ایران میں 1953 بغاوت کے 70 سال: ذمہ دار کون؟

0

ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

مشرق وسطیٰ میں عدم استقرار، سیاسی و سماجی اتھل پتھل اور اقتصادی مسائل کے لئے ہمیشہ یہاں کے سماجی ڈھانچہ اور نا اہل قیادت کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ بلکہ اکثر اوقات تو اسلام کو ہی ذمہ دار مان کر یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مسلمانوں کا ایمان و عقیدہ ہی تمام تر مسائل کے لئے ذمہ دار ہے۔ یہ مسئلہ ایک دو سال یا صدی بھر کا نہیں بلکہ صدیوں سے مغرب کا موقف اسلام اور ارض اسلام کے تئیں نہایت معاندانہ رہا ہے۔ انہیں مسلمانوں کے مسائل کے حل کرنے میں کبھی کوئی دلچسپی نہیں رہی ہے بلکہ ان کے لئے مسائل پیدا کرکے ان کے داخلی معاملات میں مداخلت کرنا اور ان کے قدرتی اور انسانی وسائل کو کنٹرول کرنا مغرب کا بنیادی مقصد رہا ہے۔ امریکہ گرچہ دنیا بھر میں یہ پروپیگنڈہ پھیلاتا ہے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ میں جمہوریت کی بحالی کا خواہشمند ہے، لیکن سچائی اس کے بالکل برعکس ہے۔ نائن الیون کے بعد امریکہ کو ایک بہانہ مل گیا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے جس کو چاہے ’ابلیسی نظام‘ Axis of Evil کے دائرہ میں شامل کر دے اور اس پر بمباری کرکے لاکھوں انسانوں کی جان و مال کو تباہ کر دے۔ خواہ اس کے لئے ایک جھوٹ کا ہی سہارا کیوں نہ لینا پڑے، جیسا کہ 2003 میں عراق کے صدام حسین کے خلاف برطانیہ اور امریکہ کی قیادت میں قدرتی ذرائع سے مالا مال اس ملک کی تباہی کا پلان تیار کیا گیا تھا۔ انہیں مشرق وسطیٰ میں جمہوریت کی بحالی سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ ان کا اصل مقصد تیل کے ذخائر پر قابض ہوکر اپنے مفادات کے لئے ان کا استعمال کرنا تھا۔ تقریباً ایسا ہی واقعہ 1953 میں ایران کے اندر ان دونوں سامراجی قوتوں کے ہاتھوں پیش آ چکا ہے۔ محمد مصدق جن کو 1951 میں وزیر اعظم کا منصب سونپنے پر محمد رضا شاہ پہلوی اس لئے مجبور ہوئے تھے، کیونکہ وہاں کی پارلیمنٹ کی اکثریت نے ان کے نام پر مہر قبولیت ثبت کی تھی۔ گویا جمہوری طرز پر جائز طریقہ سے محمد مصدق وزیر اعظم بنائے گئے تھے۔ اگر برطانیہ و امریکہ کو مشرق وسطیٰ میں واقعتا جمہوری نظام کے قیام سے ادنی درجہ میں بھی دلچسپی ہوتی تو محمد مصدق کے خلاف امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے اور برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی 6 کبھی قسم کی سازش نہ کرتی کیونکہ محمد مصدق کی حکومت کو مشرق وسطیٰ میں جمہوریت کی بحالی کے لئے تخم اول کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔ اگر قارئین یہ جاننا چاہیں کہ امریکہ اور مغرب کے خلاف مشرق وسطیٰ اور خاص طور سے ایران میں اس قدر نفرت کیوں پائی جاتی ہے یا دوسرے الفاظ میں خود مڈل ایسٹ کے اندر مسائل کا اس قدر انبار کیوں ہے تو انہیں مصدق کے خلاف کی جانے والی مغربی سازشوں کی تفصیلات کو پڑھنا چاہئے۔ یوں تو برطانیہ نے اب تک رسمی طور پر اس بات کا اعتراف نہیں کیا ہے کہ 1953 میں مصدق کو برطرف کرنے میں اس کا سیدھا رول تھا، لیکن اب اس کی اتنی تفصیلات عام ہوچکی ہیں کہ اس سے غموض کا پردہ بالکل ہٹ چکا ہے۔ غموض کے ازالہ کی دو بنیادی وجہیں ہیں: ایک تو یہ کہ 2017 میں امریکہ نے ان فائلوں کو عام کر دیا تھا جن کا تعلق 1953 میں ایران کے اندر تختہ پلٹ سے تھا۔ دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ ایم آئی 6 جو برطانیہ کی خفیہ ایجنسی ہے اور اس کے خارجی معاملوں پر انٹلیجنس جمع کرنا، جس کی ذمہ داری ہے اس کے سابق سربراہ نے خود اس راز سے ایک انٹرویو میں پردہ اٹھایا ہے۔ نارمن ڈربی شائر Norman Derbyshire وہ برطانوی انٹلیجنس آفیسر ہیں جو ان دنوں ایم آئی 6 کی سربراہی کا فریضہ انجام دے رہے تھے اور ایجنسی کے ’پرسیا‘ Persia اسٹیشن قبرص میں موجود تھے اور محمد مصدق کا تختہ پلٹنے میں کلیدی کردار نبھا رہے تھے۔ ڈربی شائر نے صاف لفظوں میں یہ بتایا تھا کہ برطانیہ ہی نے امریکہ کو اس بات کے لئے راضی کیا تھا کہ محمد مصدق کو اقتدار سے برطرف کیا جائے اور محمد رضا شاہ پہلوی کو ایران کی کلید سونپی جائے۔ ڈربی شائر کا یہ انٹرویو 1985 کی ایک برطانوی سریز End of Empire کے ایک اپیسوڈ میں اس کے بنانے والوں نے استعمال کیا ہے۔ بلاواسطہ طور پر یہ انٹرویو اس اپیسوڈ میں استعمال اس لئے نہیں کیا گیا ہے، کیونکہ ڈربی شائر کیمرہ کے سامنے آنا نہیں چاہتے تھے۔ البتہ الجزیرہ انگلش نے اپنے 2020 کے ایک آرٹیکل میں یہ بتایا تھا کہ ڈربی شائر کے اس انٹرویو کی ٹرانسکرپٹ بھلا دی گئی تھی، لیکن اسی برس مزید ایک ڈوکیومنٹری Coup 1953 کے نام سے جب بنی تو اس کو تلاش بسیار کے بعد نکالا گیا۔ مذکورہ بالا ڈوکیومنٹری تختہ پلٹ کی 67ویں برسی پر نشر کی گئی تھی۔ ڈربی شائر کا انتقال تو 1993 میں ہی ہوگیا تھا، لیکن اس ٹرانسکرپٹ کو امریکہ کی جورج واشنگٹن یونیورسٹی کی نیشنل سیکورٹی آرکائیو نے 2020 میں دوبارہ شائع کیا تھا۔ برطانیہ اور امریکہ نے محمد مصدق کو برطرف کرنے کا جو پلان تیار کیا تھا اس کا نام Operation Ajax رکھا تھا۔ یہ آپریشن 19اگست 1953 کو کامیاب ہوگیا۔ محمد مصدق کو گرفتار کیا گیا اور ان پر اپنے ہی ملک کے خلاف سازش کا الزام عائد کیا گیا۔ عدالت میں مقدمہ چلا اور تین سال کی قید میں ان کو تن تنہا رہنا پڑا۔ جب قید کی تین سالہ مدت ختم ہوئی تو انہیں 14برس تک ان کے گھر میں ہی نظر بند رکھا گیا جہاں ان کی موت ہوگئی۔ قارئین یہ ضرور جاننا چاہیں گے کہ آخر یہ تختہ پلٹ کس لئے ہوا؟ اس کی بنیادی وجہ یہ مانی جاتی ہے کہ محمد مصدق نےAnglo Iranian Oil Companyکو نیشنلائز کر دیا تھا کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ایران کے قدرتی ذخائر سے برطانیہ اور مغرب لطف اندوز ہوں اور ان کے اپنے لوگ بھوکوں مریں۔ اس کے علاوہ مصدق نے ایسی اقتصادی پالیسیاں وضع کی تھی، جن کا سیدھا فائدہ چھوٹے تاجروں، مزدوروں اور غریبوں کو پہنچنے والا تھا۔ یہ بات برطانیہ کو منظور نہیں تھی۔ اس لئے ایم آئی 6 نے محض دو سالوں کے اندر محمد مصدق کو راستہ سے ہٹانا ضروری سمجھا۔ اس مقصد کے حصول کے لئے چرچل کی حکومت نے امریکہ کو اپنا ساجھی بنانے کی پیشکش کی، لیکن روزویلٹ کے ادارہ نے اتفاق نہیں کیا البتہ جب آئزن ہاور امریکہ کے صدر بنے تو انہوں نے اس معاملہ پر برطانیہ کے ساتھ اتفاق کر لیا۔ اب اگلا پلان یہ تھا کہ خود محمد رضا شاہ کو تختہ پلٹ معاملہ کے لئے راضی کیا جائے۔ شاہ کی عمر اس وقت صرف 33 سال تھی جو اپنی 20 سالہ خوبصورت بیوی کی دنیا میں محو رہتا تھا۔ اس لئے شاہ کی بہن شہزادی اشرف کو راضی کرنے کی کوشش ہوئی کہ وہ پیرس سے تہران آ جائیں۔ پہلے پہل تو تھوڑی جھجھک ان میں تھی، لیکن ڈربی شائر کے بقول جب نوٹوں کی گڈیوں کو انہوں نے دیکھا تو ان کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ ڈربی شائر کے مطابق برطانیہ نے سات لاکھ پاؤنڈ اس زمانہ میں محمد مصدق کو ہٹانے کے لئے خرچ کیا گیا تھا۔ ایک اور سوال کا جواب باقی ہے۔ کیا ایسا ممکن تھا کہ اگر مصدق اینگلو۔ایرانین آئل کمپنی پر سے نیشنلائزیشن کا ٹیگ ہٹا لیتے اور برطانیہ کے مفادات کا خیال رکھ لیا جاتا تو مصدق کو حکومت میں بنے رہنے کی اجازت دے دی جاتی؟ ڈربی شائر کا ماننا ہے کہ ایسا نہیں ہوتا کیونکہ یہ بات طے ہوچکی تھی کہ مصدق کو جانا ہوگا، کیونکہ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو سوویت یونین کا قبضہ ایران پر ہوجاتا جو امریکہ اور برطانیہ دونوں کو قبول نہیں تھا۔ابتدا میں امریکہ مصدق کو صرف اس لئے نہیں ہٹانا چاہتا تھا، کیونکہ اس کا ماننا تھا کہ مصدق کا وجود کمیونزم کے خلاف ایک ڈھال ہے۔ لیکن جب برطانیہ نے امریکہ کو یہ یقین دلایا کہ مصدق ایک کمزور شخصیت کا مالک ہے اور جلد یا دیر سے ہی سہی وہ کمیونزم کے ہاتھوں میں چلا جائے گا تو پھر دونوں کے درمیان مقصد کے اتحاد میں کچھ بھی رکاوٹ باقی نہیں رہ گئی تھی۔ ان واقعات کو اس طرح بہتر طریقہ سے سمجھا جا سکتا ہے اور یہ بھی ملحوظ خاطر رہے کہ یہ دور سرد جنگ کا تھا جس میں سوویت یونین کے خلاف مغرب کی قیادت امریکہ بہادر کر رہا تھا۔ امریکہ کے لئے یہ سودا کافی مہنگا پڑا اور 1979 میں جب خمینی انقلاب برپا ہوا تو اس میں امریکہ اور مغرب کے خلاف ایندھن کو بطور خاص انقلاب کے لئے استعمال کیا گیا، کیونکہ ایرانیوں کا ایسا سمجھنا ہے کہ اگر سی آئی اے شاہ کو واپس نہیں لاتا تو روم سے اس کی واپسی ممکن نہیں تھی۔ صرف خمینی انقلاب کے وقت ہی امریکہ کو اس کی بڑی قیمت نہیں چکانی پڑی بلکہ آج تک دونوں ملکوں کے تعلقات ٹھیک نہیں ہو پائے ہیں۔ ایرانی آج بھی مانتے ہیں کہ ان کے ملک میں جو مسائل پیدا ہوتے ہیں ان میں سی آئی اے کا منفی کردار ضرور ہوتا ہے۔ غالباً یہی بات پورے مشرق وسطی کے حوالہ سے بھی کہی جا سکتی ہے۔ شاید امریکہ اور مغرب کی ماضی میں بنائی گئی ایسی ہی تباہ کن پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ آج سعودی عرب، امارات اور ایران سبھی امریکہ سے دوری بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور چین جیسی ابھرتی ہوئی نئی طاقت کے ساتھ اپنا رشتہ مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ اگرچہ اب تک امریکہ کا دبدبہ اس خطہ میں بہت حد تک برقرار ہے، لیکن اس سے آزادی کا جذبہ یہاں کے ہر چھوٹے بڑے ملک کے اندر پوری شدت سے موجود ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ برکس کی توسیع اور عرب و ایران کا اس کا حصہ بننے سے امریکہ کا اثر کتنا کم ہوتا ہے۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS