خوشحال زندگی کی بنیاد اور نئی نسل

0

محمد حنیف خان

خوشحال زندگی کی بنیاد روزگار کے مواقع اور ملازمت پر ہے،اسی میں اگر مہنگائی سے نجات کو جوڑ دیا جائے توہر طرف چین ہی چین ہوگا لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ ہندوستان میں یہ تینوں باتیں اس وقت عنقا کی حیثیت رکھتی ہیں۔نہ تو روزگار کے مواقع ہیں ،نہ ہی ملازمت مل رہی ہے اور مہنگائی کا عالم یہ ہے کہ دو وقت کی روٹی نصیب نہیں ہوتی۔ایسے میں اس وقت ہندوستان کا منظر نامہ کچھ یوں ہے کہ نئی نسل کو نہ تو روزگار مل رہا ہے اور نہ ہی ملازمت ،جن کے کندھوں پر بچوں کی پرورش اور تعلیم کا بوجھ ہے وہ بالکل جھک چکے ہیں۔ہر شخص کو یہ امید ہوتی ہے کہ اس کا بیٹا جوان ہوگا تو وہ اس کے کام میں ہاتھ بٹائے گا،روزگار کرے گا یا ملازمت کرکے اس کو ذمہ داریوں سے سبکدوش کرے گا۔مگر شہر سے لے کر دیہات تک نوجوان ہونقوں کی طرح ٹہل رہے ہیں۔کسان سردی گرمی کی پروا نہ کرتے ہوئے محنت کر کے فصل تیارکرتے ہیں جس میں ان کے بچے برابر کی محنت کرتے ہیں مگر ان کو ان کی فصل کی قیمت نہیں ملتی۔شہر کا نوجوان پڑھ لکھ کر آگے بڑھنا چاہتا ہے مگر اس کے لیے مواقع نہیں ہیں۔بے روزگاری کی تفصیلات جمع کرکے جاری کرنے والے ادارے سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی (سی ایم آئی ای )کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک میں 3.03کروڑ نوجوان بے روزگار ہیںجو لاک ڈاؤن کے ایام سے بھی زیادہ ہے۔29برس کے نوجوانوں میں 95فیصد بے روزگار ہیں۔اسی طرح 1.18کروڑ ایسے گریجویٹ ہیں جنہیں ملازمت یا روزگار کی تلاش ہے۔ 15برس سے 19برس کے 40.13لاکھ نوجوان خالی ہاتھ ٹہل رہے ہیں۔20سے 24برس کے 2.03کروڑ نوجوان اور 25سے 29برس کے 60.69کروڑ نوجوان بے روزگار ہیں۔جن کی کل تعداد 3.03کروڑ ہوتی ہے۔یہ اعداد و شمار ستمبر تا دسمبر 2021کے ہیں۔ان میں 1.24کروڑ ایسے نوجوان ہیں جو مایوسی کی گہرائیوں میں ڈوب چکے ہیں اور انہوں نے روزگار یا ملازمت کی تلاش ہی بند کردی ہے۔یہ سرکاری اعداد و شمار ہیں،زمینی حقیقت اس سے کئی گنا زیادہ بھیانک ہے۔
یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ اتنی بے روزگاری کے باوجود اہل اقتدار جو کرسیوں سے چمٹے ہوئے ہیں وہ کچھ کرنے کے بجائے آج بھی نوجوانوں کو صرف خواب دکھا رہے ہیں۔ جن کے ہاتھوں کو کام نہیں مل رہا ہے اور وہ مایوس ہو رہے ہیں، ان کی فکر کرنے کے بجائے وزارت عظمیٰ جیسے عہدہ جلیلہ پر فائز شخص اسمبلی انتخابات میں اپنی پارٹی کو کامیابی دلانے کے لیے عوام سے وعدے کرتا ہے کہ وہ ایسا نظام بنا کر کھڑا کر دیں گے جس سے آوارہ مویشیوں کے گوبر سے بھی آمدنی ہو۔حالانکہ مختلف وزارتوں اور دیگر سرکاری اداروں میں کروڑوں کی تعداد میں اسامیاں خالی ہیں مگر ان پر بھرتی نہیں ہو رہی ہے۔وزیراعظم کے ذریعہ دکھائے جانے والے خوابوں کی تعبیر کی حقیقت کا اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جس شخص کے ہاتھوں میں منٹوں میں کروڑوں نوجوانوں کی قسمت بدلنے کی استطاعت ہو وہ ایسا نہ کرکے صرف خواب دکھا رہا ہے۔اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کے باوجود کہیں بھی خوشحالی کی بنیاد روزگار،ملازمت اور مہنگائی سے نجات پر بات نہیں ہو رہی ہے۔حکمراں طبقہ ایک نیا خواب لے کر ریلیوں میں پہنچتا ہے جو عوام کی آنکھوں میں بھر دینا چاہتا ہے اور جہاں خواب نہیں بیچے جاتے وہاں مذہب اور اس کی بنیاد پر تشدد ،بم دھماکوں اور اقلیتوں کا خوف دکھا کر عوام کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔حالانکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ وہ روزگار ،ملازمت اور مہنگائی سے نجات پر بات کرتے اور عوام کے سامنے ایک نیا روڈ میپ رکھتے اور بتاتے کہ اب تک یہ ہوا ہے اور آئندہ ہم ایسا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیںجس سے نوجوانوں کو روزگار ملے گا،ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے اور مہنگائی سے نجات ملے گی۔
ایسا نہیں ہے کہ ملک میں روزگار کے مواقع نہیں ہیں یا یہاں ملازمتوں کا فقدان ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق 31مارچ 2021کو مرکزی حکومت کے ماتحت محکموں اور اداروں میں 872243 اسامیاں خالی تھیں جس میں سے 78264 پر بھرتی کی گئی، تقریباً 8لاکھ عہدے اب بھی خالی پڑے ہیں۔کیا مرکزی حکومت کو یہ ملازمتیں نظر نہیں آ تی ہیں؟یہ وہ مواقع ہیں جو مرکز کے تحت ہیں اور سب کے سامنے ہیں۔مختلف ریاستی حکومتوں کے ماتحت بھی کروڑوں ملازمتیں ہیں مگر ان پر کوئی حکومت بھرتی نہیں کرنا چاہتی ہے،جس کی ایک سب سے بڑی وجہ آؤٹ سورسنگ اور اس میں کیا جانے والا غبن ہے جو کبھی سامنے دکھائی نہیں دیتا ہے۔اس کے علاوہ ایڈہاک یا وقتی طور پر ان عہدوں پر جنہیں بھرتی کیا جاتا ہے، ان کو جہاں ایک طرف کم اجرت دی جاتی ہے، وہیں ان سے ذاتی بیگار بھی لیا جاتا ہے اور وہ شخص مجبوراً ایسا کرتا بھی ہے کیونکہ اس کے پاس مستقل ملازمت نہیں ہوتی ہے مگر ایسے عہدوں کی تعداد مذکورہ اسامیوں میں تقریباً 30فیصد ہی ہے باقی تو بالکل خالی ہیں۔
جب کبھی حکمرانوں سے سوال کیا جاتا ہے کہ آخر وہ بھرتیاں کیوں نہیں کرتے؟تو اول تو یقین دہانی کرائی جاتی ہے کہ جلد ہی سرکاری نوکریوں کا وہ اعلان کرائیں گے اور بھرتیاں ہوگی لیکن یہ جلد کبھی آتا نہیں ہے۔دوم وہ جواب دیتے ہیں کہ ان ملازمین کو تنخواہیں کہاں سے دی جائیں گی؟ ان کے یہ دونوں جواب کوئی زمینی حقیقت نہیں رکھتے ہیں۔ حکومت کے پاس نہ تو پیسوں کی کمی ہے اور نہ ہی وہ کسی مجبوری کی وجہ سے خالی عہدوں کو پرنہیں کرتے ہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک ایسا منصوبہ ہے جس پر کبھی بات نہیں کی جاتی لیکن حقیقت وہی ہے۔
در اصل حکومتوں کو معلوم ہے کہ اگر نوجوانوں کو روزگار مل جائے گااور وہ خوشحال زندگی گزارنے لگیں گے تو پھران کو کفش برداری کرنے والے نہیں ملیں گے۔ایسے میں ان کا اور ان کی پارٹی کا کیا ہوگا؟ چونکہ سیاست میں وہی بڑا کھلاڑی مانا جاتاہے جسے خواب بیچنے کا ہنر آتا ہو اور یہ خواب خالی پیٹ اور خالی آنکھ والے ہی خرید سکتے ہیں۔اس لیے ان کا سب سے پہلا ہدف یہ ہوتا ہے کہ نوجوانوں کی ایک ایسی فوج ہمیشہ ان کے پاس ہونی چاہیے جو ان کی بے گاری اور ان کے لیے نعرے بازی کرنے والی ہو۔یہ سچ ہے کہ سیاست میں فائدہ چند معدودے افراد ہی اٹھاتے ہیں لیکن سیاست اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی ہے جب تک پیچھے ایک جم غفیر نہ ہو۔اسی لیے نوجوانوں کو منصوبہ بند طریقے سے خالی ہاتھ رکھا جا رہا ہے۔
حکومتیں اگر چاہ لیں تو یقینا عوام کی زندگی خوشحال ہوسکتی ہے،ان کو روزگار بھی مل سکتا ہے،ملازمت کے مواقع بھی پیدا ہو سکتے ہیں اور مہنگائی سے نجات بھی مل سکتی ہے۔لیکن اس کے لیے اسٹیج پر گرجنے برسنے کے بجائے سنجیدگی سے غور و فکر اور پھر اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔حکومت اگر ایم ایس پی لازم کردے تو کسانوں اور ان کے بچوں کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے،اگر روزگار کے لیے بینکوں سے ملنے والا قرض آسانی سے فراہم کردے تو ایک بڑے طبقے کے مسائل حل ہوسکتے ہیں،لیکن ایسا نہیں ہو رہا ہے۔ کاغذی سطح پر تو ایسا لگتا ہے کہ کسانوں اور نوجوانوں کو روزگار کے لیے فوراً قرض مہیا ہوجاتا ہے لیکن جب کوئی بینک پہنچتا ہے تب پتہ چلتا ہے یہاں بھی کیسے کیسے کھیل ہوتے ہیں اور کتنی فیصد رقم بینک منیجر اور دلال کھاجاتے ہیں جسے سود سمیت اس بے روزگار اور کسان کو واپس کرنی ہوتی ہے۔یہ ملک بہت زرخیز اور متنوع ہے۔یہاں سے زیادہ شاید کہیں اتنے مواقع ہوں کہ نوجوان آسمانوں پر کمندیں ڈال سکیں مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ جس طبقے کے ہاتھ میں زمام حکومت ہے، ان میں نصف سے زائد کوئی وژن نہیں رکھتے ہیں،ان میں کثیر تعداد تو ایسے افراد کی بھی ہے جو تعلیم کی اہمیت ہی نہیں جانتے، جہاں تک بات نوکر شاہوںکی ہے تو وہ ہمیشہ عوام سے زیادہ اپنا نفع دیکھتے ہیں کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ وہ جتنا نوچ کھسوٹ لیں وہی ان کو ملنے والا ہے ،اس لیے وہ عوام کے بجائے اپنے سیاسی آقا کو خوش کرکے اپنی جیبیں بھرنے پر توجہ دیتے ہیں۔ایسے میں نوجوانوں کی قسمت کہاں بدل سکتی ہے؟اس لیے ضرورت ایسے حکمرانوں کی ہے جو پڑھے لکھے ہوں ،جن کے پاس بصارت اور بصیرت کے ساتھ ہی عوام کے دکھ درد کو محسوس کرنے والا دل بھی ہو ،آنکھوں میں صرف خواب بھر کر تھوڑی دیر خوش کرنے میں یقین رکھنے کے بجائے خوشحالی کی بنیادوں پر توجہ دینے اور عزم وحزم کے ساتھ عوام کی قسمت بدلنے کا جذبہ رکھنے والے ہوں تبھی ملک کی قسمت بدل سکتی ہے اور خوشحالی آ سکتی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS