چار سال میں1100ترامیم

0

مودی ہے تو ممکن ہے! یہ جملہ نہیں حقیقت ہے اور زندگی کا ہر شعبہ اس حقیقت کے جلوہ سے معمور ہے۔شرط یہ ہے کہ دیکھنے والی آنکھ کسی نکتہ سنج تجزیہ نگار کے بجائے تماش بین کی ہو نی چاہیے ورنہ منھ زور عتاب مقسوم بن سکتا ہے۔ اس شرط پر ہندوستان جنت نشان کے عوام پورے اتررہے ہیں اور انہیں وقت کی لوح پر جلی حرفوں میں یہ حقیقت لکھی دکھائی دے رہی ہے کہ مودی حکومت میں ناممکنات اور تصورات سے باہر کوئی چیز نہیں۔ ان ہی ناممکنات میں سے ایک اور حالیہ دنوں ممکن بن چکا ہے اور دنیا محوحیرت ہے کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے، فقط چار سال کے عرصہ میںگڈس اینڈ سروسزٹیکس (جی ایس ٹی) میں 1100ترامیم کی جاچکی ہیں۔یکم جولائی 2016کی نصف رات کو محفل نشاط و طرب سجا کر باجے گاجے کے ساتھ جی ایس ٹی نافذ کیاگیاتھا۔مرکز اور ریاستی حکومتوں کی جانب سے لگائے جانے والے 14طرح کے مختلف ٹیکسوں کو ختم کرکے ایک ٹیکس نظام ’ جی ایس ٹی‘ وضع کرتے وقت یہ اعلان کیاگیاتھا کہ گڈ اینڈ سمپل ٹیکس ہوگا لیکن گزرتے وقت کے ساتھ یہ گڈ اینڈ سمپل ٹیکس کاروبار و تجارت کے زمینی حقائق سے کافی دور ایک نوآبادیاتی ٹیکس نظام بن کر رہ گیا ہے جس میں اب تک جی ایس ٹی کائونسل نے1100 ترامیم کرکے اتنا پیچیدہ بنادیا ہے کہ کاروباری افراد اورا دارے اس کے بار تلے منہدم ہورہے ہیں۔
پہلے توصرف حزب اختلاف ہی اس ٹیکس نظام کو ’ گبرسنگھ ٹیکس‘ بتا رہاتھا لیکن چار برس گزرنے کے بعد اب اپنے بھی جی ایس ٹی کے خلاف صف آرا ہو رہے ہیں۔بھارتیہ جنتا پارٹی سے وابستہ کاروباریوں کی تنظیم کنفیڈریشن آف آل انڈیا ٹریڈرز(سی اے آئی ٹی) بھی مخالفین کی صف میں کھڑی ہوگئی ہے اوراس نے جی ایس ٹی پر نظرثانی کا مطالبہ کیا ہے۔ جی ایس ٹی ٹیکس نظام پر طنز کرتے ہوئے حکمراں جماعت سے وابستہ اس تنظیم کا کہنا ہے کہ یہ اب ایک نوآبادیاتی ٹیکس نظام بن گیا ہے جو کہ جی ایس ٹی کے اصل بیان کردہ مقصد ’گڈ اینڈ سمپل ٹیکس‘ کے بالکل برعکس اور ہندوستان میں ہونے والے کاروبار کی زمینی حقیقت سے بہت دور ہے۔جی ایس ٹی کا موجودہ نظام وزیراعظم نریندر مودی کے وژن کے بھی خلاف ہے۔ نفاذ سے اب تک اس میں 1100سے زیادہ ترامیم اور نت نئے قاعدے قوانین متعارف کرائے جانے سے یہ ٹیکس نظام انتہائی پیچیدہ ہوگیا ہے۔ پورے ٹیکس ڈھانچہ کانئے سرے سے جائزہ لے کرآسان بنائے جانے کی ضرورت ہے۔
سی اے آئی ٹی کے قومی نائب صدر برج موہن اگروال کا کہنا ہے کہ جی ایس ٹی کائونسل نے قدرتی انصاف کے تمام اصولوں کو نظرانداز کرتے ہوئے ایک نیا قانون بنایا ہے جس کے تحت جی ایس ٹی حکام کو یہ اختیار ہے کہ وہ کسی بھی تاجر کو کوئی نوٹس یا سماعت کا موقع دیے بغیر اس کا جی ایس ٹی رجسٹریشن منسوخ کرسکتے ہیں۔ایسے اختیارات سنگین قسم کی بدعنوانی کا باعث بنتے ہیں۔
ہندوستان میں جی ایس ٹی کے نفاذ کے تقریباً 4 سال بعد بھی جی ایس ٹی پورٹل کئی چیلنجوں سے نبرد آزما ہے۔ قوانین میں ترمیم کی گئی ہے لیکن پورٹل مذکورہ ترامیم کے ساتھ بروقت اپ ڈیٹ کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ ابھی تک کوئی نیشنل اپیلیٹ ٹریبونل تشکیل نہیں دیا گیا۔ ’ ایک ملک -ایک ٹیکس‘ کے بنیادی اصول پر عمل درآمد کیلئے اب تک کوئی سینٹرل ایڈوانس رولنگ اتھارٹی نہیں بنائی گئی ہے۔تاجروں کو کمپیوٹر وغیرہ سے آراستہ کرنے کیلئے کوئی قدم اٹھانا تو دور کی بات ہے، اس بارے میں کبھی سوچا ہی نہیں گیا ہے۔جی ایس ٹی کے نفاذ کی تاریخ سے لے کر 31 دسمبر 2020 تک کل 927 نوٹیفکیشن جاری کیے گئے، 2017 میں 298، 2018 میں 256، 2019 میں 239 اور 2020 میں 137 اور2021 اوررواں 2022میں اب تک 200کے قریب نوٹیفیکیشن جاری کیے جاچکے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ روزانہ کی بنیادوں پر جاری ہونے والے قانون کے بعد تاجروں سے ٹیکس نظام کی بروقت تعمیل کی توقع نہیں رکھی جاسکتی ہے اور اس میں غلطی کا خمیازہ بھی انہیں ہی بھگتنا پڑتا ہے۔ یہ بھی الزام ہے کہ ایک ہی پروڈکٹ پر کئی ٹیکس لگائے جارہے ہیں، اس کی وصولی میں ایک تاجر کی غلطی کا کفارہ دوسرے تاجر کو ادا کرنا پڑتا ہے۔ایسا کیوں ہورہاہے، اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس قانون کا فائدہ اٹھانے کیلئے مودی حکومت ابھی تک درکار انفرااسٹرکچربھی نہیں بنا پائی ہے۔ ادھر ریاستی حکومتوں کا بھی حال وہی ہے جو تاجروں کا ہے۔ مرکز کی طرف سے اعلان کردہ پالیسی کے مطابق ریاستوں کو معاوضہ ملنا ہے لیکن اس میں لگاتارتاخیر ہوتی ہے۔ مغربی بنگال کو جی ایس ٹی کی مد میں مرکز سے ساڑھے پانچ ہزار کروڑ روپے بار بار کے تقاضے کے باوجود نہیں مل رہے ہیں۔ ’صاف نیت- اور صحیح وکاس ‘ کا نعرہ پوری طرح دم توڑ چکا ہے۔جس طرح سے عجلت میں جی ایس ٹی متعارف کرایا گیا اور فریقین کو اندھیرے میں رکھ کرا س میں ہزاروں ترامیم کی جاچکی ہیں، اس سے بدعنوانی بھی بڑھ رہی ہے اورجس سے آنے والے چند برسوں میں نجات بھی ممکن نظرنہیں آرہی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS