دنیا کا سب سے بڑا ادبی میلہ :ساہتیہ اتسو

0

پروفیسر اسلم جمشید پوری

جی ہاں! یہ دنیا کا سب سے بڑا ساہتیہ یعنی ادبی میلہ ہے۔ اسے ہر سال ساہتیہ اکادمی، دہلی لگاتی اور سجاتی ہے۔ اس برس یہ میلہ11سے16 مارچ تک ساہتیہ اکادمی کے احاطے میں لگا تھا۔ساہتیہ اکادمی ہندوستان میں بولی جانے والی 24 زبانوںمیں کام کرتی ہے۔یہ ہندوستان کی سب سے بڑی اکادمی ہے۔
ساہتیہ اکادمی کا قیام آزادی سے قبل ایک ٹرسٹ کی شکل میں ہوا۔آزادی کے بعد1952میں حکومت ِ ہند نے ایک ریزولیوشن کے ذریعہ تین اکادمیوں کا قیام کیا۔ان میں ساہتیہ اکادمی بھی ایک تھی،مگر سا ہتیہ اکادمی کے آفس اور عمارت کا افتتاح 12 مارچ 1954 میں ہوا۔ اس کا آغاز ہندوستان کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کی قیادت میں مولانا ابو الکام آزاد (ہندوستان کے پہلے وزیرتعلیم) کے ذریعے ہوا۔ انہوں نے ہندوستان کی تمام زبانوں کے فروغ و ارتقا کا جوخواب دیکھا تھا، ساہتیہ اکا دمی نے اپنے کاموں سے اسے پورا کیا۔ اس کا مقصد ہندوستان کے آئین میں درج زبانوں کا فروغ تھا۔ساہتیہ اکادمی نے سبھی زبانوں میں کام کرنا شروع کیا۔ اردو، ہندی، انگریزی، پنجابی، کشمیری، اڑیہ، نیپالی، مراٹھی، منی پوری، ملیالم، میتھلی، کونکنی، کنڑ، گجراتی، ڈوگری، بوڈو، بنگالی، آسامی، سندھی، راجستھانی، تمل، سنسکرت، تیلگو، سنتھالی وغیرہ زبانوں میں ساہتیہ اکادمی نے اپنے کام کیے۔
ساہتیہ اکادمی ہندوستان کی واحد اکادمی ہے جو اپنے قیام سے مستقل کام کر رہی ہے۔ اس کا ہیڈ آفس دہلی میں ہے۔بنگلور، ممبئی، کولکاتہ میں اس کی شاخیںموجود ہیں۔دہلی میں اس کے دو آفس ہیں۔یہ ایک خود مختارادارہ ہے اور وزارت تعلیم کے تحت کام کرتا ہے۔یہ ادارہ ہر سال ہندوستان کی تقریباً 24 زبانوں میں کل ہند سطح کے چار ایوارڈ دیتا ہے۔ساہتیہ اکادمی ایوارڈ، ساہتیہ اکادمی یوا پرسکار، ساہتیہ اکادمی ترجمہ ایوارڈ،ساہتیہ اکادمی بال پرسکار کے علاوہ ساہتیہ اکادمی بھاشا سمان ہوتا ہے۔ہر سال سا ہتیہ اکادمی مختلف قسم کے پرو گرام کراتی ہے۔ہر زبان کا ایک انچارج ہوتا ہے،جو پانچ سال کے لیے نامزد کیا جاتا ہے۔ زیادہ تر ادیب ہی اس کے انچارج ہوتے ہیںاور وہ بھی ساہتیہ اکادمی (مین)انعام یافتہ ادیب ہوتے ہیں۔آج کل اردو کے انچارج محترم چندر بھان خیال ہیں۔ان کا کام سال بھر کے پروگرام ترتیب دینا ہوتا ہے۔ انٹر نیشنل،نیشنل اور علاقائی سطح پر سمینار، ورکشاپ، سمپوزیم، خطاب، تخلیق کار سے ملاقات، شام غزل، مشاعرہ، محفل افسانہ، وغیرہ بہت سارے پروگرام سال بھر ہر زبان میں چلتے رہتے ہیں۔
ساہتیہ اکادمی ایوارڈ آ ج بھی اہم مانا جا تا ہے۔اس ایوارڈ کے لیے تخلیق کار سے کتابیں منگوائی نہیں جاتیں۔ بلکہ ساہتیہ اکادمی کتا بیں بازار سے خریدتی ہے۔ پہلے گرائونڈ لسٹ بنتی ہے،اس میں سے پانچ یاسات کتابیں الگ کی جاتی ہیں۔پھر جیوری،جس میں تین ممبر،کبھی دو ممبر ہوتے ہیں،کسی ایک کتاب کو منتخب کر تی ہے۔اس ایوارڈ کے ساتھ،ایک ٹرافی،ایک سند اور ایک لاکھ روپے دیے جا تے ہیں۔ساہتیہ اکادمی کے دوسرے ایواڈز کے ساتھ پچاس ہزار روپے کی رقم دی جا تی ہے۔اس ایوارڈ کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہ مجموعی ادبی خدمات پہ نہیں بلکہ کسی نہ کسی کتاب پر دیا جاتا ہے۔کتاب، اشاعت کے بعد پانچ سال تک اس ایوارڈ کا حصہ بن سکتی ہے۔ اس ایوارڈ کی رقم ضرورکم ہے مگرادبی حلقوں میں اس ایوارڈ کی اہمیت اور قدردوسرے ایوارڈز سے بہت زیادہ ہے۔ساہتیہ اکادمی ایوارڈ یافتہ کتاب کا ترجمہ ہندوستان کی دیگر زبانوں میں بھی ہوتا ہے۔
ساہتیہ اکادمی فیلوشپ بھی دیتی ہے۔اکادمی فنون لطیفہ کے ہر شعبے میں مہارت اور بین الاقوامی شناخت رکھنے والے آرٹسٹ کو اس فیلوشپ سے نوازتی ہے۔اس میں لینگویج کوئی بیریر نہیں ہوتی۔بڑا اسکالر یا آرٹسٹ کسی بھی زبان کا ہو،جو ساہتیہ اکادمی کے اصول و ضوابط پر پورا اتر تا ہو،اسے ساہتیہ اکادمی فیلو شپ سے نوازتی ہے۔یہ فیلو شپ تین لاکھ روپے،ٹرافی اور سند پر مشتمل ہوتی ہے۔
ساہتیہ اکادمی سے ہر دو مہینے پر ’انڈین لٹریچر ‘ نامی جرنل شائع ہوتا ہے۔یہ جرنل انگریزی زبان میں ہوتا ہے۔اس میں شاعری، افسانہ، مضمون، تحقیق، تنقید، سفر نامہ، سوانح غرض ہر طرح کا مواد ہوتا ہے۔انگریزی کے علاوہ ہر زبان کے مواد کا انگریزی میں ترجمہ ہوتا ہے۔یہ جرنل ہندوستان کے پرانے جرنلس میں سے ایک ہے۔اسے شائع ہوتے ہوئے 65 برس کا طویل عرصہ گزر چکا ہے۔ساہتیہ اکادمی ایک نیوز لیٹر بھی شائع کرتی ہے،جو انگریزی زبان میں ہوتا ہے۔ اس میںساہتیہ اکادمی کی سرگرمیاں شائع ہو تی ہیں۔
ساہتیہ اکادمی پورے سال مختلف زبانوں میں مختلف پروگرام کرتی رہتی ہے۔اس کا کام دنیا کی زبانوں کے ساتھ تال میل بٹھانا،ترجمے کی شکل میں ہندوستانی ادب کا خزانہ بڑھانا،غیر ممالک کے اعلیٰ مصنّفین کو ہندوستا ن مدعو کرنا، ہندوستانی زبانوں کے درمیان پُل کا کام کرنا، ہندوستان کے فنون لطیفہ،تہذیب اور علم و فن کی حفاظت کر نا ہے۔یہ اکادمی دوسرے اداروں، یونیورسٹیز، کالجز کے ساتھ مل کر بھی بہت سارے پروگرام منعقد کر تی ہے۔
ان سب کے باوجود ساہتیہ اکادمی کا سب سے بڑا کام سبھی زبانوں میں ایوارڈ دینا ہے اور اس کی تقسیم کے لیے ساہتیہ اکادمی ایک ہفتے کا جشن مناتی ہے۔اس بار یہ جشن 11 مارچ سے شروع ہوا۔صرف اردو کی بات کریں تو اس بار کا ساہتیہ اکادمی (مین) ایوارڈ ڈاکٹر صادقہ نواب سحر کو دیا گیا۔ان کے ناول ’’راجدیو کی امرائی‘‘ پر انہیں یہ ایوارڈ تفویض کیا گیا۔ سہ روزہ، میر کی سہ صدی پر نیشنل سمینار، گلزار کی بات چیت، یک روزہ سمپوزیم بعنوان ’’پروفیسرگوپی چند نارنگ: حیات و خدمات ‘‘ منعقد ہوا۔ ان پروگراموں میں اردو کے 70 سے زائد مند و بین نے حصہ لیا۔اس کے علاوہ کہانی کی قرأت میں اردو کی نمائندگی پروفیسر غضنفر نے کی۔کثیر لسانی مشاعرے میں اردو کی طرف سے ڈاکٹر صادقہ نواب سحر نے حصہ لیا۔
’’ ساہتیہ اتسو ‘‘ میں سامعین کے علاوہ 1200 مندوبین نے شر کت کی۔اس کی شاندار پیش کش کا آپ اسی سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ سا ہتیہ اکادمی کے وسیع و عریض احاطے میں 9 مصنوعی پروگرام ہال بنائے گئے تھے۔جن میں اسٹیج اور ڈائس کے علاوہ100 سے زائد لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ تھی۔سبھی زبانوں کے پروگرام متوازی چل رہے تھے۔ان ہالس کے علاوہ ساہتیہ اکادمی کے اپنے ہال بھی تھے۔ساہتیہ اکادمی کی اپنی مطبوعات، آڈیو کیسٹ، ویڈیو سی ڈیز، فلمیں، انٹرویوز وغیرہ کی نمائش،کتاب میلہ،آرٹس نمائش الغرض ساہتیہ اکادمی کا پورا احاطہ دلہن کی طرح سجا ہوا تھا۔ ساہتیہ اکادمی کے اس میلے میں بچوں کے ادب پر اور بچوں کے لیے کئی پروگرام رکھے گئے تھے۔ان پروگراموں کا لطف اٹھانے کے لیے بہت سارے اسکول اور کالجز کے سیکڑوں طلبا و طالبات آئے ہوئے تھے۔ڈرائنگ مقابلے،سلوگن تحریر ی مقابلے، رنگولی میکنگ مقابلے، تقریری و تحریری مقابلے، بچوں کا دل موہ رہے تھے۔پورے ہفتے منعقد ہونے والے پروگراموں میں سے کچھ کے نام ہی ملاحظہ کریں۔بھارت کا بھکتی ساہتیہ، کیا ساہتیہ دوسرے فنون لطیفہ کے لیے اہم ہے، بھارت میں ادب اطفال کے تراجم سے متعلق مسائل،میرا پہلا تخلیقی تجربہ،ادب اور تانیثیت،تکنیک اور ادب،بھارتیہ ماحولیاتی تنقید،ایک ہتھیار کی شکل میں تخلیق کار،شمال مشرقی ادب میں معاصر تخلیقی سرمایہ،میرے لیے نظم کے معنی،میں کیوں لکھتا ہوں،بھارت کے گرافک ناول،میرے لیے ادب کے معنی،کثیر لسانی،کثیر تہذیبی سماج میں ترجمہ،نظم کا مستقبل،مادری زبانوں کی اہمیت،کیا ادب کا ترجمہ تہذیب کا ترجمہ ہے،آدی واسی تخلیق کاروں کے مسائل،اکیسویں صدی کی انگریزی تخلیق،مستقبل کے ناول،اکیسویں صدی کے بھارتیہ ناول،کیا ای کتابیں اور آڈیو کتابیں،طبع شدہ کتابوں کی جگہ لے رہی ہیں، تخلیق کار، پبلشر اور حقوق(کاپی رائٹ) کے مسائل،میرے لیے آزادی کی اہمیت،ادب اور سماجی تحریک، جیسے بے شمار موضوعات کے علاوہ کئی زبانوں کے مشاعرے،کوی سمیلن،نظم کی قرأت کے کئی سیشن،کہانیوں کے کئی سیشن،کل ملا کر یہ دنیا کا سب سے بڑا ادبی میلہ تھا۔اس کا دعوت نامہ ہی60 صفحے کا اور پروگرام کے مندوبین کاتعارف کرانے والی بک لیٹ 380صفحات کی تھی۔ہاں اگر بینرز پر زبانوں میں موضوعات ہوتے تو اور اچھا ہوتا۔سبھی بینرز ہندی اور انگریزی میں تھے۔ہو سکتا ہے یہ اکادمی کی پالیسی ہو،مگر اس میں ذرا سی تبدیلی سے بہت سا فائدہ ممکن ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS