عبدالماجد نظامی
دو دہائیوں سے بھی زیادہ مدت گزر چکی ہے کہ دنیا کا طاقت ور ترین ملک امریکہ اپنی قدیم تاریخی روایتوں سے تدریجی طور پر دور ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اٹھارہویں صدی کے نصف آخر میں برطانوی استعماریت سے آزاد ہونے والا یہ ملک کسی دور میں آزادی، انسانی حقوق اور جمہوری قدروں کے امین کے طور پر جانا جاتا تھا لیکن رفتہ رفتہ اس نے خود کو ان قدروں اور اصولوں سے دور کرنا شروع کردیا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جب برطانوی سامراج کا سورج ہمیشہ کے لئے غروب ہوگیا اور امریکہ مغربی استعمار کا جاں نشیں بنا تو اس نے خود کو باقی سامراجی قوتوں سے مختلف رکھنے کی کوشش تک نہیں کی۔ چالیس سالہ سرد جنگ میں جب سوویت یونین کے خلاف امریکہ کی قیادت میں مغرب کو فتح ملی تو امریکہ دنیا کا واحد سپر پاور بن کر عالم کے افق پر ابھر آیا۔ اس بے مثال قوت نے امریکہ کو ایک ایسے سرور میں مبتلا کر دیا جس میں رعونت کے تمام عناصر موجود تھے۔ بس اس کا یہ پہلو کسی حد تک تابناک رہا کہ دنیا کے تمام گوشوں سے باصلاحیت افراد کا امریکہ جانے کا سلسلہ جاری رہا جہاں انہیں اپنی آرزوؤں کی تکمیل کا پورا موقع ملا۔
یہ اس لئے ممکن ہو پاتا تھا کیونکہ بنیادی طور پر امریکی دستور میں جن اعلی جمہوری قدروں کے تحفظ کے اصول شامل کئے گئے تھے ان سے دامن کھینچ لینا امریکہ کے ارباب اقتدار کے لئے اتنا آسان نہیں تھا۔ اسی لئے ہر رنگ و نسل کے لوگ وہاں پہونچتے رہے اور مختلف قسم کے امتیازی سلوک کا سامنا کرنے کے باوجود انہیں ایسے مواقع ضرور فراہم ہوجاتے تھے کہ وہ خود کو بہتر مستقبل کے لئے تیار کر پائیں۔ پہلی بار 2012 میں جب باراک اوبامہ امریکہ کے صدر بنے تو یہ سمجھا گیا کہ امریکہ کو اب بھی واحد ایسا ملک ہونے کا امتیاز حاصل ہے جہاں ایک سیاہ فام افریقی نژاد شخص دنیا کے سب سے طاقت ور ملک کا صدر بن سکتا ہے۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ اوبامہ کی جیت محض استثنائی صورت رکھتی تھی۔ ان کے بعد کا جو دور 2016 میں شروع ہوتا ہے وہ امریکہ میں پورے طور پر سفید رنگ و نسل کے لوگوں کی برتری، ارب پتی سرمایہ داروں کی سطوت اور اسلاموفوبیا کا دور ہے۔
اپنے پہلے ہی دور صدارت میں ڈونالڈ ٹرمپ نے ان منفی رویوں کو اس بلندی تک پہونچا دیا تھا کہ اس کی توقع ہی ختم ہوگئی تھی کہ کبھی دوبارہ امریکہ کو ان قدروں اور اصولوں سے قریب بھی کیا جا سکتا ہے جن کی بنیادوں پر اس نے ڈھائی صدی پر محیط اپنا وجود قائم کیا تھا۔ جو بائڈن نے جب 2020 میں ٹرمپ کو شکست سے دوچار کیا تو جمہوریت کی جڑوں کو دوبارہ مضبوط کرنے کے وعدے کئے گئے تھے لیکن اس پہلو سے کچھ خاص نہیں کیا جا سکا۔ رہی سہی کسر اس وقت پوری ہوگئی جب غزہ پر اسرائیلی جارحیت اور نسل کشی کو بائڈن کی مکمل حمایت حاصل رہی۔ پوری دنیا میں امریکی امیج کو سخت نقصان پہونچا اور اس کی اخلاقی بنیادیں ہمیشہ کے لئے متزلزل ہوکر رہ گئیں۔ کم سے کم امریکی سرکار اور ادارہ کے بارے میں اقوام عالم کی تو یہی رائے ہے۔ لیکن اچھی بات یہ ہے کہ امریکی معاشرہ کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے جو نہایت خوشنما اور امید افزا ہے۔ اسی سے امید کی شعاعیں پھوٹتی ہیں اور انسانیت نوازوں کو جد و جہد کا حوصلہ ملتا ہے۔ امید کی اس شعاع کا اصل مصدر وہاں کی مضبوط سول سوسائٹی کا وجود ہے۔ امریکی عوام، سول سوسائٹی اور دانشوران کی بڑی تعداد نے ہمیشہ امریکی ادارہ کی ان تمام پالیسیوں کی پرزور مخالفت کی ہیں جن سے امریکہ کی جمہوری اور انسانی قدرروں پر زد پڑتی ہے۔ ویتنام جنگ سے لے کر عراق حملہ تک ہر معاملہ میں وہاں کی سول سوسائٹی نے اپنا احتجاج درج کروایا ہے۔
امریکی ادارہ نے گرچہ ان آوازوں کو ہرممکن نظر انداز کرنے کی پوری کوشش کی ہے لیکن آخر کار اسے مجبور ہونا پڑا ہے کہ وہ امریکی دستور میں مذکور اعلی انسانی اور جمہوری قدروں کو نافذ کرے۔ غزہ کے معاملہ میں بھی اگرچہ امریکی ادارہ نے عوام و خواص کی آواز کو مسلسل نظر انداز کیا لیکن سول سوسائٹی، دانشوران اور علمی اداروں کے طلباء و طالبات کے مظاہروں کا اثر اتنا تو ضرور ہوا کہ عام امریکیوں کا شعور پہلے سے زیادہ بیدار ہوا ہے ۔ وہاں اب اسرائیل کی حمایت کی جڑیں کافی کھوکھلی ہوچکی ہیں اور صہیونی بربریت کے خلاف آوازیں پہلے سے زیادہ تیز ہوگئی ہیں۔ سرمایہ داروں کو تحفظ فراہم کرانے والی پالیسیوں کے خلاف احتجاجات ہوتے ہیں اور امریکہ کو مطلق العنانی کی آغوش میں جانے سے بچانے کے لئے “نو کنگ” جیسی عوامی تحریکیں پورے ملک بھر میں چلائی جاتی ہیں۔ اسلاموفوبیا کے بارے میں عام انسانوں کو معلوم ہو رہا ہے اور وہ سمجھ بھی پا رہے ہیں کہ ایسے مہلک نظریات کے کتنے بدترین نتائج امریکی معاشرہ پر مرتب ہو رہے ہیں۔ 6 نومبر کو ایک ہند نژاد امریکی مسلم ظہران ممدانی کا امریکہ کے سب سے امیر اور مہنگے شہر نیویارک کا میئر منتخب کیا جانا یہ ثابت کرتا ہے کہ امریکی عوام میں اپنی قدیم انسانی و جمہوری روایتوں کو محفوظ رکھنے بلکہ ان کو پروان چڑھانے کا پورا جذبہ موجود ہے۔
اگر امریکی عوام کے پاس ظہران ممدانی جیسا کوئی ایسا امیدوار موجود ہو جو اپنے اصولوں سے سمجھوتہ نہ کرے اور عوام کے مسائل کو گہرائی سے سمجھ کر ان کا انسانی حل پیش کرنے کی امید دلائے تو اس نظریہ کو شکست دی جا سکتی ہے جس کی نمائندگی ڈونالڈ ٹرمپ اور نتن یاہو جیسے لوگ کرتے ہیں۔ ظہران ممدانی کا بطور نیو یارک میئر منتخب ہونا کوئی معمولی واقعہ بالکل نہیں ہے۔ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ ایک ایسا شخص جس کی پیدائش افریقہ میں ہوئی اور جس کے والدین کا تعلق جنوبی ایشیا سے ہے اور جو عقیدتا ایک مسلم ہے اس کو نیویارک جیسے شہر کا میئر منتخب کیا گیا ہے۔ نیو یارک کو دنیا کی راجدھانی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ شہر اکیلا جتنی دولت پیدا کرتا ہے اتنی کئی ملکوں کی شرح پیداوار بھی نہیں ہوتی ہے۔ اس شہر میں تل ابیب کے بعد دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ یہودی بستے ہیں جن کی حمایت پر اسرائیل نازاں رہتا ہے۔ اسی شہر میں ارب پتی سرمایہ داروں کی سب سے بڑی تعداد بھی رہتی ہے جن میں اسلاموفوبیا اور اسرائیل پرستی کی وبا عام ہے۔ ایسے شہر کا میئر منتخب ہونا نہایت غیر معمولی اور تاریخی ہے۔ یہ واقعہ مستقبل میں نئے سنگ میل کا کام کرے گا۔
ڈونالڈ ٹرمپ جیسے سیاست دانوں نے نابرابری، نفرت و تقسیم اور امتیازی سلوک پر مبنی جس سیاست کو پوری دنیا میں سکۂ رائج الوقت بنا دیا ہے اس سیاست کے خلاف ظہران ممدانی کی جیت ایک مضبوط بندھ کا کام کرے گی۔ پوری دنیا میں ظہران ممدانی کی جیت کا جو جشن منایا جا رہا ہے وہ دراصل اسی حقیقت کا غماز ہے کہ عالمی سطح پر ٹرمپ زدہ سیاست سے جو گھٹن محسوس کی جا رہی تھی اس سے نکل کر آزاد فضاء میں سانس لینے کا احساس اقوام عالم کو اچانک ہونے لگا ہے۔ یقینی طور پر امریکی اور عالمی سیاست کو نیو یارک سے ایک نئی اور مثبت جہت ملے کی۔ گرچہ ظہران ممدانی کے سامنے چیلنجوں کی کمی قطعا نہیں ہوگی لیکن یہ امید پیدا ہوچلی ہے کہ اگر سرمایہ داروں اور ٹرمپ کی ممدانی کے خلاف واضح طور پر صف بندی کے باوجود جیت حاصل کی جا سکتی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اعلی انسانی اور جمہوری قدروں کو دوبارہ بحال نہ کیا جا سکے۔ اس انتخابی فتح سے یہ اندازہ ہوپایا ہے کہ ایک ایسا نظام تیار کر پانا اب بھی ممکن ہے جس میں کمزور طبقات کو پر وقار زندگی گزارنے کا موقع مل سکے اور انسانی حقوق کے تحفظ میں رنگ و نسل اور قوی و ضعیف کے درمیان امتیاز کی فصیلوں کو ختم کیا جائے۔
ظہران ممدانی کی فتح سے امید و رجاء کا جو دروازہ کھلا ہے اس کو مزید وسیع کرنا ضروری ہے تاکہ فلسطین و سوڈان سمیت دنیا کی تمام مظلوم و مقہور قوموں کو آزاد فضاء میں مساوات کے اصولوں پر زندگی گزارنے اور ترقی کی راہیں ہموار کرنے کا موقع نصیب ہوسکے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے یہ بھی لازم ہے کہ عوام کی آواز کو مزید تقویت پہونچائی جائے اور سول سوسائٹی کی جڑوں کو گہرا کیا جائے تاکہ جمہوری قدروں کی پامالی کی تمام کوششوں کو ناکام بنایا جا سکے۔ امید کی جاتی ہے کہ دنیا کی تمام قومیں نیویارک کے نتیجہ سے سبق لے کر اپنی صفوں کو مضبوط کرنے کا کام کریں گی اور ممدانی کی جیت سے نئی نسل کے لیڈران کو یہ حوصلہ ملے گا کہ ایک ایسی دنیا کی تشکیل ٹرمپ و نتن یاہو کے دور میں بھی ممکن ہے جس میں عدل و انصاف اور مساوات و حق پسندی کا بول بالا ہو۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر)
editor. nizami@gmail.com






