شاہد زبیری
2024 کے پارلیمانی انتخابات کولے کر ملک میں غیر بی جے پی پارٹیاں آر پار کی لڑائی کے موڈ میں ہیں۔ ان کو یہ احساس ہو چلاہے کہ اگر 2024 میں بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل نہیں کیا گیا ’تو اب نہیں تو پھر کبھی نہیں‘ کے حالات پیدا ہوسکتے ہیں اور ملک ہی کو نہیں بشمول کانگریس غیر بی جے پی پارٹیوں کو بھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑسکتا ہے۔ اسی لیے 18 فروری، 2023 کو بہار میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مالے) کے کھلے اجلاس میں غیر بی جے پی پارٹیوں کے لیڈروں کی موجود گی میں بہار کے وزیر اعلیٰ اور جنتا دل یونائٹیڈ کے قائد نتیش کمار نے کہا کہ اب کانگریس کو فیصلہ کر نا پڑے گاکہ 2024 کاکیا روڈ میپ تیا ر کیا جائے، اپوزیشن جماعتوں کو کیسے مضبوط کیا جائے اور کیسے صف بند کیا جائے۔ نتیش نے یہ پیش گوئی تک کر دی کہ اگر کانگریس دیگر جماعتوں کو ساتھ لے کرچلنے پر راضی ہو جا ئے تو 2024 کے پارلیمانی انتخاب میں بی جے پی کو صرف 100 سیٹوں پر سمیٹا جا سکتا ہے گو کہ اس اجلاس میں کانگریس کی نمائندگی کرتے ہوئے سلمان خورشید نے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملائی اور کہا کہ نتیش جی جیسا سوچتے ہیں، کانگریس بھی ایسا سوچتی ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ آئی لو یو پہلے کون کہے۔ ’آئی لو یو‘ تو کانگریس کو ہی کہنا چاہیے، اس لیے کہ کانگریس کا دعویٰ ہے کہ وہ ملک کی سب سے بڑی پارٹی ہے۔
نتیش کمار نے اپوزیشن اتحاد کی گیند کانگریس کے پالے میں ڈال دی ہے۔ کانگریس کے صدر ملکارجن کھڑگے اور راہل گاندھی کو اب پہل کر نی ہے۔ راہل گاندھی ان دنوں سرینگر میں برف باری کے مزے لے رہے ہیں۔ ان کی تصاویر فیس بک پر آرہی ہیں جن میں وہ اسکیٹنگ کا لطف اٹھا رہے ہیں۔ ان کی ’بھارت جوڑو یاترا‘ کو آج 19 دن گزر چکے ہیں لیکن کانگریس کی طرف سے بظاہر اپوزیشن کے اتحاد کی کوئی پہل ہوتی نظر نہیں آرہی ہے۔ شاید ’بھارت جوڑو یاترا‘ کی کامیابی نے کانگریس کو اس مغالطے کا شکار بنا دیا ہے کہ پورا ملک اب اس کی چھتر چھایا میں آگیا ہے۔ اگر وہ ایسا سمجھتی ہے تو یہ اس کی سیاسی بھول ہوگی۔ مانا راجستھان اور ہماچل پردیش میں کانگریس کی حکومت ہے جبکہ مدھیہ پردیش اور کرناٹک میں وہ بڑی اپوزیشن پارٹی ہے لیکن ملک کے باقی حصوں میں کانگریس کی حالت پہلے سے ہی پتلی ہے۔ پنجاب کے اسمبلی انتخابات میں عام آدمی پارٹی نے اس کی ہوا نکال دی۔ ہماچل پردیش میں اس کی کامیابی کی اصل وجہ انٹی اِن کیمبنسی مانی جاتی ہے۔ یوپی اور بہار ہی نہیں، تملنا ڈو، تلنگانہ ، اوڈیشہ، مہاراشٹر، بنگال، ہریانہ، پنجاب اور دہلی میں بھی کانگریس کی حالت خستہ ہے۔ اس حقیقت کا ادراک کانگریس کو ہونا چاہیے۔ ’بھارت جوڑو یاترا‘ کی کامیابی نے کانگریس سے زیادہ راہل کی شبیہ کو بہتر بنایا ہے۔ راہل گاندھی نے بی جے پی اور سنگھ پریوار کو جس طرح سنسد سے سڑک تک نشانے پر رکھا اور پارلیمنٹ میں پوری اپوزیشن نے اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے بی جے پی کی مودی سرکار کو بنیادی ایشوز پر گھیرااور اڈانی معاملے میں سرکار کو بیک فٹ پر لاکھڑا کیا، اگر وہ نظارہ سڑک پر نظر نہیں آئے گا تو یہ سب محنت رائیگاں جا سکتی ہے۔
’بھارت جوڑو یاترا‘ کے بعد ہم ان کالموں میں یہ لکھتے آئے ہیں کہ اب وقت آگیا ہے کہ کانگریس اپوزیشن اتحاد کی پہل کرے لیکن کانگریس کی طرف سے بظاہر اس کی کوئی پیش رفت نظر نہیں آ رہی ہے۔ کانگریس اس اہم سیاسی فریضے کی طرف سے غفلت برت رہی ہے۔ شاید ’بھارت جوڑو یاترا‘ کی کامیابی سے اس کو یہ گمان ہو چلا ہے کہ وہ تنہا بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کر سکتی ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔ ہم یہ بھی کہتے آرہے ہیں کہ بغیر کانگریس کوئی بھی اپوزیشن اتحاد بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل نہیں کر سکتا۔ اسی طرح بغیر اپوزیشن جماعتوں کو ساتھ لیے تنہاکانگریس بھی بی جے پی سے اقتدار نہیں چھین سکتی۔اس کا ادراک اپوزیش جماعتوں کو تو ہو چلاہے، کانگریس کو بھی ہو جا نا چاہیے۔ نتیش کمار نے اس کی پہل کر دی ہے۔ اس سے پہلے بھی نتیش کمار یہ کہتے آئے ہیں کہ بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کر نے کے لیے کانگریس کو اتحاد میں شامل کر نا ضروری ہے۔ نتیش کمار نے سونیا گا ندھی سے ملاقات کرنے کی کوشش کی۔ اس کے لیے وہ دہلی بھی آئے لیکن سونیا گاندھی سے ان کی ملاقات نہیں ہو سکی۔ اسی سلسلے میں تیجسوی یادو بھی دہلی آکر عام آدمی پارٹی کے سپریمو اور دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کجریوال سے ملاقات کر چکے ہیں۔ بہارمیں سی پی آئی ( مالے) کے11 ویں اجلاس کی اہمیت اس لحاظ سے بھی بڑھ گئی کہ اس میں کانگریس سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں کی نمائندگی رہی۔ اجلاس میں جہا ں اس پارٹی کے جنرل سکریٹری دیپانکر بھٹا چاریہ نے ملک میں آئین پر منڈلاتے خطرے کا احساس کرا یا وہیں راشٹریہ جنتا دل کے قائد اور بہا ر کے نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ بی جے پی اور آر ایس ایس منو سمرتی اور گولوالکر کے نظریے کی بنیاد پر آئین بنانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں سے ان کے ووٹ کا حق چھین لینے کی بات سے لے کر مندر مسجد اور گائے کے نام پر نفرت کی سیاست پر بھی بات کی اور بی جے پی مخالف اتحاد میں کانگریس کی شمولیت پر اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں کانگریس کا انتظار ہے۔ گویا اس اجلاس میں اتحاد کی پہل کا ذمہ کانگریس پر ڈال دیا گیا۔
حال ہی میں انتخابی سیاست کے ایکسپرٹ پرشانت بھوشن نے کہا تھا کہ 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں 200 سیٹیں ایسی ہیں جن پر کانگریس کا اثر ہے لیکن ایسا ہرگز نہیں کہ کانگریس تنہا 200 سیٹیں جیتنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ ہاں، وہ ان 200 سیٹوں پر باقی اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ بی جے پی کو شکست سے سکتی ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو یہ سیٹیں آسانی سے بی جے پی کی جھولی میں جاسکتی ہیں۔ اس بات کے پیش نظر ہی کانگریس کی شمولیت کو اتحاد کے لیے ضروری مانا جارہا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کویہ خدشہ ہے کہ اگر کانگریس کو اتحاد میں شامل نہیں کیا گیا تو وہ وہاں بھی اپنے امیدوار میدان میں اتار سکتی ہے جہاں اس کی کوئی سیاسی طاقت نہیں ہے جس سے بی جے پی کی راہ آسان ہو سکتی ہے۔ گزشتہ انتخابات میں ایسا ہو چکا ہے۔ اس سے کانگریس کو باز رکھنے کے لیے بھی اس کی شمولیت کو لازمی تصور کیا جا رہا ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ ہماچل، مدھیہ پردیش، راجستھان اور کرناٹک جیسے جن صوبوں میں کانگریس کا دبدبہ ہے، وہاں اپوزیشن جماعتیں امیدوار نہ اتاریں اور جہاں اپوزیشن جماعتیں مضبوط ہیں وہاں کانگریس دخل نہ دے۔ نتیش کمار کی طرف سے یہ فارمولہ پیش کیا گیا کہ انتخابات سے پہلے وزیراعظم کون ہوگا، یہ تنازع نہ کھڑا کیا جا ئے اور انتخابات کسی ایک چہرے پر نہ لڑا جا ئے اور تمام اپوزیشن جماعتیں بی جے کو شکست دینے کے مقصد کو سامنے رکھ کر انتخاب لڑیں۔ اگر اتحاد کامیاب ہو جا ئے تو جمہوری طور پر وزیراعظم کا انتخاب کر لیا جا ئے۔ نتیش کمار کے اس فارمولے کی تائید کی جا نی چاہیے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کانگریس کی طرف سے اس کا کیا جواب سامنے آتا ہے۔ اس وقت ملک کے جیسے حالات بن چکے ہیں اور بی جے پی اور سرکار جس طرح سے بیک فٹ پر نظر آرہے ہیں، بہار کے بعد یوپی میں ذات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ جس طرح زور پکڑ رہاہے اور پسماندہ طبقات میں بے چینی ہے ، دلت اور مسلمانوں کے خلاف ہو رہے واقعات سے عد م تحفظ کا جو احساس ان طبقات میں پیدا ہو رہاہے، ایسے حالات میں کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد سے ہی کچھ امید کی جاسکتی ہے، اس لیے کانگریس سمیت یہ تما م اپوزیشن جماعتوں کا امتحان ہے کہ وہ کیسے بی جے پی کو اقتدار سے باہر کرتی ہیں اور کر پاتی بھی ہیں کہ نہیں ۔
[email protected]