بنگال میں سیاسی تشدد

0

 اگلے سال ہونے والے اسمبلی انتخاب سے قبل ہی مغربی بنگال سیاسی پارٹیوں کی چراہ گاہ بن گیا ہے۔ عرصہ سے بنگال پر زعفرانی پرچم لہرانے کی خواہش مند بھارتیہ جنتاپارٹی کے چھوٹے بڑے لیڈر ہر دوسرے دن ریاست کا دورہ کررہے ہیں اور اپنے اشتعال انگیز بیانات سے سیاسی فضاگرم کررہے ہیں۔یہ جارحانہ تقریریں اور بیانات سیاسی تصادم اور تشدد پر منتج ہورہے ہیں۔ بنگال کے دو روزہ دورے پر پہنچے بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا کو بھی آج ایسے ہی ایک واقعہ سے گزرنا پڑا۔جے پی نڈا کولکاتا سے متصل ڈائمنڈہاربر علاقہ میں جارہے تھے، کہاجارہاہے کہ ترنمول کانگریس کے ’ غنڈوں‘ نے ان کے قافلے پر حملہ کیا اور بی جے پی کے جنرل سکریٹری اور بنگال انچارج کیلاش وجے ورگیہ کی گاڑی میں توڑ پھوڑ کی اور انہیں زد وکوب کیا جس میں وہ زخمی ہوگئے ہیں۔جے پی نڈا نے اسے ممتابنرجی کا جنگل راج بتاتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ وہ محفوظ ہیں کیونکہ ان کی گاڑی بلٹ پروف تھی، ورنہ ایسی کوئی گاڑی نہیں تھی جس پر حملہ نہ کیاگیا ہو۔اس واقعہ کو نڈا نے جمہوریت کا گلاگھونٹنے سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ یہ غنڈہ راج زیادہ دنوں تک نہیں چلنے والا ہے، ممتاکی حکومت بنگال سے رخصت ہورہی ہے اور بنگال میں کنول کھلنے والا ہے۔ادھر بنگال پولیس نے اس واقعہ کے بارے میں کہا ہے کہ جے پی نڈا کے قافلے کے ساتھ کچھ نہیں ہوا ہے۔ سڑک کے کنارے کھڑے کچھ لوگوں نے قافلے میں پیچھے سے گاڑیوں کی طرف کچھ پتھر پھینک دیے، معاملے کی تفتیش کی جارہی ہے کہ واقعتا کیا ہوا تھا۔ مرکزی حکومت نے فوراًاس معاملے میں مداخلت کرتے ہوئے ریاستی پولیس سے رپورٹ بھی طلب کرلی ہے۔اس واقعہ پر ترنمول کانگریس کا کہنا ہے کہ بنگال کو بدنام کرانے کیلئے بی جے پی خود یہ حملے کرارہی ہے اوراس طرح کی کارروائی پہلے بھی کرتی رہی ہے۔
اسی طر ح کا ایک واقعہ دو دنوں قبل شمالی بنگال میں پیش آیا۔سلی گوڑی میں واقع ریاستی حکومت کی منی سکریٹریٹ ’ اترکنیا‘ گھیرائو کی مہم پر نکلے بی جے پی کے کارکن پولیس کی کھڑی کی ہوئی تمام رکاوٹوں کو عبور کرکے بزن بولنے والے تھے کہ پولیس نے انہیں منتشر کرنے کیلئے لاٹھی چارج کیا اوراشک آور گولے داغے۔ ہنگامہ میں کئی افراد زخمی ہوئے تھے بعد میں زخمیوں میں سے ایک نے دم توڑ دیا۔ بی جے پی نے اپنے اس کارکن کی ہلاکت کیلئے بنگال پولیس کو ملزم ٹھہراتے ہوئے کہا کہ پولیس نے فائرنگ کی تھی جس سے ان کا کارکن ہلاک ہوگیا۔ لیکن لاش کی پوسٹ مارٹم رپورٹ آنے کے بعد یہ عقدہ کھلا ہے کہ اس سیاسی کارکن کی ہلاکت پولیس کی گولی سے نہیں ہوئی بلکہ اسے شاٹ گن کا نشانہ بناکر نزدیک سے مارا گیا ہے، اس طرح کا گن پولیس محکمہ استعمال نہیں کرتا ہے۔ہر چند کہ بی جے پی پوسٹ مارٹم رپورٹ کو جھٹلارہی ہے اور اپنے الزام پر قائم ہے لیکن حکمراں جماعت نے اسی پوسٹ مارٹم رپور ٹ کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا ہے کہ بی جے پی بنگال میں انتشار پھیلانے کیلئے اپنے ہی کارکنوں کو ہلاک کررہی ہے۔ ریلی میں مسلح افراد لائے گئے تھے اور انہوں نے ریلی کے دوران افراتفری پھیلائی اورا پنے ہی کارکن کو ہلاک کرکے بنگال کو بدنام کرنے کی سازش کو کامیاب بنایا۔
 لیکن زیڈ کٹیگری کی سیکورٹی کے گھیرے میں رہنے والے جے پی نڈا کے ساتھ ایسا کوئی واقعہ کسی پیشگی اور منظم منصوبہ بندی کے بغیر ہونا ممکن نظرنہیںآتا ہے اور نہ سیکورٹی ایجنسیاں،جنہیں موقع پر ہی مداخلت کار کو ہلاک کرنے کا صوابدیدی اختیار ہوتا ہے، اتنی کمزور ہیںکہ ایک وی وی آئی پی کے قافلے کو تحفظ فراہم نہ کرسکیں۔ایسے میں بہت سے سوالات اٹھتے ہیں اور ترنمول کانگریس کے الزامات بھی سنجیدگی سے غور کیے جانے کے متقاضی ہیں۔
ترنمول کانگریس کے الزامات میں صداقت تو تفتیش سے سامنے آہی جائے گی۔ مگر روزانہ کی بنیاد پر بنگال میں ایسے واقعات پیش آرہے ہیں جن پر کہیں سے کوئی آواز نہیں اٹھتی ہے۔اضلاع بالخصوص ہگلی، مشرقی مدنی، جنوبی 24پرگنہ، شمالی24پرگنہ، اتر دیناج پور، مالدہ، مرشدآباد میں ہر دوسرے دن ہونے والے تشدد،افراتفری، ہنگامہ آرائی میں نچلی سطح کے پارٹی کارکن اپنے سیاسی آقائوں کے مفاد کے تحفظ کیلئے اپنی جانوں کا ’نذرانہ ‘پیش کررہے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ نچلی سطح پر ہونے والے اس سیاسی تشدداور ہنگامہ آرائی میں بی جے پی ہو یا ترنمول دونوں ہی جانب سے ہلاک ہونے والوں کی اکثریت میں کوئی محمد اسرائیل ہوتا ہے تو کوئی شیخ نسیم۔ گزشتہ سال ہوئے پارلیمانی انتخاب اوراس سے قبل ہونے والے پنچایت انتخاب میں بھی بنگال لہولہو ہوگیا تھا اور ان دونوں انتخابات کے دوران سو سے زائد سیاسی کارکن اور عام آدمی ہلاک ہوئے تھے۔اس سال جون سے نومبرتک کے 6مہینوں میں ڈیڑھ درجن سے زیادہ سیاسی ہلاکتیں ہوچکی ہیں اور ابھی انتخاب کا اعلان ہونے میں ہی ربع سال باقی ہے۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آنے والا دن اپنے جلو میں کشت و خون کے کتنے واقعات کا گواہ بنے گا۔اس منظر نامہ میں ترنمول کانگریس کے الزامات کو سیاسی بیان بازی سمجھنے کی بجائے سنجیدگی سے لیتے ہوئے اس کی تفتیش کی جانی چاہیے  تاکہ اس کے نتائج کی روشنی میں سیاسی تشدد اور قتل و غارت کے ایسے واقعات کا سد باب کیاجاسکے۔
[email protected]
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS