عبیداللّٰہ ناصر
ہندوستان کا آئین اسے ایک سیکولر جمہوریہ قرار دیتا ہے، جہاں مذہب، ذات، رنگ، نسل، علاقہ، زبان وغیرہ کے نام پر کسی کے ساتھ کوئی تفریق نہیں برتی جا سکتی، لیکن اسی آئین کا حلف لے کر ہمارے حکمران بنے بی جے پی کے لیڈران صبح و شام ملک کے دوسرے سب سے بڑے مذہبی گروپ یعنی مسلمانوں کے ساتھ نہ صرف کھلے عام تفریق کرتے ہیں بلکہ ہمہ وقت ان کے خلاف نفرت پھیلانے والوں کوکھلی چھوٹ بھی دے رکھی ہے، خاص کر سرکار کی سرپرستی میں میڈیا یہ کام منصوبہ بند طریقہ سے کر رہا ہے۔اسی سلسلہ کی تازہ کڑی ہے پہلے اترپردیش کے مظفر نگر ضلع کے پولیس کپتان کا وہ ہٹلری فرمان جس کے تحت انہوں نے ضلع کے 240کلو میٹر علاقہ میں کانوڑ یوں کی گزرگاہ میں پڑنے والے تمام ہوٹلوں، پھلوں سمیت کھا نے پینے کے سبھی سامان فروخت کرنے والے ٹھیلوں، رہڑیوں تک پر مالکان کے نام ڈسپلے کرنے کا حکم دیا۔یہی نہیں پولیس نے ہندو ہوٹلوں کے مالکوں سے اپنے مسلم ملازمین کو بھی زبردستی ہٹوا دیا۔بعد میں وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے یہ فرمان پوری ریاست کے لیے جاری کر دیا اور ان کی دیکھا دیکھی اتراکھنڈ کے وزیراعلیٰ نے بھی ہری دوار کے لیے یہ فرمان جاری کر دیا۔کہنے کو تویہ فرمان کانوڑیوں کو یہ جان لینے کے لیے جاری کیا گیا ہے کہ وہ جس دکاندار سے سامان خرید رہے ہیں یا جس ہوٹل پر کھانا کھا رہے ہیں، اس کے مالک کا مذہب کیا ہے لیکن دراصل یہ مسلمانوں کے سماجی اور اقتصادی بائیکاٹ کا وہی سلسلہ ہے جو کورونا کے زمانہ میں مسلمانوں پر یہ الزام لگا کے شروع کیا گیا تھا کہ وہ کورونا پھیلانے کی غرض سے تھوک لگا کر پھل سبزیاں وغیرہ فروخت کرتے ہیں۔ یہ انگریزوں کے دور کی وہ بھونڈی نقل ہے جس کے تحت ریلوے اسٹیشنوں اور دیگر عوامی مقامات پر سرکار کی جانب سے ہندو پانی اور مسلم پانی کے گھڑے رکھوائے جاتے تھے۔ سرکاری طور پر یہی سلسلہ ہٹلر نے نازی جرمنی میں شروع کیا تھا جب یہودیوں کو اپنی قمیص پر ایک خاص نشان لگا کر گھر سے نکلنا ہوتا تھا تاکہ لوگ ان کے یہودی ہونے کی شناخت کر سکیں۔ یہودیوں کو نازی غنڈے سڑک پر ذلیل کرتے تھے، مارتے پیٹتے تھے، ان کی خواتین کی سرعام بے عزتی کی جاتی تھی، نازی پولیس تماشائی بنی رہتی تھی اور یہودی دشمن عوام تالیاں بجاتے تھے۔ یہ چھواچھوت کا وہ فرسودہ نظام واپس لانے کی کوشش ہے جس کی مخالفت آزادی سے پہلے ہی گاندھی جی کی قیادت میں کانگریس نے شروع کی تھی۔ ڈاکٹر امبیڈکر نے جس کے خلاف بغاوت کرنے کے لیے دلتوں کو تیار کیا تھا، کئی سماجی اور مذہبی تنظیمیں بھی جس کے خلاف مہم چلا رہی تھیں اور جسے آئین ہند نے غیر قانونی قرار دے کر اسے قبل تعزیر جرم قرار دیا ہے، لیکن لگتا ہے سرکار ہی چھوا چھوت کے اس فرسودہ غیرانسانی نظام کو پھر واپس لانا چاہتی ہے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عوام کے آئینی، انسانی اور جمہوری حقوق کا محافظ سپریم کورٹ اس کا از خود نوٹس لیتے ہوئے اس کے خلاف فوری احکام جاری کرتا۔ سرکار کے اشاروں پر پوری پوری بستیوں پر بلڈوزر چلائے جا رہے ہیں، ماب لنچنگ کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے اور عدالتیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔دوسری شرمناک بات یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے سیکڑوں مسلم تنظیموں اور ہزاروں وکلا کو بھی یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اس غیر آئینی احکام کے خلاف مفاد عامہ کی عرضی دائر کرتے۔ظلم، زیادتی، تفریق اور استحصال کا یہ سلسلہ عدالتیں ہی رکوا سکتی ہیں بشرطیکہ پوری دلجمعی سے یہ قانونی لڑائی لڑی جائے۔مسلم وکلا یہ بات سمجھ لیں کہ وہ اپنی اس بزدلی اور مصلحت پسندی کے لیے اللہ کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔
یوپی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے یہ قدم کانوڑیوں کو شدھ شاکا ہاری بھوجن ملے، یہ یقینی بنانے کے لیے اٹھایا،تاکہ وہ کسی غلط فہمی کا شکار ہو کر اپنا دھرم بھرشٹ نہ کر لیں لیکن ایک اور کانوڑ یاترا بھی نکلتی ہے جو بہار اور جھارکھنڈ کی طرف دیو گھر جاتی ہے، وہاں ایسا غیرقانونی غیر آئینی فرمان کیوں نہیں جاری ہوا؟ مظفر نگر سے ہو کر گزرنے والے کانوڑ یے ہریانہ، دہلی سے بھی جاتے ہیں، ان دونوں ریاستوں میں یہ احکام کیوں نہیں جاری ہوا؟ دوسرے یہ یاترا تو ہزاروں سال سے نکل رہی ہے، اکا دکا واقعات کو چھوڑ کر کبھی کوئی ناخوشگوار واقعہ نہیں ہوا بلکہ مسلمان خود جگہ جگہ ان کا خیر مقدم کرتے تھے، انہیں کھانے پینے کا سامان خاص کر پھل وغیرہ دیتے تھے، جسے وہ خوشی خوشی قبول بھی کرتے تھے مگر اب سرکار ہی ان کے درمیان دیوار کھڑی کر رہی ہے۔ کانوڑیوں کوراستے میں کوئی دقت نہ ہو، ان کا سفر آرام سے کٹے یہ یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن ملک کا آئین حکومت کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ کیا کھائیں، کہاں کھائیں، کس سے سامان خریدیں اس کا فیصلہ کرے۔ لیکن یوگی کے بر سر اقتدار آنے کے بعد سے کانوڑ یاترا کو سرکاری یاترااور کانوڑیوں کوسرکاری مہمان کا درجہ دے دیا گیا ہے، سرکاری ہیلی کاپٹر سے پولیس کے اعلیٰ افسران ان پر پھولوں کی بارش کرتے ہیں، ان کا راستہ روک کر شہر کو فساد سے بچانے والے افسر کا فوری تبادلہ کر دیا جاتا ہے، سڑک پر انہیں ہر طرح کی آزادی حاصل ہوتی ہے اور اب سونے پر سہاگہ یہ فرمان۔۔۔
لیکن کیا مسلمانوں سے نفرت اور کانوڑیوں سے محبت ہی یوگی کے اس فیصلہ کی بنیاد ہے ؟ سیاسی مبصرین اسے یوگی کا ایک ماسٹر اسٹروک یا دھوبی پاٹ بتاتے ہیں۔ اپنے ہٹائے جانے کی خبروں کے درمیان اچانک انہوں نے یہ فیصلہ کرکے نہ صرف سیاسی چرچاؤں کا موضوع بدل دیا بلکہ مودی کے دست راست اور اپنے مخالف خاص امت شاہ کو بھی چاروں خانے چت کر دیا ہے۔ اب ریاست کی دس اسمبلی سیٹوں پر آئندہ 5-6ماہ بعد ہونے والے ضمنی انتخاب تک اپنے ہٹائے جانے کے امکان کو موقوف کرا دیا۔ اس کے علاوہ کانوڑ اٹھانے والے سب سے بڑے طبقہ یعنی ہندو پسماندہ برادریوں میں اپنی جگہ بنانے کی بھی کوشش کی ہے کیونکہ ان پر ٹھاکر پرستی کا الزام لگتا رہا ہے جس سے ناراض ہو کر ہی ان برادریوں نے اکھلیش یادو کی طرف رخ کیا تھا۔حالانکہ عوام نے فرقہ پرستی کے جس جن کو حالیہ لوک سبھا الیکشن میں بوتل میں بند کر دیا تھا، یوگی نے حسب عادت اسی جن کو بوتل سے نکالنے کی کوشش کی ہے لیکن اب شاید وہ اس میں کامیاب نہ ہوں کیونکہ نفرت زدہ سیاست کا گراف اب رو بہ زوال ہے۔ یوگی نے اس کے ساتھ ہی ایک اور بازی پھینک کر مودی اور امت شاہ کے لیے پریشانی کھڑی کر دی۔ ان کے اس احکام سے بی جے پی کی حلیف پارٹیاں نتیش کمار کی جنتا دل(یو)،چراغ پاسوان کی لوک جن شکتی پارٹی، جینت چودھری کی راشٹریہ لوک دل وغیرہ نے مخالفت کی جس سے مودی تو دباؤ میں آ گئے ہیں کیونکہ ان کی حکومت ان بیساکھیوں پرہی ٹکی ہے مگر یوگی کی صحت پر اس مخالفت کا کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ اترپردیش اسمبلی میں بی جے پی کو مکمل اکثریت حاصل ہے۔اس طرح ایک شاطر سیاست داں کی طرح یوگی نے ایک تیر سے کئی شکار کر لیے ہیں۔
حالیہ لوک سبھا الیکشن میں کھلے عام فرقہ وارانہ کارڈ کھیلنے کے باوجود اترپردیش میں ہی سب سے شرمناک شکست کھانے کے بعد امید تھی کہ بی جے پی لیڈران فرقہ وارانہ سیاست سے کنارہ کشی نہیں تو اس کی تپش کو کم کرنے کے لیے عوام کو درپیش مسائل پر توجہ دیں گے لیکن وہ جو کہتے ہیں ناں کہ چور چوری سے جا سکتا ہے ہیرا پھیری سے نہیں، وہی حالت بی جے پی کی ہے، فرقہ وارانہ منافرت پھیلائے بغیر وہ گرام سبھا تک کا الیکشن نہیں لڑ سکتی، یہی اس کی کم مائیگی ہے۔ اپنے سیاسی حریفوں چاہے وہ دوسری پارٹی ہو یا اپنی ہی پارٹی کا مخالف گروپ، اس سے لڑنے کے لیے مسلمان ہی اس کا آسان چارہ ہیں۔ ہاتھیوں کی لڑائی میں گھاس روندی جا رہی ہے۔
[email protected]