مغربی ایشیا میں خانہ جنگی برادر کشی اور خارجی مداخلت کی آگ بجھتے بجھتے ایک اور عرب ملک سوڈان میں بھی خانہ جنگی کا وہ دور شروع ہوچکا ہے جس کے تھمنے کا فی الحال کوئی امکان نظرنہیں آتا ہے۔ سوڈان کے جمہوریت پسند رضا کار تنظیمیں ایک طرف فوج پر یہ دبائو ڈال رہی تھیں کہ وہ واپس بیرک میں جائے اور ملک کی سیاسی قیادت ایک منتخب حکومت کے ہاتھ میں سونپ دے۔ مگر جیسے ہی فوج اور رضا کار تنظیموں اور سیاسی پارٹیوں کے درمیان سمجھوتہ ہونے ہی والا تھا کہ فوج کے دو گروپوں – سوڈان کی ریگولر فوج سوڈان آرمی فورسیز ایس اے ایف جسے ہم سوڈانی آرمی کہہ سکتے ہیں اور نیم مسلح دستے ریپڈ سپوٹ فورس کے درمیان اختلافات اس قدر بڑھ گئے کہ یہ دونوں مسلح گروپ آپس میں ہی برسرپیکار ہوگئے اور گزشتہ 15اپریل سے جاری ان دونوں گروپوں کی جنگ ایک مکمل فوجی معرکہ میں تبدیل ہوگئی ہے۔ یہ جنگ ریگولر سوڈانی آرمی کے سربراہ جنرل البرہان اور جنرل فتح الحمیدتی کے درمیان بالا دستی اور اقتدار کی جنگ میں تبدیل ہوگئی ہے اور اس تصادم کے پھوٹ پڑنے کے بعد اب سوڈان کی سول سائٹی اورسیاسی پارٹیاں کہیں بھی منظر پر دکھائی نہیں دے رہی ہیں ۔
ظاہر ہے کہ یہ غیر معمولی بحران اپنی آزادی کے بعد سے اب تک کے بدترین بحرانوں میں گنا جانے لگا ہے۔ وہاں پر جمہوریت کا قیام تو بہت دور اب قیام امن بھی دکھائی نہیں دے رہا ہے۔سعودی عرب جو کہ سوڈان میں زبردست اثر ورسوخ رکھتا ہے اس صورت حال کو ختم کرنے کے لیے سفارتی مہم جاری ر کھے ہوئے ہیں۔ جدّہ میں دونوں فریقوں کے درمیان مذاکرات ہورہے ہیں۔ مگر اس کے باوجود سوڈان میں تصادم میں کوئی کمی نہیں دکھائی دے رہی ہے ۔ امریکہ جو کہ جنرل البرہان کے استبدادی ہتھکنڈوں اور جمہوری نظام کو موقع نہ دینے کی سازشیں کرنے کی وجہ سے زبردست ناراض ہیں۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے اس نے موقف نے تبدیلی آئی ہے۔ امریکہ میں چاہتا ہے کہ القرن افریقہ کے اس ملک میں جنگ بندی نافذ ہوجائے اور گزشتہ کئی سال سے جبکہ سے سوڈان کے صدر العمر البشیر اقتدار سے بے دخل کیے گئے ہیں۔ سے چلی آرہی سیاسی بے چینی اور عدم استحکام ختم ہوجائے ۔ امریکہ بھی سعودی عرب کے ساتھ مل کر اس بحران کو ختم کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ امریکہ جنرل البرہان اور روس کے درمیان بڑھتے ہوئے روابط اور گرم جوشی سے تشویش میں مبتلا ہیں۔ کیونکہ دونوں ملک ایک سمجھوتے کے بعد بحر احمر میں روسی جنگی بیڑے تعینات کرنے پر متفق ہوگئے ہیں اور صرف ایک واجبی سے رسم ادائیگی کی گنجائش رہ گئی ہے۔ امریکہ نہیں چاہتا کہ روس اس علاقے میں اثرورسوخ بڑھائے مگر جنرل البرہان اقتدار میں رہنے کا ہر ممکن ہتھکنڈہ اختیار کرنے پر آمادہ ہیں۔ انہوںنے نہ صرف یہ کہ عالمی برادری میں اپنی قبولیت کو بڑھانے کے لیے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرلیے ہیں بلکہ دوسری جانب انہوںنے روس کے صدر لادیمیر پوتین کے دوست کی فوجی کمپنی ویگنر کو ان علاقوں میں کام کرنے اور کانکنی کی گنجائش نکال لی ہے جہاں پر سونے اور دیگر قیمتی معدنیات کے وافر ذخائر موجود ہیں۔ سوڈان کے سونے کے کانوں میں کام کرنے کی اجازت دے کر جنرل البرہان نے امریکہ کو بڑے مخمصی کا شکار بنا دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ لگاتار اس بات کی کوشش کررہا ہے کہ ایک طرف تو یہ جنگ بندی ہوجائے تو دوسری طرف روس کے ممکنہ اثرورسوخ کے امکانات ختم ہو۔ کیونکہ بحر احمر میں روسی جنگی بیڑوں کی موجودگی کا مقصد مغربی ایشیا کے حساس ترین اور مالدار ترین علاقو ںمیں روسی اثرورسوخ میں اضافہ ہوگا۔ خیال رہے کہ سوڈان اور سعودی عرب کے درمیان صرف بحر احمر ہی حائل ہے اور اسی وجہ سے سعودی عرب کے لیے سوڈان سے مختلف ممالک کے شہریوں کو نکالنے میں کافی آسانی ہوئی تھی۔ سعودی عرب بھی چاہتا ہے کہ اس کے پڑوسی ملک میں ایسی کوئی غیر یقینی صورت حال پیش نہ آئے جو کہ اس کے مستقبل کے اقتصادی ، تجارتی منصوبوں پر پانی پھیرنے والے ہوں ۔ سعودی عرب پورے خطے میں قیام امن کے لیے بدترین حریفوں سے مذاکرات کررہا ہے۔ ایران کے ساتھ اس نے سفارتی تعلقات بحال کرلیے ہیں۔ شام کے ساتھ نہ صرف یہ کہ اس نے سفارتی تعلقات دوبارہ استوار کرلیے ہیں ساتھ ہی ساتھ عرب لیگ نے شام کی ممبر شپ کو بھی بحال کرکے یہ میسیج دیا ہے کہ وہ خطے میں تمام محاذوں پر امن چاہتا ہے تاکہ اس خطے کو اقتصادی طور پر ایک مضبوط اور مستحکم شناخت دی جاسکے۔ حتیٰ یہ کہ سعودی عرب نے اپنی قربت والے ممالک کو اس بات پر راضی کیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ ابراہم معاہدہ کی روح سے روابط قائم کرلیں۔ یو اے ای ،بحرین ، عمان ، جارڈن کے علاوہ مراقش نے بھی نہ صرف یہ کہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے ہیں بلکہ کئی ملک اسرائیل کے ساتھ اقتصادی اور فوجی تعاون کررہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ صورت حال ایک غیر معمولی نوعیت کی ہے۔ ایسے میں سوڈان کا اس بحران سے دوچار ہونا سعودی عرب کے ایک قریبی دوست کے نقطۂ نظر سے ایک اچھی صورت حال نہیں ہے۔ سوڈان ایک ایسا ملک ہے جو کہ طویل عرصہ سے خانہ جنگی اور غیر ملکی مداخلت کا شکار رہا ہے۔ چند سال پہلے سوڈان کی دو حصے کرکے ایک نیا ملک جنوبی سوڈان معرض وجود میں آیاتھا اور اب سوڈان کے اس حصے میں حالیہ صورت حال غیر یقینی مستقبل کی طرف لے کر جارہی ہے۔ سوڈان نہ صرف یہ کہ سیاسی اقتصادی بحران کا شکار ہے بلکہ اس کی بڑی آبادی فاقہ کشی کے دہانے پر ہے۔ پینے کے پانی کی قلت ، دو وقت کی روٹی کے لیے ترس رہے عوام کے لیے یہ خانہ جنگی کسی بڑی مصیبت سے کم نہیں ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سعودی عرب اور امریکہ کی مداخلت سوڈان کو کس حد تک اس خانہ جنگی سے بچا پائے گی۔
rvr
جنگی جنون کے آگے بے بس سفارت کاری
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS