے ان کے ذاتی تعلقات تھے۔ اس کا اظہار ایس ایم خان کی کتاب’پیپلز پریسیڈنٹ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام (People’s President Dr. APJ Abdul Kalam) بھی ہے۔ 82 بیچ کے یونین سول سروسز آفیسر، ایس ایم خان نے سی بی آئی کے ترجمان اور دوردرشن نیوز کے ڈائرکٹر جنرل کی حیثیت سے بھی اپنی ایک مثبت چھاپ چھوڑی ہے۔ عالمی حالات پر ان کی گہری نظر ہے، چنانچہ حالات کی تبدیلیوں پر ان کی رائے بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ ایس ایم خان کے مطابق، ’دنیا کے حالیہ واقعات سے ایسا لگتا ہے کہ عالمی امور پر امریکہ کا تسلط کم ہورہا ہے اورچین کا دائرۂ اثر بڑھ رہا ہے۔ چین پہلے اقتصادی محاذ پر ہی امریکہ کو ٹکر دے رہا تھا اور یہ بات کہی جا رہی تھی کہ چند برس بعد وہ دنیا کی نمبروِن اقتصادی طاقت بن جائے گا مگر اب چین دنیا کے سیاسی امور میں بھی دلچسپی لینے لگا ہے۔ دو ملکوں کے مابین مصالحت کراکر وہ اپنی طاقت کا اظہار کرنا چاہتا ہے اور ایسا ہی اس نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان مصالحت کراکر کیا ہے۔ اس مصالحت کی وجہ سے عرب لیگ میں شام کی رکنیت بحال کرنے کی راہ ہموار ہوئی۔ یہ رکنیت اس وقت تک بحال نہیں ہوتی جب تک سعودی عرب اس کے لیے تیار نہیں ہوتا اور ایران سے تلخ تعلقات رہتے ہوئے اس کی امید نہیں کی جاسکتی تھی، کیونکہ شامی سربراہ بشارالاسد کے ایران حامی ہونے کی وجہ سے سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک ان سے ناراض تھے مگر ایران سے سعودی عرب کے تعلقات استوار ہوجانے کے بعد بشارالاسد سے عرب لیڈروں کی دوری نہیں رہ گئی۔ اسی لیے گزشتہ دنوں بشار نے متحدہ عرب امارات کا بھی دورہ کیا۔‘
ایس ایم خان کے مطابق، ’یوکرین جنگ کے بعد دنیا کے حالات بدلے ہیں۔ روس کو یوکرین سے یہ شکایت تھی کہ وہ ناٹو کا ممبر بننا چاہتا ہے اور اسی لیے اس نے اس کے خلاف جنگ چھیڑی تاکہ پڑوس تک ناٹو کو پہنچنے سے روکے۔ اس جنگ کی وجہ سے امریکہ نے روس پر پابندیاں عائد کر دیں۔ اس سے روس کو چین جیسے طاقتور ملک کی ضرورت ہے اور چین بھی یہ جانتا ہے کہ روس کا ساتھ اسے زیادہ مستحکم بنا دے گا مگر وہ یوکرین سے بھی بیک ڈورڈپلومیسی کررہا ہے۔ اس پر روس کو اعتراض نہیں ہوگا، کیونکہ جنگ نے روس پر اثر ڈالا ہے۔ باعزت طریقے سے جنگ ختم کرنا اس کے حق میں ہوگا۔ یوکرین سے اس کا براہ راست تعلق نہیں ہے۔ چین اس کی بات یوکرین تک پہنچا سکتا ہے۔ اگر چین یوکرین کو اس بات کے لیے تیار کرنے میں کامیاب ہو گیا کہ وہ ناٹو کا ممبر نہیں بنے گا، وہ پنے یہاں ناٹو کا فوجی اڈہ نہیں بننے دے گا تو روس کو جنگ ختم کرنے کے لیے تیار کرنا چین کے لیے زیادہ مشکل نہیں ہوگا اور اگر ایسا کرنے میں وہ کامیاب ہو گیا تو اس سے روس کا فائدہ ہوگا اور چین کا دائرۂ اثربھی بڑھے گا، مصالحت کرانے والے ملک کے طور اس کی امیج اور مضبوط ہوگی۔‘
ایس ایم خان کا کہنا ہے، ’رہی بات یوروپ کی تو اس کے اقتصادی اورسیاسی امور پر امریکہ کا اثررہا ہے اور اس کی وجہ بھی ہے، دوسری عالمی جنگ کے بعد یہ امریکہ ہی تھا جس نے ’مارشل پلان‘ کے تحت مغربی یوروپ کے ملکوں کی مدد کی تھی مگراب حالات بدل رہے ہیں۔ جرمنی کے چین سے اچھے تعلقات ہیں۔ اوکس کی تشکیل کے وقت امریکہ کی وجہ سے فرانس کا آسٹریلیا سے ایک تجارتی معاہدہ ختم ہوا۔ اس سے وہ دلبرداشتہ ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ حال ہی میں فرانسیسی صدرایمینوئل میکروں چین کے دورے پر گئے تھے تو انہوں نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ فرانس امریکہ کا اتحادی ہے، جاگیر نہیں لیکن ایسا نہیں ہے کہ امریکہ خاموش بیٹھا ہوا ہے۔ کنیڈا امریکہ کا اتحادی ہے اور اس کی حکومت نے چینی سفارتکارزاؤ وی (Zhao Wei) کو جاسوسی کا الزام عائد کرکے کنیڈا بدر کیا ہے تو یہ بات سمجھی جا سکتی ہے کہ اس نے ایسا کیوں کیا؟ چینی حکومت نے بھی اس کا جواب دیا ہے اور کنیڈا کی سفارتکار جینیفر لن لیلونڈے (Jennifer Lynn Lalonde)کو چین بدر کر دیا ہے۔ ان باتوں کے مدنظر یہی لگتا ہے کہ عالمی سیاست میں چین کا قد اور اثر بڑھ رہا ہے اور وہ اپنی پوزیشن کا اظہار کر رہا ہے مگر سوال یہ ہے کہ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کیا ہمارے ملک کے لیے ٹھیک ہے؟اس کا جواب ایک لفظ میں ہے نہیں!۔۔۔ہندوستان کو دنیا کی تبدیلیوں سے باخبر رہنا ہے۔ چین کا دائرۂ اثربڑھ رہا ہے تو یہ ہندوستان کے لیے سوچنے کی بات ضرور ہے، کیونکہ اس خطے میں وہی ہندوستان کا مدمقابل ہے۔ اگر دنیا کے معاملات چین کی مداخلت سے طے ہونے لگے تو یہ ہمارے ملک کے لیے لمحۂ فکریہ ہوگا، کیونکہ چین سے ہمارے ملک کا سرحدی تنازع ہے۔چین کا ایس سی او کا حصہ رہنا ایک بات ہے، اس میں اور بھی ممالک ہیں مگر روس کے اتحاد سے وہ زیادہ مضبوط ہو جائے گا۔ ہمیں اپنی پوزیشن مضبوط رکھنے کے لیے چین کی ہر چال، اس کے ہر قدم پر نظررکھنی ہوگی اور اسی کی مناسبت سے فیصلے لینے ہوںگے، اقدامات کرنے ہوں گے۔‘ n
(نمائندہ روزنامہ راشٹریہ سہاراسے گفتگو پرمبنی)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS