پنکج چترویدی
آزادی کے 75 سال کے جشن میں ڈوبے ملک کے مدھیہ پردیش میں کھر گون کا ایک باجا بجانے والا اس لیے بھیڑ کے ذریعہ مارا جا رہا تھا کیوں کہ وہ داڑھی رکھے ہوئے تھا اور شبہ تھا کہ وہ مسلمان ہے۔ اس کی پتلون اتار کر اس کے مذہب کی جانچ کی گئی، تب تک وہ نیم مردہ ہو چکا تھا۔اشتہارات میں ترقی کی راہ پر دمکتے ملک میں یکبارگی لگا کہ انسانیت کے نام پر ہم وہیں 75 سال پہلے ہی خاموش کھڑے ہوں جب تقسیم کے دوران اسی طرح کا تشدد ہواتھا۔ مستقبل کے 25 سال جو ہمارے ملک کو 100 سال کا بنا دیں گے، سب سے بڑا چیلنج، عدم تحمل، ذات پات- مذہب کے نام پر تشدد، مزاحمت کو عبور کر کے مہاتما گاندھی کا ملک بنانا ہے۔ حالاں کہ آزادی کی شام بھی جب پورا ملک خوش تھا ، مہاتما گاندھی دور دراز نووا کھا لی میں تشدد روکنے کے لیے بھوکے بیٹھے تھے۔ کیوں کہ اب ہمارے پاس گاندھی جیسی کوئی شخصیت ہے نہیں ، اس لیے چیلنج بہت بڑا ہے۔ آزادی کے 75 سال کے امرت اتسو میں ہماری سرکار، اس کے کئی ادارے ، لوگ محاسبہ کر رہے ہیں کہ ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا۔ صنعت – کاروبار، کار-موٹرسائیکلوںسے ڈھکی چوڑی-چوڑی سڑکیں، اسکول ، کالج، بجلی، لوگوں کی قوت خرید میں اضافہ اور تیزی سے استعمال کی اشیاء کی طرف بڑھتا نچلا اور متوسط طبقہ۔اعدادو شمار کی کسوٹی پر سب کچھ بے حد روشن اور چکاچوند والا دکھائی دیتا ہے لیکن کیا وہ بنیادی سوال ، جو آزادی اور آئین کی بنیادی روح میں پوشیدہ تھے، اپنا جواب یا راستہ پا سکے ہیں؟ جمہوریت ابھی بھی عوام کے ذریعہ اور عوام کے لیے کتنی رہ گئی ہے؟ شماریات کی دلکش تصویروں میں ’گروپ ‘ کی موجودگی کتنی ہے؟ یہ دل ماننے کو تیار نہیں ہے کہ ہم ایک کامیاب جمہوریہ ہیں۔ اگر جمہوریت کے فیصلے عدالتیں کر رہی ہیں اور سیاست کا مقصداقتدار حاصل کرنا۔ مستقبل کے ڈھائی صدی کا سب سے بڑا چیلنج جمہوریت میں ’لوک‘ کی موجودگی ہے۔
2سال پہلے کووڈ کے پھیلائو میں دیکھ چکے ہیں کہ دور دراز کے علاقوں تک صحت خدمات تقریباً ندارد ہیں۔ آج دنیا کے سب سے زیادہ نوجوانو ںوالا ملک ہے ہندوستان اور ظاہر ہے کہ اگلے 25 سال میں سب سے زیادہ عمر کے لوگوں کی آبادی ہمارے پاس ہو گی۔ ان کے لیے بہتر طبی سہولیات نہیں ہوئیں تو ہم ایک بیمار ملک بن سکتے ہیں۔ ویسے بھی آج ملک کی 10 کروڑ سے بھی زیادہ آبادی ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر وغیرہ میں مبتلا ہے۔ پینے کا صاف پانی ، جینے کو صاف ہوا ، حیاتیاتی تنوع کو بچانا ہمارے لیے اگلی دہائی کے اہم چیلنجز ہیں۔ اب موسمیاتی تبدیلی کا اثر صاف دکھائی دے رہا ہے اور اس میں قدرتی آفات اور کاشتکار، شہر کاری اور جنگلات سبھی کی نسلوں پرانی روایات ٹوٹ رہی ہیں ۔ یہ خطرہ بڑھنا ہی ہے اور اب انسان کو نیچر کی تبدیلی کے مطابق خود کو ڈھالنا ہو گا جس میں کھانے پینے ، کام کا طریقہ وغیرہ بہت کچھ بدلنا ہے۔ ہندوستان جیسے بڑی آبادی والے ملک کے سامنے یہ ضروری تبدیلی ہے۔ بڑھتے کارخانوں، گاڑیوں اور گھٹتے درختوں نے ملک کے 65 فیصد سے زیادہ حصے کو ماحولیاتی بحران کے دائرے میں کھڑا کر دیا ہے۔ جن نلوں کی چاہت میں ہم نے کنوؤں، بائولیوں ، تالابوں کو ترک کر دیا تھا۔ وہ اب قصہ پارینہ ہو چکے ہیں اور اب اپنی غلطی کا احساس ہوا، پرانے آبی وسائل کی طرف لوٹنا چاہا تو پایا کہ صدیوں پرانے پانی کے ذرائع پر کنکریٹ کے خواب کھڑے ہوئے ہیں۔ جنگل کم ہو گئے ، کھیت کم ہو گئے، ندیوں کا پانی کم ہو گیا، تالاب- بائولی غائب ہو گئے۔ فی ایکڑ فصل کا رقبہ کم ہوا اور کسان کا منافع تو بڑھتے سالوں کے مقابلے میں گھٹتا ہی چلا جا رہا ہے۔کیا ایک قابل اور کامیاب جمہوریت کے ’گَن‘ کی 75 سالہ حصولیابی ایسی ہی ہونی چاہیے تھی؟ اس ملک میں جہاں روزگار کے کل ذارئع کا 72 فیصد کھیتوں سے اور اس میں کام کرنے والے مزدورں کے خون پسینے سے آتا ہے۔ ماحولیات اور کھیتی آنے والے 25 سال میں سب سے زیادہ توجہ چاہتے ہیں۔
معیشت کی بے حد روشن تصویر دنیا میں ہندوستان کو آنے والے کل کا بادشاہ بتاتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے یہاں بے روزگاری، روزگار کی غیر یقینی اور محنت کی بے قدری بہت خاموشی سے اندر ہی اندر سرایت کر رہی ہے۔ کنٹریکٹ ملامتوں کا نیٹ ورک تیزی سے پھیل رہا ہے۔ عمر کے ساتھ روزگارتحفظ گھٹ رہا ہے۔ ستم ظریفی ہے کہ غریبی اور امیری کے بیچ روز بروز بڑھ رہی خلیج کے سبب بڑھتے جرائم ، نکسلی و دیگر تخریب پسند عناصر کے طاقتور ہونے کو سرکار و سماج نظر انداز کر رہے ہیں ۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ ملک کے 80 کروڑ لوگ غریبی کے سبب گزشتہ ایک سال سے مفت اناج پر منحصر ہیں۔
آزادی کے بعد ملک کے سب سے بڑے المیے کی بات کوئی کرے تو وہ ہے، نقل مکانی۔ کبھی ترقی کے نام پر تو کبھی ماحولیات کے نام پر تو کبھی جبراً ہی، کوئی 64 کروڑ ہندوستانی گزشتہ 75 سالوں کے دوران اپنا گھر-کنبہ، اپنی جائے پیدائش کو چھوڑ کر نا معلوم کلچر، رواجوں، روایات کے بیچ رہنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ اپنی مٹی سے بچھڑے یہ لوگ وقت کے ساتھ بھی نئی زمین پر اپنی جگہ نہیں بنا پائے۔ ان کی بڑی تعداد شہروں کی کچی بستیوں کی تعمیر کا سبب بنی۔ یہ مایوس ، لاچار، غیر بیدار لوگ دولتمندوں کے خزانے کا وزن بڑھانے میں معاون تو ہیں ، لیکن نام نہاد ’مہذب‘سماج کے لیے یہ ابھی بھی بوجھ ہی ہیں۔ ترقی کے نام پر دور دراز کے علاقوں کو کھود -کرید کر کھوکھلا بنا دیا، پھر وہاں سے بھگائے گئے لوگوں سے شہروں کو ’گندی بستی‘ یا شہری سلم بنا دیا۔ آئین نے تو ہمیں اپنی پسند کی جگہ پر اپنے پسند کا روزگار کرنے کی چھوٹ دی تھی، نقل مکانی نے ایک کسان کو رکشہ کھینچنے اور ایک سنگ تراش کو بھیک مانگنے پر مجبور کر دیا۔
قانون ساز اداروں کی بات کیے بغیر آئین کا تجزیہ ادھورا ہی رہے گا، الیکشن لڑنا، جیتنا اور اس کے بعد اپنی مرضی سے کام کروانا، تینوں ہی باتیں اب پیسہ کی طاقت اور بازؤں کی طاقت پر منحصر ہو گئی ہیں۔ اب سیاست میں نظریاتی وابستگی کوئی معنی نہیں رکھتی اور عوام کے ایشوز سے ووٹ بینک پر اثر نہیں پڑتا ۔ جس ملک کی پارلیمنٹ کے 60 فیصد ممبران کروڑ پتی ہوں جہاں ریاستوں کی اسمبلیوں کے نصف سے زیادہ ممبران جرائم میں ملوث ہوں ، جہاں مقامی بلدیاتی انتخابات میں شراب اور شباب کا زور رہتا ہو، جہاں وزیر اعلیٰ عدالت کی لڑائی کو سڑکوں پر شور وہنگامے کے ذریعہ لڑنا چاہتا ہو —- اور بھی بہت کچھ ہے۔ عام لوگوں کی تھوڑی امید عدالتوں میں بچی ہے تو وہاں 5 کروڑ پرانے مقدمات کا انبار ہے اور انصاف پانا مہنگا اور طویل عمل بن گیا ہے۔ آئین کی روح کو بہت تکلیف ہو رہی ہو گی— آزادی کے لیے اپنا سب کچھ لٹانے والوں کی روح بے حد بے چین ہو گی —- 100 ویں سال کے لیے گامزن ہندستان کے جمہوری رتھ کے لیے یہ ایک بڑی رکاوٹ ہو سکتی ہے۔
[email protected]