محمد فاروق اعظمی
حکومت ہر ایسی رپورٹ ، خبر، سر وے اور جائزہ کو غلط ، مبنی بر تعصب اور ملک دشمن قرار دے دیتی ہے جس میں اس کی ناکامیوں کا ذکر کیا یا غلطیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔اپنی اس روایت کو برقرا ررکھتے ہوئے مرکزی حکومت نے گزشتہ ماہ گلوبل ہنگر انڈیکس 2021میں ہندوستان کی پوزیشن 101 بتائے جانے پر بھی شدید ناراضگی کاا ظہار کرتے ہوئے اسے زمینی حقیقت کے برخلاف بتایا تھا۔ انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے جاری ہونے والی رپورٹ میں ہندوستان کی صورتحال کو انتہائی تشویش ناک قراردیتے ہوئے اس کی رینکنگ کم کردی گئی تھی۔ گزشتہ سال 2020میں گلو بل ہنگر انڈیکس میں ہندوستان 94ویں نمبر پر تھا۔ اس فہرست میں ہندوستان اپنے ہم سایہ ممالک پاکستان، بنگلہ دیش اور نیپال سے بھی پیچھے بتایاگیا۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اپنی کمیوں، خامیوں اور غلط پالیسی کا جائزہ لیتے ہوئے اس کے اصلاح کی کوشش کی جاتی لیکن حکومت اپنی روایت سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹی ہے اوراس نے اس رپورٹ کو ہی گمراہ کن بتاتے ہوئے سروے کرنے والی ایجنسی کی ساکھ پرہی سوال کھڑے کردیے ہیں۔
گلوبل ہنگر انڈیکس یعنی بھوک سے متعلق عالمی اشاریہ میں دنیا کے تمام ملکوں میں کھانے پینے کی صورتحال کی تفصیلی معلومات ہوتی ہے۔ 17اکتوبر1993کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک قرار داد منظور کی گئی تھی جس کا موٹو تھا ’’جب بھی کوئی انسان انتہائی غربت میں رہنے پر مجبور ہو گا، تو یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی اور ان حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانا ہماری بنیادی ذمہ داری ہے۔‘‘ اس کے بعد سے اس سلسلے میں کام کا آغاز ہوااور اس کیلئے فنڈ مختص کیے گئے۔ عالمی برادری نے غربت کے خاتمہ کی کوششو ں کا ڈول ڈالا اور اپنے اپنے طور پراس کے انسداد کا عہد کیا۔ گزشتہ سال عالمی برادری نے یہ عہد کیاتھا کہ 2030تک پوری دنیا سے بھکمری ختم کردی جائے گی۔
گلوبل ہنگر انڈیکس میں یہ بھی بتایاجاتا ہے کہ کس ملک میں لوگوں کو کس طرح کے کھانے کا سامان مل رہاہے۔اس کا معیار اور مقدار کیا ہے۔ غذائیت والے کھانوں کی فراہمی کی صورتحال کیسی ہے، بھوکے رہ جانے اوربھوک سے مرنے والوں کی تعداد کتنی ہے۔ دستیاب اعداد و شمارکی بنیاد پر سبھی ملکوں کی رینکنگ کی جاتی ہے اوران سب کی تفصیلی رپورٹ ہر سال اکتوبر میں ’گلوبل ہنگر انڈیکس رپورٹ، کے نام سے جاری کی جاتی ہے۔
اس سال 17اکتوبر کو جاری ہونے والے گلوبل ہنگر انڈیکس کو وزارت بہبود برائے خواتین و اطفال نے مسترد کرتے ہوئے کہاتھاکہ رینک دینے والے متعلقہ ادارے نے زمینی حقیقت کو نظر انداز کیا اور اس کے طریق کار میں سنگین خامیاں ہیں۔ ہندوستان کے مطابق سروے کرنے والے ادارہ ویلتھ ہنگرہلف (Welthungerhilfe) اور ورلڈ وائلڈکنسرن (Worldwide Concer) نے رپورٹ کیلئے مطلوب ضروری کام نہیں کیا ہے۔یہ رپورٹ حقائق سے عاری ہے اوراس میں سنگین خامیاں ہیں۔
دلچسپ بات تو یہ ہے کہ بین الاقوامی ادارہ کی سروے رپورٹ کو گمراہ بتاکر اور حقائق سے عاری بتانے والی اسی وزارت بہبود برائے خواتین اطفال میں چند یوم قبل یہ تسلیم کرلیا ہے کہ ہندوستان سنگین غذائی قلت کا شکار ہے۔ گلوبل ہنگر انڈیکس(جی ایچ آئی) 2021 میں ملک کی پوزیشن 101بتائے جانے پر حکومت کی جانب سے اسے غلط اور گمراہ کن قرار دینے کے بعد یہ آرٹی آئی خبر رساں ایجنسی پریس ٹرسٹ آ ف انڈیا( پی ٹی آئی ) نے اسی وزارت بہبود برائے خواتین اطفال کو داخل کی تھی۔اس آر ٹی آئی کا جواب دیتے ہوئے وزارت نے کہا ہے کہ ہندوستان میں33لاکھ بچے غذائی قلت سے گزررہے ہیں اوران میں نصف سے زیادہ یعنی17.76لاکھ بچوں کو شدید غذائی قلت اور15.46لاکھ بچوں کو غذائی قلت کا سامنا ہے۔ یہ اعداد و شمار 34 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے ہیں۔ غذائی قلت کے معاملے میں ریاست کے لحاظ سے مہاراشٹر، بہار اور گجرات کے نام سرفہرست ہیں۔نیوٹریشن(غذائی) پروگراموں کی نگرانی کیلئے تیار کی گئی ’نیوٹریشن ٹریکر ایپ‘ پر دستیاب ڈیٹا کے مطابق مہاراشٹر میں غذائیت کی کمی کے شکار بچوں کی کل تعداد 6.16لاکھ ہے جن میں ایس اے ایم بچے 4.58 لاکھ اور 1.57لاکھ ایم اے ایم بچے ہیں جب کہ دوسری پوزیشن بہار کی ہے جہاں کل 4.75لاکھ بچوں کو شدید غذائی قلت کا سامنا ہے ان میں1.52لاکھ ایس اے ایم ا ور3.23لاکھ ایم اے ایم بچے ہیں۔ گجرات تیسری پوزیشن پر ہے جہاںایسے بچوں کی تعداد 3.20 لاکھ ہے ان میں 1.65 لاکھ ایس اے ایم اور 1.55 لاکھ ایم اے ایم بچے ہیں۔
یہ اعداد و شمار ایک سال پہلے کی صورتحال کے مقابلے میں زیادہ تشویشناک صورتحال کو ظاہر کرتے ہیں۔ نومبر 2020 سے 14 اکتوبر 2021 کے درمیان شدید غذائی قلت کے شکار بچوں کی تعداد میں 91 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق شدید غذائیت کی کمی کے شکار (Severe Acute Malnutrition)(ایس اے ایم) بچے یعنی جن کا وزن اور قد کا تناسب بہت کم ہے، ان کی تعداد17.76لاکھ ہے اور اس سے ایک درجہ نیچے یعنی زیادہ غذائیت کی کمی کا شکار (Moderate Acute Malnutrition )(ایم اے ایم ) بچوں کی تعداد 12.24لاکھ ہے۔ ان بچوں کی قوت مدافعت بھی انتہائی کم ہے اور ان کو بیماری اور موت کا خطرہ بھی زیادہ ہے۔
گلو بل ہنگر انڈیکس2021 اور وزارت برائے بہبود خواتین و اطفال کے اعداد وشمار میں ملک میں غذائی قلت کی تکلیف دہ اور المناک صورتحال کا اظہار ہے۔ دونوں رپورٹوں کے جائزہ سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ انسان کے سب سے بڑے اور بنیادی مسئلہ کی جانب سے ہندوستان میں کوئی توجہ ہی نہیں دی جارہی ہے۔ ’ گجرات ماڈل‘ کی بات کرتے ہوئے وکاس کے بلند بانگ دعوئوں کے ساتھ اقتدار پر قبضہ کرنے والی مرکزی حکومت نے ملک سے غذائی قلت ختم کرنے کیلئے کوئی کام ہی نہیں کیا ہے۔بھکمری اور غذائی قلت کا کوئی مستقل حل حکومت کے ایجنڈے میں ہی نہیں ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی جس گجرات ماڈل کا ڈنکا بجارہے تھے خود وہاں غذائی قلت کی صورتحال برسوں سے انتہائی سنگین بنی ہوئی ہے۔2014کے بعد سے تو صورتحال اور بدتری کی جانب ہی بڑھتی گئی ہے۔ مودی حکومت سے قبل ہندوستان گلوبل ہنگر انڈیکس میں55ویں مقام پر تھا جو دھیرے دھیرے نیچے کھسکتے ہوئے آج 101 ویں مقام پر پہنچ گیا ہے۔جب ہم130کروڑ کی آبادی میں 33 لاکھ بچوں کی غذائی قلت دور نہیں کرسکتے ہیں تو ہمیں ترقی کے دعوے کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا ہے۔ہم تو اپنے بچوں کی بھوک مٹانے کے معاملے میں پاکستان، بنگلہ دیش اور نیپال سے بھی پیچھے ہیں، ایسے میں ہمیں ’ وشو گرو‘ بنناتو دور کی بات ہے امریکہ و برطانیہ کی ہم سری کا بھی کوئی حق نہیں پہنچتا ہے۔
[email protected]