2سال چھوٹا چین معیشت کی دوڑ میں 18سال آگے

0

گزشتہ تقریباً ڈیڑھ سال سے کہرام مچا رہی کووڈ وبا نے پوری دنیا کو جان و مال کا خاصا نقصان پہنچایا ہے۔ جنہوں نے اپنوں کو گنوایا ہے، ان میں سے لاکھوں کروڑوں کی دنیا پہلے کی طرح اب معمول پر نہیں ہے، بلکہ مکمل طور پر تبدیل ہوچکی ہے۔ قومی سطح پر دنیا کے کئی ممالک کے سامنے اسی طرح کے حالات معاشی محاذ پر نظر آرہے ہیں۔ امریکہ سمیت G-7کی نامور معیشتیں ہوں یا افریقہ کے بہت اندر کونے میں آباد کوئی ملک، معاشی نظام کو تہس نہس کرنے میں کورونا نے کوئی تفریق نہیں کی ہے۔ ہندوستان بھی اس مار سے آہستہ آہستہ ہی ابھر پارہا ہے، لیکن ہمارے پڑوسی چین نے اس دور میں بھی حیران کن گروتھ حاصل کی ہے۔ سرکاری ڈاٹا کے مطابق جنوری سے مارچ کی سہ ماہی میں ہندوستان کی جی ڈی پی گروتھ1.6فیصد رہی ہے، جبکہ اسی وقفہ میں چین کی معیشت نے گزشتہ سال کے مقابلہ میں 18.3%کی بڑھوتری درج کی ہے۔ چین کی جی ڈی پی میں یہ 1992کے بعد آئی سب سے بڑی اُچھال ہے۔
بیشک یہ اعدادوشمار گزشتہ سال اسی مدت میں دونوں ممالک کی معاشی حالت کے مقابلہ اس دور میں کارکردگی کی تقابلی تصویر پیش کرتے ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ چین کے مقابلہ ہماری ترقی کی رفتار آہستہ رہی ہے۔ ہندوستان 15؍اگست 1947کو آزاد ہوا تو چین یکم اکتوبر 1949کو۔ فرق محض دو سال کا تھا۔ پھر وہ کون سی وجہ ہے جس نے چین کو ہندوستان پر سبقت دلا دی یا پھر ہندوستان چین سے پیچھے رہ گیا؟
آج چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے، جلد ہی پہلے پائیدان پر بھی پہنچ جائے گا، جب کہ ہندوستان کچھ وقت کے لیے پانچویں پائیدان پر رہنے کے بعد اب ساتویں پوزیشن پر پہنچ گیا ہے۔ چین کی معیشت کا سائز15.42ٹریلین ڈالر ہوگیا ہے، جب کہ ہندوستان ابھی 3ٹریلین ڈالر کے دہانے پر ہی پہنچا ہے۔ مطلب یہ کہ چینی معیشت ہندوستان سے 5.4گنا بڑی ہوچکی ہے اور اس تک پہنچنے کے لیے ہندوستانی اکنامی کو 13فیصد کی گروتھ حاصل کرنی ہوگی۔ سال 2025تک چین کی معیشت کا 24.1ٹریلین اور ہندوستان کی جی ڈی پی کا 4.1ٹریلین ہونے کا پروجیکشن ہے یعنی فاصلہ بڑھنے ہی والا ہے۔
یہ فرق گزشتہ 30 سال میں پیدا ہوا ہے، کیوں کہ 90کی دہائی تک دونوں ممالک کی معیشت کا سائز تقریباً ایک جیسا تھا۔ چینی صدر ڈانگ شیاؤپنگ نے سال1978میں چین کو سرمایہ داری مخالف کمیونسٹ ڈرم(anti-capitalist communist derm) سے باہر نکالا تو سال 1991میں نرسمہاراؤ اور منموہن سنگھ کی جوڑی نے ہندوستان کا لبرل ازم سے تعارف کروایا۔ ان فیصلوں سے دونوں ممالک کی تقدیر تو بدلی، لیکن پہل کرنے میں ہندوستان13سال پیچھے رہ گیا۔ کیا وقت کا یہی فرق اب دونوں ممالک کی ترقی کے فرق کو عیاں کررہا ہے؟
فرق صرف وقت کا ہی نہیں، تبدیلی کے حالات اور مقصد کا بھی تھا۔ سال 1991میں ہندوستان نے جب معاشی لبرلائزیشن کی جانب قدم بڑھایا تب وہ معاشی بحران میں بری طرح گھرا ہوا تھا۔ مہنگائی کی شرح 16.7فیصد تھی اور خلیجی جنگ کے سبب ملک میں کام چلاؤ غیرملکی کرنسی بھی نہیں بچی تھی۔ اس وقت کے وزیراعظم چندرشیکھر کی 67ٹن سونا گروی رکھنے کی مجبوری اسی کا ثبوت ہے۔ لیکن چین نے کسی بحران سے مجبور ہوکر نہیں، بلکہ مکمل تیاری کے ساتھ لبرلائزیشن کا قدم اٹھایا۔ اپنا بازار کھولنے سے پہلے مکمل ہوم ورک کیا اور پھرمعیشت کو ترتیب وار بازار کے حوالہ کیا۔ سرمایہ کاری کی اجازت بھی دی اور اسے کنٹرول بھی رکھا۔ بازار کھولنے سے پہلے چین نے جس معاشی ماڈل پر قدم بڑھایا، وہ مزدوروں کے استحصال پر مبنی سرمایہ بنانے کا ماڈل تھا۔ اس کا فائدہ لبرلائزیشن کے بعد چین کو ملا۔
ایسا نہیں ہے کہ ہندوستان کو لبرلائزیشن کا فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ 1991میں ہندوستان کی جی ڈی پی 270بلین ڈالر تھی۔ آج یہ 11گنا بڑی ہوکر 2869بلین ڈالر ہوگئی ہے۔ مگر کچھ دوسرے معیار دوسری کہانی بھی کہتے ہیں۔ فی شخص جی ڈی پی کے معاملہ میں چین کا مقام دنیا میں 63واں ہے اور ہندوستان کا 147واں ہے۔ سال 1991میں جہاں دونوں ممالک کی فی شخص آمدنی برابر ہوا کرتی تھی، وہیں آج چین کے حق میں پانچ گنا ہوگئی ہے۔ چین کی معیشت 1998میں ایک ٹریلین کی ہوئی تھی، جب کہ ہندوستان نے یہ مقام 9سال بعد2007میں حاصل کیا۔ اب یہ فرق بھی بڑھ رہا ہے۔ چین کی معیشت 2003میں ہی تین ٹریلین ڈالر کی ہوگئی تھی۔ اس کے 18سال بعد 2021میں بھی ہندوستان اس لکیر کو پار نہیں کرپایا ہے۔ ہندوستان کی معیشت کے لیے یوپی اے-1کی مدت کار ہی قابل ذکر کہی جائے گی، جب معیشت میں اوسط ترقی کی شرح 8فیصد سے زیادہ رہی، مگر 2017کے بعد سے معیشت میں اضافہ پر پھر بریک لگ گیا۔

اب ضرورت ہے ہندوستان میں معاشی اصلاحات کے لیے نئی پہل کی، گلوبل مارکیٹ میں دخل بڑھانے کی، انسانی وسائل کے پِلر کا استعمال نئی معیشت کی چھت ڈھالنے میں کرنے کی، سرمایہ کی ندی کا بہاؤ ہندوستان کی جانب کرنے کی، اور یہی چین کے مقابلہ کھڑے ہونے کی لازمی شرط بھی ہے۔ کیوں کہ جب تک ایسا نہیں ہوگا تب تک پڑوسیوں سے بہتر تعلقات اور ایشیا کے بازار میں چین کے مقابلہ کھڑا رہنا فی الحال بڑا چیلنج ہوگا،جس کا سبب ہے چین کی امریکہ کے مقابلہ کھڑے ہونے کی ضد، جس نے آج سخت مقابلہ کے دور میں چین کو سبقت دلا رکھی ہے۔

یقینا اس میں وبا سے پیدا ہوئے حالات کا بھی ہاتھ ہے اور اس سے ابھرنے میں ہندوستان کو ابھی وقت لگے گا۔ لیکن چین یہاں بھی کھلاڑی ثابت ہوا ہے۔ نئی صدی کی دوسری دہائی میں چین نے سلک روٹ کو دوبارہ کھڑا ہی نہیں کیا ہے، اس کی پہنچ کو یوروپ اور مشرق وسطیٰ کے ممالک تک اضافہ بھی کردیا ہے۔ چین نے جنوب مشرقی ایشیا کے بازار میں بھی اپنا دخل مضبوط کیا ہے۔ جب کہ ہندوستان کی حالت مسلسل کمزور ہوتی چلی گئی ہے۔ خود ہندوستان اور چین کے رشتے میں بھی کاروبار میں اضافہ تو ہوا ہے، لیکن کاروبار کا توازن ہندوستان کے حق میں نہیں ہے۔
دونوں ممالک کے مابین فاصلے کے اور بھی کئی پیمانے ہیں۔ ہندوستان میں عمر کا تخمینہ 69 برس ہے، جب کہ چین میں یہ 75سال سے زیادہ ہے۔ بے روزگاری کی شرح بھی ہندوستان میں 7.1فیصد ہے تو چین میں 5فیصد۔ ہندوستان کے زرمبادلہ کے ذخائر چین کے مقابلہ تقریباً 8گنا کم ہیں، وہیں چین کا دفاعی بجٹ بھی ڈھائی گنا زیادہ ہے۔ فرق چین کے حق میں ہے۔ غیرملکی قرض کے معاملہ میں ہندوستان چین سے بہتر ہے۔ لیکن چین پر ہندوستان کے مقابلہ میں غیرملکی قرض تقریباً چار گنا زیادہ ہے۔ ہندوستانی معاشرہ میں بزرگوں کی حصہ داری بھی چین سے تقریباً 40فیصد کم ہے۔
اب اندازہ لگائیے اور چین-ہندوستان کے مابین معیشت کی خلیج کو پاٹنے والے مینجمنٹ پر توجہ مرکوز کیجیے۔ اب ضرورت ہے ہندوستان میں معاشی اصلاحات کے لیے نئی پہل کی، گلوبل مارکیٹ میں دخل بڑھانے کی، انسانی وسائل کے پلر کا استعمال نئی معیشت کی چھت ڈھالنے میں کرنے کی، سرمایہ کی ندی کا بہاؤ ہندوستان کی جانب کرنے کی، اور یہی چین کے مقابلہ کھڑے ہونے کی لازمی شرط بھی ہے۔ کیوں کہ جب تک ایسا نہیں ہوگا تب تک پڑوسیوں سے بہتر تعلقات اور ایشیا کے بازار میں چین کے مقابلہ کھڑا رہنا فی الحال بڑا چیلنج ہوگا،جس کا سبب ہے چین کی امریکہ کے مقابلہ کھڑے ہونے کی ضد، جس نے آج سخت مقابلہ کے دور میں چین کو سبقت دلا رکھی ہے۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS