ایم اے کنول جعفری
ہندوستان کی کیرالہ ریاست کے کوچی ضلع کی رہنے والی نمیشا پریا کو16 جولائی 2025 کو یمن میںاسلامی قانون کے تحت قتل کے الزام میںپھانسی کی سزا دی جانی تھی،لیکن ہندوستانی مفتی ٔ اعظم کی مداخلت کے بعد یمنی حکومت نے سزاپر روک لگا دی۔نمیشا پریا،جس کے والد کا پہلے ہی انتقال ہوچکا ہے، کی والدہ گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرتی ہیں۔ نرس کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد نمیشا پریا 2008 میں صرف19برس کی عمر میںملازمت کے سلسلے میں یمن چلی گئی۔یہ تربیت یافتہ نرس حوشی باغیوں کے کنٹرول والے علاقے کے سرکاری اسپتال میں کام کرتی تھی۔کچھ عرصہ بعد وہ 2011 میں ہندوستان واپس آگئی اور ٹومی تھامس نامی آٹو ڈرائیور کے ساتھ شادی کرلی۔ شادی کے بعد نمیشا پریا 2012 میں اپنے شوہر کے ساتھ دوبارہ یمن چلی گئی۔وہاں ان کے ایک بیٹی پیدا ہوئی،جس کی عمر آج تقریباً 13 برس ہے۔کام نہیں ملنے کے بعد 2014 میں ٹومی تھامس بیٹی کے ساتھ وطن لوٹ آئے۔اسی دوران یمن میں خانہ جنگی شروع ہوگئی اور نمیشا پریا ہندوستان نہیں لوٹ سکی۔دوسری جانب اسپتال میں کئی مرتبہ آنے جانے والے طلال عبدو مہدی کی نمیشا پریا سے ملاقات ہوئی، قربت بڑھی اور پھر دوستی قائم ہوگئی۔ نمیشا پریا نے اسپتال کی ملازمت کو خیرباد کہہ کر طلال عبدو مہدی کی پارٹنر شپ میں نجی کلینک کھولنے کا فیصلہ کیا۔یمنی قانون کے مطابق کوئی بھی غیر ملکی شخص یمن کے اندر تن تنہا اپنا کاروبار شروع نہیں کرسکتا۔ اُسے کاروبار شروع کرنے کے لیے مقامی شراکت دارکی ضرورت ہوتی ہے۔یہ بھی کہا جاتاہے کہ نمیشا پریااورطلال عبدو مہدی نے نکاح کر لیا تھا۔ طلال مہدی پر نمیشا پریا کا پاسپورٹ اپنے قبضے میںرکھنے اور دستاویزات کے ساتھ چھیڑچھاڑکرنے، جسمانی اور مالی استحصال کرنے کے الزامات ہیں۔ تشدد سے تنگ نمیشا پریاوطن لوٹنا چاہتی تھی۔اس نے2017میں طلال مہدی سے اپنا پاسپورٹ حاصل کرنے کے لیے اسے بے ہوش کرنے والا انجکشن لگا دیا۔جسم میں ضروری مقدار سے زیادہ دواانجیکٹ ہونے کی بنا پر طلال مہدی کی موت ہوگئی، نمیشا پریا گھبرا گئی۔اس نے اپنے گناہ پر پردہ ڈالنے کے لیے لاش کے ٹکڑے کرکے اسے پانی کی ٹنکی میں چھپا دیا۔یہ راز زیادہ دنوں تک چھپا نہیں رہ سکا اور یمن کی پولیس نے اسے گرفتار کرلیا۔ اسی کے ساتھ مقدمے کی سماعت شروع ہوئی۔ عدالت نے 2020 میں نمیشا پریا کو قتل کا مجرم قرار دیتے ہوئے موت کی سزا سنائی۔
ٹرائل کورٹ کے بعد2023میں یہ معاملہ یمن کی سب سے بڑی عدالت میں لے جایا گیا۔ دونوں طرف کے بیانات اور دلائل سننے کے بعدعدالت عظمیٰ نے بھی ٹرائل کورٹ کی سزا کو برقرار رکھا۔ جنوری 2024میں حوشی باغیوں کی سپریم پولیٹیکل کونسل کے چیئرمین مہدی المشاط نے پھانسی کی منظوری دی۔ نمیشا پریا کے وکیل نے یمن کے صدر رشادالعلیمی کے سامنے رحم کی درخواست دائر کی،لیکن اسی سال جنوری میںصدر مملکت نے بھی رحم کی درخواست کو مسترد کردیا۔اسی دوران کیرالہ کے عوام نے نمیشا پریا کی زندگی بچانے کے لیے ایک فاؤنڈیشن بناکر خون بہا کے لیے فنڈ جٹانا شروع کردیا۔انہیں امید تھی کہ اگر مقتول کے اہل خانہ نے خون بہا لینا قبول کرلیاتو نمیشا پریا کی سزا معاف ہو سکتی ہے۔قانونی طور پر سزائے موت کو منظوری ملنے کے بعد صرف سفارتی سطح پر اُمید کی کرن باقی رہ جاتی ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنان اور سماجی تنظیموں نے بھی حکومت سے اس معاملے میں بروقت ایکشن لینے کی درخواست کی۔سفاری سطح پرکوئی حل نہیں نکلااورہندوستان کے غمزدہ عوام سزائے موت کی تاریخ (16 جولائی )کا انتظار کرنے پر مجبور ہوگئے۔ اسی دوران کیرالہ کے مفتیٔ اعظم علامہ شیخ ابوبکر احمدمسلیار، جنہیں کانتھاپورم شیخ کے نام سے بھی جاناجاتاہے،نے وہ کام کر دکھایا،جس کی اُمید کسی کو نہیں تھی۔ انہوں نے یمن کی حکومت کے علاوہ وہاں کے صوفی عالم اور شوریٰ کونسل کے رکن شیخ حبیب عمر بن حافظ سے بات کی اور ان ہی کے توسط سے مقتول کے اہل خانہ کے ساتھ رابطہ قائم کیا۔انہوں نے ان کے سامنے خوں بہا (بلڈمنی) لے کرہندوستان کی بیٹی نمیشا پریا کو معاف کرنے کی گزارش کی۔ان کی کوششوں کا خاطرخواہ نتیجہ نکلااور نمیشا پریا کی موت کی سزا ملتوی کردی گئی۔اس بابت15جولائی کی شام جیل حکام کو یمنی اٹارنی جنرل کی ہدایت ملی کہ نمیشا پریا کی سزائے موت کو فی الحال مؤخر کردیاجائے۔مقتول کے اہل خانہ سے گفتگو کرنے میں سماجی کارکن سیموئل جیروم باسکرن کا بھی نمایاں کردار سامنے آیا۔سزا ٹلنے سے اُمید ہے کہ مقتول کے اہل خانہ خوں بہا قبول کرکے نمیشا پریا کی زندگی بخش سکتے ہیں۔شریعت کے مطابق خوں بہا قبول ہونے کے بعد ہی سزائے موت کو قانونی طور پر ختم کیا جا سکتا ہے۔اب تمام تر اُمیدیں اس بات پر مرکوز ہیں کہ متاثرہ خاندان کسی طرح اس پر راضی ہوجائے۔نمیشا پریا کی جان بچانے کا فیصلہ مکمل طور پر مقتول کے اہل خانہ کے ہاتھ میں ہے۔ مذاکرات کا دوسرا دور جلدی متوقع ہے۔اگر مقتول کے خاندان والے معاف کرنے کے بجائے قصاص لینے کی ضد پر اڑے رہے تو نمیشا پریا کویقینی طور پر پھانسی کی سزا دی جائے گی۔فی الحال پھانسی ٹلنے کو انسانیت کی جیت تصور کیا جارہاہے۔
اس فیصلے کے پس منظر میں کئی اہم ملاقاتیں اور اقدامات شامل ہیں۔انڈین ایکسپریس میں شائع رپورٹ کے مطابق سماجی کارکن اور ایوی ایشن کنسلٹنٹ سیموئل جیروم،جو2015میں یمن سے ہندوستانیوں کے انخلا میں بھی اہم کردار ادا کرچکے ہیں، اس مرتبہ بھی پوری طرح فعال نظر آئے۔انہوں نے جیل کے حکام، پبلک پروسیکیوٹر اور عدالتی اہلکاروں سے ملاقاتیں کیں اور نمیشا پریا کی والدہ پریما کماری کی جانب سے رحم کی اپیل صدر مملکت تک پہنچائی۔ان ہی کی جدوجہدسے یمن کے الوصاب علاقہ کے حکمران عبدالملک النہایا نے صدر سے ملاقات کی اور اس کے ایک روز بعد صدر نے پھانسی کی سزا کو مؤخرکرنے کی منظوری دے دی۔پھانسی کی سزا ملتوی کرانے میں اہم کردار نبھانے والے عالم دین کا تعلق ان ہی مدرسوں سے ہیں،جن میں عربی، فارسی اور اُردو کی تعلیم دی جاتی ہے اور مذہب اسلام کا پرچم بلند کیا جاتا ہے۔ان کا تعلق ان ہی مدارس اور دینی اداروں سے ہے،جنہیں گودی میڈیارات دن دہشت گردی کے اڈے بتانے اور کوسنے میں لگا رہتا ہے۔سفارتی کوششوںکے ناکام ہونے کے بعد نمیشا پریا کی یمن کے دارالخلافہ صنعاء میں دی جانے والی پھانسی کی سزا مؤخر کرانے میں اہم ذمہ داری نبھانے والے عالم دین نے یہ سب انسانیت کے ناطے کیا۔یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ اسلام میں سزائیں سخت ہیں۔قرآن مقدس میں دانت کے بدلے دانت، کان کے بدلے کان، آنکھ کے بدلے آنکھ اور ہاتھ کے بدلے ہاتھ کی سزا کے قانون کا ذکر ہے۔اگر کسی شخص نے دوسرے فرد کی ٹانگ توڑی،تو بدلے میں اس کی بھی ٹانگ کاٹی جائے گی۔قانون شریعہ کے مطابق جسم کے جس عضو کو نقصان پہنچایا جاتا ہے، بدلے میں مجرم کے اسی عضو کو ضائع کرکے انصاف دلایا جاتا ہے۔ چوری کے لیے ہاتھ کاٹنے، زنا کے لیے کوڑے لگانے اور سنگ سار کرنے کی سزائیں ہیں توقتل کے لیے بھی قصاص کی سزا طے ہے۔ان میں چھوٹ کی گنجائش نہیں ہے۔قتل کے معاملے میںقاتل صرف اسی صورت میں قتل ہونے سے بچ سکتا ہے،جب وہ مقتول کے اہل خانہ کو خوں بہا قبول کرنے کے لیے راضی کرلے۔ نمیشا پریا کے سنگین نوعیت کے معاملے میں بھی یہی طریقہ کار ہے۔نمیشا پریا کے اہل خانہ نے8.6کروڑ روپے بطورخون بہا دینے کی پیش کش کی ہے۔ اگر مقتول کے کنبے والے خون بہا لینے کے بعد معافی کے لیے راضی ہوجاتے ہیںتو نمیشا پریاکی جان بچ سکتی ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور اَدیب ہیں)
[email protected]