نول کشور کمار
گزشتہ یکم اگست 2024 کو سپریم کورٹ کی سات رکنی بنچ کی طرف سے دیویندر سنگھ بنام حکومت پنجاب کے معاملے میں سنائے گئے فیصلے کے بعد شمالی ہندوستان میں کھلبلی مچ گئی ہے۔ وہیں جنوبی ہندوستان میں اس فیصلے کا خیر مقدم کیا جا رہا ہے کہ درج فہرست ذات کے زمرے میں ریزرویشن کوٹہ میں ذیلی کوٹہ کا فیصلہ ریاستی حکومتوں کے ذریعہ کیا جاسکتا ہے۔اس فیصلے کے حوالہ سے شمالی ہندوستان میں تصویر مختلف ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس فیصلے سے درج فہرست ذاتوں کا اتحاد خطرے میں پڑ جائے گا۔ کچھ تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ بی جے پی اور آر ایس ایس کی سیاسی سازش ہے۔ بہوجن سماج پارٹی کی قومی صدر مایاوتی نے بھی ایسی ہی باتیں کہی ہیں۔ کچھ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ درج فہرست ذاتوں میں شامل وہ ذاتیں جو پیچھے رہ گئی ہیں، وہ اس وجہ سے پیچھے رہ گئی ہیں، کیوں کہ وہ ڈاکٹر امبیڈکر کے راستے پر نہیں چلیں۔ اس کا مطلب ہے کہ انہوں نے تعلیم کو اہمیت نہیں دی اور اپنے روایتی ناگوار پیشے کو اختیار کیے رکھا۔
مجموعی طور پر جو تصویر اب نظر آرہی ہے وہ کم و بیش ویسی ہی ہے جیسی کہ آزادی سے پہلے تھی، جب ڈاکٹر امبیڈکر اچھوتوں کے حقوق کے لیے لڑ رہے تھے۔ مثال کے طور پر ’’آپ سوراج کے لیے لڑ رہے ہیں۔ میں آپ کی لڑائی میں شامل ہونے کے لیے تیار ہوں۔ اور میں آپ کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ میں آپ سے بہتر لڑائی لڑسکتا ہوں۔ لیکن میری صرف ایک شرط ہے۔ مجھے بتاؤ کہ سوراج میں ہماری حصہ داری کیا ہوگی؟‘‘یہ سوال ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے پوچھا تھا۔ یہ سوال تب بامبے سینٹی نل‘ کے 28اپریل، 1942 کے شمارے میں ایک خبر کے حصے کے طور پر شائع ہواتھا، جس کا بنیادی پیغام یہ تھا: ’’اگر اقتدار میں حصہ داری نہیں،تو سوراج کی لڑائی میں تعاون نہیں۔‘ اس اقتباس کو آنند ساہتیہ سدن، علی گڑھ کے ذریعہ شائع ’ڈاکٹر باباصاحب امبیڈکر اور اچھوتوں کی تحریک(ماخذ مواد:1915-1956)‘ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ ڈاکٹر امبیڈکر یہ شرط اس وقت کے سوراجسٹ لیڈروں کے سامنے اس لیے رکھ رہے تھے تاکہ وہ اچھوتوں کے حقوق کو یقینی بنا سکیں۔ ان کے لیے تب اچھوت کا مطلب کوئی ایک ذات یا برادری نہیں تھا، وہ سبھی کے لیے حکومت اورانتظامیہ میں حصہ داری چاہتے تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مہاتماگاندھی کے ذریعہ ’کرو یا مرو‘ کے نعرے کے دوران ہی اپنے لوگوں کے لیے یہ شرط رکھنے والے ڈاکٹر امبیڈکر دستور ساز اسمبلی کی ڈرافٹنگ کمیٹی کے چیئرمین بنائے گئے اور انہوں نے آئین میں اچھوتوں کے لے سرکاری ملازمتوں، اعلیٰ تعلیم اور مقننہ میں نمائندگی کو یقینی بنایا۔ تاہم اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ تب اس سوال پر دستور ساز اسمبلی کی میٹنگوں میں ہنگامے بھی ہوئے۔ ایک طرف ڈاکٹر امبیڈکر تھے اور دوسری طرف وہ لوگ تھے جو اچھوتوں کے لیے ریزرویشن کے خلاف کھڑے تھے۔ ریزرویشن کے خلاف جو دلائل دیے جا رہے تھے، ان میں اہم دلیل یہ تھی کہ ریزرویشن کی وجہ سے اگر اچھوت حکومت اور انتظامیہ میں حصہ دار بنیں گے تو ان کی نااہلی سے منفی حالات پیدا ہوں گے۔ سوال میرٹ کا تھا۔ لیکن ڈاکٹر امبیڈکر اس بات کے تئیں پریقین تھے کہ اگر موقع ملا تو صدیوں سے محروم یہ طبقہ اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑا ہوگا اور تمام تر نامساعد حالات کے باوجود ایسا ہی ہوا۔ ریزرویشن مخالف برادریوں کے سوالات بے معنی ثابت ہوئے۔
ماضی میں پیش آنے والے ایک اور سیاسی واقعہ پر نظر ڈالتے ہیں۔ سال 1979تھا۔ بہار کے اس وقت کے وزیراعلیٰ کرپوری ٹھاکر نے ریاست میں پسماندہ طبقات کے لیے ریزرویشن کے نفاذ کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے شروع ہی میں پسماندہ طبقات کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ ایک پسماندہ طبقہ تھا جس میں یادو، کوئری اور کرمی سمیت پسماندہ طبقات کی تمام بڑی ذاتیں تھیں۔ دوسرا تھا انتہائی پسماندہ طبقہ۔ یہ کوٹے کے اندر کوٹے کی پہلی مثال تھی۔ لیکن تب بھی اس کی مخالفت اس حد تک کی گئی تھی کہ ریزرویشن کے مخالفین نے کرپوری ٹھاکر کو گندی گندی گالیاں دیں۔ بعد میںجب 1990میں منڈل کمیشن کی سفارش پر پسماندہ طبقات کے لیے ریزرویشن کے نفاذ کا اعلان وی پی سنگھ کے ذریعہ ایوان میں کیا گیا تب سڑکوں پر ریزرویشن مخالفوں کا ایک ہجوم اُتر آیاتھا۔
اس لیے جب بھی محروموں کو ان کا حصہ دینے کی بات کہی گئی، تب تب مخالفت ہی ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد جو منظر شمالی ہندوستان میں دیکھنے کو مل رہا ہے، وہ حیرت کی بات نہیں ہوتی، اگر یہ احتجاج درج فہرست ذاتوں کے کچھ مخصوص طبقوںکی طرف سے نہیں کیا جا رہا ہوتا۔ ہو یہ رہا ہے کہ آزاد ہندوستان کی سات دہائیوں میں حکومت اور انتظامیہ میں سب سے زیادہ حصہ پانے والا طبقہ اب اپنے ہی جیسی اچھوت سمجھی جانے والی ذاتوں کے حقوق کے خلاف کھڑا ہے۔ واضح طور پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئین ساز اسمبلی میں اچھوتوں کے ریزرویشن کے خلاف جو دلائل دیے جارہے تھے اور آج درج فہرست ذاتوں کی ذیلی زمرہ بندی کے خلاف جو دلائل دیے جارہے ہیں، کیا ان میں کوئی فرق ہے؟ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ بہرحال کسی کو یہ ماننے میں کوئی جھجک نہیں ہونی چاہیے کہ جمہوریت ڈیمانڈ پر مبنی ایک گورننس سسٹم ہے۔ اس میں ہوتا یہ ہے کہ عوام اپنے ووٹوں سے اپنے لیے نمائندوں کا انتخاب ہی اس لیے کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے مطالبات پیش کرسکیں۔ یہ مطالبہ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ مثال کے طور پر اچھی سڑکوں، اچھے اسپتالوں، اچھے اسکولوں اور کالجوں وغیرہ کے مطالبات کے علاوہ حکومت اور انتظامیہ میں حصہ داری کا مطالبہ بھی۔
دوسری بات یہ کہ عوام کوئی بھی مطالبہ فوری طور پر نہیں کرتے۔ ان کے ہر مطالبے کے پیچھے ایک خاص صورت حال ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر جب پنجاب حکومت نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ریاست کے درج فہرست ذات کے کوٹہ میں ذیلی کوٹہ طے کرکے 50فیصد حصہ ان ذاتوں کو دیا جائے گا جو حکومت اور انتظامیہ میں حصہ داری میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں، تب یہ اچانک لیا گیا فیصلہ نہیں تھا۔ اس کے لیے وہاں تحریکوں کا طویل دورانیہ رہا تھا۔ اسی طرح جب بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار نے دلت ذاتوں میں جب ’مہادلت‘ کا آئیڈیا دیا تھا، اگرچہ وہ محض کاغذی اور سیاسی طور پر محرک ثابت ہوا، اس کے پیچھے بھی ان ذاتوں کی طرف سے مطالبہ اور دباؤ دونوں اہم عوامل تھے۔
دراصل آج میرٹ کا سوال اٹھایا جا رہا ہے۔ تاہم جب درج فہرست ذاتوں کا ایک طبقہ کہتا ہے کہ ابھی ان کے لیے دیے گئے ریزرویشن کوپورا نہیں کیا جا رہا ہے تو ذیلی کوٹہ کا خیال بے معنی ہے، بے بنیاد نہیں ہے۔ سرکاری رپورٹوں میں یہ بات سامنے آچکی ہے کہ چاہے وہ سرکاری محکموں، وزارتوں میں نوکریوں کا سوال ہو یا پھر اعلیٰ تعلیمی اداروں ، درج فہرست ذاتوں، درج فہرست قبائل اور پسماندہ طبقات کے لیے مقررہ ریزرویشن بھی نہیں دیا جا رہا ہے۔ ’ناٹ فاؤنڈ سوٹیبل‘ ایک مشہور محاورہ بن گیا ہے۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ ابھی درج فہرست ذاتوں کے لیے ریزرویشن کا جو فائدہ حاصل کررہے ہیں، یا یوں کہیے کہ جنہیں یہ فائدہ حاصل ہوپارہا ہے، ان میں ڈوم، مہتر، کھٹک، مسہر اور دھوبی وغیرہ ذاتوں کی حصہ داری کم سے کم ہے۔ملک کو آزاد ہوئے7دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ سوال یہی ہے کہ آخر کب تک ان ذاتوں کو اپنی باری کا انتظار کرنا پڑے گا؟ آخر شمالی ہندوستان کب جنوبی ہندوستان کی طرح لبرل بنے گا تاکہ ڈاکٹر امبیڈکر کا مساوات، آزادی اور بھائی چارے جیسی اقدار پر مبنی ہندوستان کا خواب پورا ہو سکے؟
(مصنف فارورڈ پریس، نئی دہلی کے ہندی ایڈیٹر ہیں)