تمہارا دین تمہارے لیے میرا دین میرے لیے

0

زین شمسی

گزشتہ دو برسوں کے بعدرمضان المبارک کی رونقیں شہروں اور گائوں کو منور کر رہی ہیں۔ کورونا جیسی مہلک اور جان لیوا وبا کے دوران چونکہ مسجدیں مقفل تھیں اور رمضان کا مقدس مہینہ گھروں کی چہار دیواریوں تک محدود ہو کر رہ گیا تھا، تراویح کا نظم بھی اجتماعی نہ ہو کر انفرادی ہو چلا تھا۔ اس مرتبہ رمضان کی خوشیاں اجتماعی طور پر نصیب ہوئی ہیں، اللہ پاک کا فضل و کرم ہے۔
مگر رمضان کی ابتدا سے ہی کچھ ایسا محسوس ہوتا رہا کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں ہے شاید! کیوں ایسا محسوس ہوا یا ہو رہا ہے، اس کا ذکر کرنے سے پہلے اس کی وجوہات کی تلاش کی میں نے۔ ان وجوہات میں سے ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس بار رمضان اکیلے نہیں آیا ہے بلکہ نوراتری کو ساتھ لے کر آیا ہے۔ میرے دوست نے کالج میں بتایا کہ اس بار RAMNAVMIاور RAMZANدونوں ایک ساتھ ہیں یعنی دو رام ایک ساتھ ہی آئے ہیں۔وہ ذرا سیکولر طبیعت کے آدمی ہیں، ا نہوں نے اپنی بات اسی نیت کے ساتھ رکھی، میں انہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ بہت اچھی بات ہے، بھارت مذہبوں کا دیش ہے۔ یہاں کی تہذیب مذہبی رواداری کی رہی ہے اور یہ چیز ہمیں دنیا میں یگانہ ویکتا بناتی ہے، مگر نہ جانے کیا سوچ کر خاموش رہ گیا۔ افطار کے وقت جب گھر کی جانب چلا تو ہر چوک چوراہے پر بھجن اور کیرتن کی آوازیں لائوڈ اسپیکر سے آرہی تھیں۔عجیب سا لگا کہ اس وقت مغرب کا وقت ہے اور مسلمانان ہند افطار کے لیے اذان پر کان دھرے بیٹھے رہتے ہیں، اس وقت یہ پوجا ارچنا۔ پہلے بھی نوراتری کے دوران یہ سب ہوتا تھالیکن اس وقت نہیں ہوا کرتا تھا، کیونکہ شہر کے معزز حضرات بھی یہ جانتے تھے کہ اس وقت افطار کا وقت ہے اور مسلمان بھائی اذان کا انتظار کر رہے ہیں۔خیر دوسرے دن میں اسی وقت خالص ہندوئوں کے محلے سے گزر رہا تھا، وہاں کوئی آرتی اور بھجن نہیں ہو رہا تھا، خاموشی اور سناٹا۔ تب مجھے اپنے اس سیکولر مزاج دوست کی بات یاد آئی کہ اس بار دو رام آئے ہیں۔ ایک وہ رام ہیں جو شانتی اور امن کا پیغام دیتے ہیں اور ایک رام وہ ہیں جن کے نام پر شانتی بھنگ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
کرناٹک میں حجاب، حلال اور اذان کے خلاف جنگ جاری ہے، مہاراشٹر میں سونونگم کو پرسکون نیند فراہم کرنے کے لیے راج ٹھاکرے اذان کے خلاف پرچم اٹھا چکے ہیں۔ دہلی سے ملحق گڑ گائوں اور نوئیڈا میں نماز پر پابندی کے بعد اب گوشت پر پابندی کا حکم نامہ آ چکا ہے۔ ایجنڈا پر کام ہو رہا ہے اور ایجنڈا جب قومی ہو تو کیا بہار اور کیا اترپردیش، راجستھان اورکیا مدھیہ پردیش،سب جگہ ہوا گرم ہے اور جہاں کچھ ٹھنڈی ہے وہاں بھی شعلے جلانے کی ترکیب ہو رہی ہیں۔ ایسے میں ایک خیال ذہن میں آیا کہ اگر روزے کی مخالفت کرنی ہوگی تو سنگھ بریگیڈیئر روزہ پر کیا الزام لگائیں گے؟ کیا وہ یہ کہیں گے کہ روزہ ملک سے غداری ہے، کیا وہ یہ کہیں گے کہ روزہ سے ملک کی اقلیت کو ڈسٹربنس ہوتا ہے۔ کیا وہ یہ کہیں گے کہ مسلمانوں کے روزہ رکھنے کی وجہ سے بازار میں موجود ہندو بزنس مین کا کاروبار سست ہو رہا ہے۔ یہ مسلمانوں کا معاشی جہاد ہے؟ ہو سکتا ہے وہ یہ بھی کہہ دیں کہ مسلمان بھوکے رہ کر دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ بھارت میں مہنگائی اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ انہوں نے دو وقت کا کھانا ترک کر دیا ہے۔ ان کے روزہ رکھنے سے مودی جی کی شبیہ خراب ہو رہی ہے۔اس لیے اس معاملہ کو عدالت میں لے جایا جانا چاہیے کہ کیا روزہ اسلام کا لازمی عنصر ہے یا نہیں؟ چونکہ بھارت میں اب صرف ایک ہی بحث کو دانشورانہ تسلیم کیا جا رہا ہے وہ اسلامی روایت اور اسلامی تہذیب، تو روزہ بھی اسی کااک حصہ ہے۔کوئی بعید نہیں کہ کوئی بھی پھوہڑ دلیل کے ساتھ اس عمل کو بھی بدنام کرنے کی کوشش کی جائے، لیکن اگر سوچا جائے تو روزہ کی اہمیت کا اسی سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی مخالفت کے لیے کوئی دلیل سامنے نہیں آسکتی ہے اور نہ ہی لائی جا سکتی ہے۔
اسلامی منافرت اور اسلامی طریقت کی مخالفت کب تک چلے گی؟ میں نے اپنے ایک امبیڈکرائٹس دوست سے پوچھا۔ اس نے برجستہ جواب دیا، تب تک جب تک ریزرویشن ختم نہ ہوجائے۔ ریزرویشن کا مسلمانوں کی مخالفت سے کیا واسطہ؟ کوئی نہیں، مگر سیاسی واسطہ تو ہے۔ مسلمانوں کو ریزرویشن سے نقصان ہوا مگر اس نے آج تک ریزرویشن کی مخالفت نہیں کی۔جس نے ریزرویشن دیا اس کے ساتھ کھڑے رہے اور صرف ریزرویشن کیوں، دلتوں کے ساتھ اگر کوئی شروع سے کھڑا رہا تو وہ مسلمان ہی ہیں۔ اس لیے دلتوں کو اوقات میں لانے کے لیے پہلے مسلمانوں کو اوقات میں لانا ہے۔جیسے ہی مسلمانوں کی سماجی اور سیاسی حصہ داری ختم ہوئی، دلتوں کو اوقات میں لانے کے لیے کتنا وقت لگے گا۔ اگر ایسا ہے تو پھر دلت بی جے پی کے ساتھ کیوں کھڑے ہوئے ہیں؟کیوں خود کو برہمن سمجھنے لگے ہیں۔انہوںنے اس سوال کا جواب سوال سے ہی دیا اور پوچھا کہ جب مسلمان یہ جانتے تھے کہ کانگریس انہیں اقتصادی، سماجی اور سیاسی طور پر کمزور کر رہی ہے، تب بھی وہ کانگریس کے ساتھ جاتے تھے، اب وہی وقت دلتوں کا آیا ہے کہ جو انہیں واپس ان کی اوقات میں لائے گا، اسی کے ساتھ جا رہے ہیں، اس لالچ میں کہ دیش سے باہر پھینکے جانے والے تمام مسلمانوں کا بنا بنایا گھر انہیں رجسٹرکر دیا جائے گا؟ وہاٹس ایپ یونیورسٹی میں یہ سبجیکٹ پڑھنا لازمی ہے اور سب پڑھ رہے ہیں۔
خیر ہم تو اس لیے مطمئن ہیں کہ ہم نے اسی ہندوستان میں دیوالی، ہولی، نوراتری اور ڈھیروں ہندو تہواروں کو اپنا سمجھ کر منایا ہے۔ بس ہم یہ دیکھ کر افسردہ ہوجاتے ہیں کہ ہمارے معدودے چند تہوار کو بھی ہمارے اہل وطن برداشت نہیں کر پارہے ہیں۔ ٹھیک ہی کہا جاتا ہے کہ مذہبی جنون کا کوئی علاج نہیں۔ کسان آج تک گائے کا دودھ 50روپے نہیں بیچ سکا، مگر دھرم نے گائے کے پیشاب کو 500 روپے میں بکوا دیا۔پھر بھی تمہارا دھرم تمہارے ساتھ میرا دھرم میرے ساتھ۔ ہم کیرتن اور پوجا کے شور میں بھی افطار کرکے خدا کا شکر بجا لانے والے لوگ ہیں۔اللہ ہمیں اپنے مذہب پر قائم رکھے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS