زین شمسی
راہل گاندھی کے ’’بھارت جوڑو‘‘کو ان کی ٹی شرٹ تک محدود کردینے والے مائنڈ سیٹ کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے سر سنگھ چالک نے مسلمانوں کو ایک سبق دیتے ہوئے کہا ہے کہ مسلمانوں کو بھارت میں کوئی خطرہ نہیں ہے، وہ یہاں رہتے ہیں، یہاں رہیں گے، انہیں کسی بھی طرح کی تکلیف کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، مگر انہیں اپنے آپ کو سب سے بڑا ماننے والی ذہنیت چھوڑنی پڑے گی۔ یعنی پدرم سلطان بودکی نفسیات سے آگے نکلنا پڑے گا۔ اگر وہ یہ سوچتے ہیں کہ ان کے دادا ، پردادا راجہ تھے تو وہ بھی راجہ بنیں گے ، یہ بات انہیں اپنے دل و دماغ سے نکالنی ہوگی، یعنی وہ یہاں رہ سکتے ہیں، مگر راجہ بن کر نہیںایک عام عوام بن کر۔ انہیں راجہ بننے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ ایسا اس لیے کہ اب ہندو جاگ گیا ہے اور ہندوتو کا نظریہ ہر سو جاری ہے۔ تاہم انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ کمیونسٹوں اور روادار ہندوئوں کو بھی بتا دیا ہے کہ وہ بھی راجہ نہیں بن سکتے ہیں۔ راجہ وہی بن سکتا ہے جو ہندوتو کی بات کرتا ہے۔ انہوں نے ’’آرگنائزر‘‘کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہندوئوں نے1000برسوں کی غیرملکی غلامی جھیلی ہے۔ ہندو کبھی بھی اتنے جارح نہیں ہوئے، جیسا کہ دوسری قومیں ہوتی ہیں۔ آرایس ایس کا سیاسی پہلو اجاگر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سنگھ ابھی سیاست سے دور ہے مگر جو بھی سیاسی پارٹی بھارت کی ترقیاتی پالیسی اور ہندومفاد کی بات کرتی ہے، اس میں تنظیم کا تعاون رہتا ہے۔
موہن بھاگوت کا بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب راہل گاندھی نے ’بھارت جوڑو یاترا‘ کا ایک مرحلہ مکمل کر لیا ہے، اور ایسے وقت میں بھی آیا ہے جب لوک سبھا الیکشن کی دشا اور دِشا طے ہونی ہے۔ دراصل بی جے پی کے ایجنڈے میں مسلمانوں کی ترقیاتی پالیسی تو سرے سے غائب ہے، مگر مسلمانوں کے تئیں ان کی دلچسپیاں برقرار ہیں۔ گزشتہ 8,9برسوں سے بھارت کے ہر شعبہ میں مسلمانوں کے علاوہ کسی بھی چیز پر بات ہی نہیں ہوسکی ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ بھارت کا مسلمان تمام شعبۂ جات میں خاموش تماشائی بنا بیٹھا ہوا ہے۔ اس نے اب تک کسی طرح کا ردعمل دینا بھی ضروری نہیں سمجھا ہے۔ سماجی ہتک کے ساتھ ساتھ عدالتی ناانصافیوں کو بھی خاموشی سے سہتا نظر آیا ہے۔اس کے ساتھ الجھن تو یہ ہے کہ جن بھی سیاسی پارٹیوں کو تھوک میں ووٹ ڈال آتا ہے وہ بھی ان کے لیے کچھ نہیں بولتیں۔ سماجی سمیکرن بھی ایسا ہو چلا ہے کہ دلت اور پسماندہ طبقہ بھی مسلمانوں کے دفاع میں آگے آنا چھوڑ چکے ہیں، جن کو سماجی برابری دلانے میں مسلمان پیش پیش رہے تھے، وہ بھی عنقا ہیں۔ مسلم قوم کا نہ کوئی سیاسی لیڈر ہے، نہ سماجی لیڈر اور نہ ہی ملی قیادت۔ وہ تو بے سمت و بے رفتار ہے۔ اس کے باوجود اگر موہن بھاگوت کو یہ برداشت نہیں ہورہا ہے کہ وہ اپنے جد امجد کو بھی راجہ کہناچھوڑ دیں تو اب تو یہ غلامی کی سب سے نچلی سطح ہی مانی جائے گی۔
بابر، ٹیپو سلطان، اورنگ زیب اور یہاں تک کہ اکبر بھی ہندوتو کے نشانے پر آچکے ہیں، ان کی نشانیاں مٹائی جارہی ہیں ، ان کے کارناموں کو نصابی کتابوں کے ذریعہ یا تو تبدیل کیا جا رہا ہے یا پھر انہیں درسی کتابوں سے غائب ہی کر دیا جارہا ہے۔ تاریخ کی کتابوں میں مہابھارت اور رامائن کے ابواب جگہ پاچکے ہیں۔ ریلوے اسٹیشنوں، شاہراہوں او ر شہروں کے نام تبدیل کرنے کا عمل جاری و ساری ہے اوریہ سب ان وجوہات کی بنا پر کیا جارہا ہے کہ یہ سب غلامی کی نشانیاں ہیں۔ ان تمام کارکردگیوں سے یہ اشارہ واضح ہو چکا ہے کہ انگریز کی حکمرانی سے کوئی گلہ نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو انگریزی نام والی سڑکیں بھی تبدیلی کا کرب سہ رہی ہوتیں ۔ ان کی تعمیرات بھی غلامی کی یادگار میں شامل ہوتیں۔ اس لیے موہن بھاگوت صاحب کو اپنے ہی بیان کو تصحیح کے ساتھ دوبارہ جاری کرنا چاہیے کہ بھارت پر غیرملکیوں نے صرف 800برس کی حکومت کی، انگریز غیر ملکی نہیں تھے بلکہ انہوں نے مسلمانوں سے حکومت چھینی تھی۔
مسلمان تو تب بھی اوقات میں ہی تھے جب ان کے آباو اجداد راجہ تھے، وہ اب بھی اوقات میں ہیں جب ان کی نسلیں تباہی کے دہانے پر کھڑی ہیں۔ وہ کسی کے ڈر سے اوقات میں نہیں ہیں، بلکہ اپنے عمل سے اوقات میں ہیں۔ خوف خدا نہیں رکھنے والے مسلمان خوف بھاگوت میں مبتلا ہوگئے تو اس میں پوری کمیونٹی کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا اور ہاں بھاگوت جی ایسا نہیں ہے کہ وہ آپ کی نہیں سنتے ۔ وہ اپنے اکابرین کی بھی نہیں سنتے، یہاں تک کہ اب تو اپنے والدین کی بھی نہیں سنتے۔ آپ کو اور آپ کی تنظیم کوبرابھلا کہنے والے راہل گاندھی کی بھی نہیں سنتے۔ آپ نے ایک بات بہت اچھی کہی کہ کسی پر کوئی چیز زبردستی نہیں تھوپی جانی چاہیے، اس کے لیے انہیں بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ میں از خود آپ کی تنظیم کا شیدائی ہوں کہ آپ لوگوں نے پوری تندہی کے ساتھ اپنے سماج کو بیدار کیا۔ دن رات محنت کی اور کسی صلہ کی کبھی پروا نہیں کی۔ دہائیاں نہیں بلکہ صدیاں لگیں آپ کو اپنا ہدف پانے میں ، مگر آپ لوگ ہٹے نہیں ڈٹے رہے، اسی لیے آپ یہ کہنے کے لائق ہوئے کہ آرایس ایس کو ایک وقت میں کوئی پوچھتا نہیں تھا لیکن اب وہ وقت ختم ہوگیا۔ اب تو لوگ پوچھ پوچھ کر آپ کے پاس آرہے ہیں۔ ہمارے یہاں ایسا نہیں ہوا۔ ہم پیچھے رہ گئے۔ ہم نے کچھ کام بھی کیے تو نام کے لیے اور اب یہ حالت ہے کہ ہم کہیں تو کیا کہیں ، بولیں تو کیا بولیں۔
بس ایک گزارش ہے کہ مسلمانوں سے ان کے آبا و اجداد کی کارکردگیوں کو بھول جانے کی اپیل نہ کریں۔ ان بیچارے کے پاس بچا ہی کیا ہے، سوائے یاد ماضی کے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]