نئی دہلی: آبرو ریزی اور قتل کی بڑھتی واردات کے بعد سیاسی جماعتوں کے نمائندگان پر بھی انگشت نمائی کی جانے لگی ہیں۔ سماجی و ملی تنظیموں کے ساتھ ساتھ بے باک لیڈران بھی یہ آواز بلند کررہے ہیں کہ پہلے سیاسی جماعتوں کو اپنی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ بیشتر سیاسی جماعتوں کے امیدوار عصمت دری، قتل اور غنڈہ گردی کے واقعات میں ملوث رہتے ہیں، اور ان پر مقدمہ بھی چل رہا ہوتا ہے، اس کے باوجود انہیں ٹکٹ دیا جاتا ہے اور وہ جیت بھی جاتے ہیں۔ اس کے بعد ان پر سے سارے معاملے اٹھا لیے جاتے ہیں۔
اگر ہم مجموعی طور پر سیاسی جماعتوں کے ان لیڈران پر نظر ڈالیں، جن پر عصمت ریزی اور جرائم کے معاملے درج ہیں، تو ان کی بڑی تعداد نظر آتی ہے۔
مثلاً 2014 اور 2019 کے درمیان ہونے والے اسمبلی انتخابات میں ایسے 63 ارکان اسمبلی منتخب ہوئے ہیں، جن پر خواتین کے خلاف جرائم کے مقدمات درج ہیں۔
حیدرآباد میں ویٹرنری ڈاکٹر کی اجتماعی عصمت دری اور قتل کے معاملے پر پارلیمنٹ میں سیاسی جماعتوں کے لیڈران نے گھنٹوں بحث کی۔ اور دہلی میں 16دسمبر 2012 کو ہوئے نربھیا کیس کے 7 سال مکمل ہوچکے ہیں۔ جس پر اب بھی مستحکم آئین نہیں بنائے گئے ہیں اور مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ بھی تشویش کا اظہار کررہے ہیں۔
وزیر داخلہ کہا کہ اگر سب مل کر آئیں تو ہم مزید سخت قوانین بنانے کو تیار ہیں۔ لیکن اس سال ہونے والے لوک سبھا انتخابات کے دوران سب کا یکساں رویہ تھا۔ سیاسی جماعتوں نے 88 ایسے امیدواروں کو ٹکٹ دیا تھا، جو خواتین کے خلاف جرائم کے مقدمات کا سامنا کر رہے تھے۔ اور بی جے پی بھی اس معاملے میں پیش پیش ہے۔
غور طلب ہے کہ بی جے پی نے 15 ایسے امیدواروں کو ٹکٹ دیا تھا ، جن پر خواتین کی عصمت ریزی کے مقدمے درج ہیں۔ جس میں سے میں سے 10 امیدوار جیت کر پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے ہیں۔
دوسرے نمبر پر کانگریس ہے، جس نے ایسے 9 امیدواروں کو ٹکٹ دیا تھا، جن میں سے 5 امیدواروں نے کامیابی حاصل کی تھی۔ فی الحال خواتین کے خلاف جرائم کے الزام میں 88 امیدواروں میں سے 19امیدوار ابھی بھی لوک سبھا میں ہیں۔ ان میں سے تین ایسے امیدواروں پر عصمت دری کا الزام ہے۔
آزاد امیدوار بھی اس فہرست میں پیچھے نہیں ہیں،ایسے 38 آزاد امیدواروں پر بھی خواتین جرائم کے خلاف مقدمات درج تھے،
لیکن یہ سبھی امیدوار انتخابات ہار گئے۔ یہ اعداد و شمار 7928 امیدواروں کے حلف ناموں کی بنیاد پر تیار کردہ اے ڈی آر کی رپورٹ کے مطابق ہیں۔
31 اسمبلی انتخابات میں ، 443 امیدواروں پر خواتین کے خلاف جرم کے مقدمات درج تھے۔
گذشتہ پانچ سالوں میں 29 ریاستوں اور 2 مرکزی علاقوں میں اسمبلی انتخابات ہوئے۔ جس میں کل 40،690 امیدوار میدان میں تھے۔ ان میں سے 443 امیدواروں پر خواتین کے خلاف ظلم و ستم کے مقدمات درج تھے۔ بی جے پی میں سب سے زیادہ 49 ایسے امیدوارشامل تھے۔ جس میں کانگریس کے ایسے 41 امیدوار تھے۔
443 امیدواروں میں سے 63 ایم ایل اے بنے۔ 13ایم ایل اے بی جے پی کے اور کانگریس کے 14 ایم ایل اے ہیں۔
- Business & Economy
- Education & Career
- Health, Science, Technology & Environment
- Opinion & Editorial
- Politics
پارلیمنٹ اور اسمبلی کے اراکین پر خواتین عصمت ریزی اور ظلم و ستم کے معاملے، بی جے پی میں 49 لیڈران پر آبروریزی اور جرائم کے معاملے، کانگریس دوسرے نمبر پر
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS