ورلڈ اکنامک فورم (WEF) 2025 کا آغاز سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں 20 جنوری کو ہو چکا ہے۔اگلے24 جنوری کو اختتام پذیرہونے والے اس فورم کا انعقاد 1971 میں جرمن انجینئر کلائوس مارٹن شواب نے کیا تھا۔اس کے بعد سے یہ عالمی سطح پر سب سے اہم اقتصادی،سیاسی اور سماجی اجلاسوں میں شمار ہوتا ہے۔ عالمی رہنماؤں،ماہرین اقتصادیات،سیاستدانوں اور کاروباری شخصیات کے درمیان ہونے والی یہ بات چیت نہ صرف عالمی معیشت، موسمیاتی تبدیلیوں اور جیو پولیٹیکل مسائل پر مرکوز ہوتی ہے،بلکہ یہ اس بات کا جائزہ لیتی ہے کہ ان مسائل کا انسانوں کی زندگیوں پر کیا اثر پڑ رہا ہے۔
ہندوستان نے اس فورم میں اپنا سب سے بڑا وفد بھیجا ہے،جس کی قیادت وزیر اطلاعات و نشریات اشونی ویشنو کر رہے ہیں۔ اس وفد میں پانچ مرکزی وزرا،تین وزرائے اعلیٰ اور تقریباً 100 سی ای او شامل ہیں۔ ہندوستان عالمی سطح پر اپنے ترقیاتی ماڈلز،تکنیکی اختراعات اور سماجی فلاح کے منصوبوں کو اجاگر کرنے کیلئے اس فورم میں شریک ہے۔ اس عالمی پلیٹ فارم پر ہندوستان اپنی اقتصادی پالیسیوں اور ترقی کے نمونوں کو پیش کر رہا ہے اور دنیا کے ساتھ شراکت داری کو مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ عالمی فورمز میں ہونے والی بحثوں اور فیصلوں کا انسانوں پر،خصوصاً غریبوں اور کمزور طبقوں پر کیا اثر پڑتا ہے؟ ان اجلاس میں جو باتیں کی جاتی ہیں،کیا ان کا عملی اثر عوام تک پہنچتا ہے؟ یہ اجلاس محض کاروباری مفادات کو تقویت دینے کیلئے ہیںیا ان میں عوام کے حقیقی مسائل پر بھی غور کیا جاتا ہے؟
ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس میں یہ بات ہمیشہ زور پکڑتی ہے کہ عالمی مسائل کے حل کیلئے ترقی کی نئی راہیں تلاش کی جائیں اور اس ترقی کا فائدہ ہر فرد تک پہنچنا چاہیے۔ تاہم،یہ ترقی کا فائدہ صرف ایک منتخب طبقے تک پہنچنا کافی نہیں،بلکہ اس کا اثر عوام کے ہر طبقے تک پہنچنا ضروری ہے،خاص طور پر غریبوں اور پسماندہ افراد تک۔ جب تک ان اقدامات کا عملی اثر عوامی سطح پر محسوس نہیں ہوتا،یہ صرف نمائشی ہی کہی جائیں گی۔
اقتصادی ترقی کے بارے میں عالمی سطح پر کی جانے والی بات چیت اور فیصلے بعض اوقات غریب طبقے کیلئے منفی نتائج بھی پیدا کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پرجب عالمی تجارتی معاہدے اور کاروباری فیصلے مقامی پیداوار کی قیمتوں کو بڑھا دیتے ہیںتو غریب افراد پر ان کا بوجھ بڑھ جاتا ہے،کیونکہ ان کی آمدنی میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ یہ اقتصادی فیصلے عالمی معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے کیے جاتے ہیں،لیکن جب تک ان کا فائدہ عوام تک نہیں پہنچتا،وہ محض ایک خیالی ترقی بن کر رہ جاتے ہیں۔
اس کے باوجود،اگر اقتصادی پالیسیوں کو عوامی فلاح کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے تو یہ عالمی فورمز میں کی جانے والی بات چیت کا مثبت اثر ہو سکتا ہے۔ جب ترقی کے منصوبے معاشی فوائد کے ساتھ ساتھ سماجی انصاف پر بھی زور دیتے ہیںتو اس کا فائدہ عوام کے تمام طبقات تک پہنچتا ہے۔
ورلڈ اکنامک فورم کا اصل مقصد صرف عالمی معیشت کے اعداد و شمار میں اضافہ کرنا نہیں ہونا چاہیے،بلکہ اس کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ ترقی کے فیصلے عوام کے مفاد میں ہوں اور ان کا اثر ہر فرد کی زندگی میں محسوس ہو۔ جب تک عالمی فورمز میں ہونے والی بات چیت صرف کاروباری مفادات تک محدود رہتی ہے، اس کا اثر عوام تک نہیں پہنچتااور ترقی کی بات محض ایک دکھاوا بن کر رہ جاتی ہے۔
ہندوستان عالمی سطح پر اپنی پوزیشن کو مستحکم کرنے اور اقتصادی ترقی کے فوائد کو دنیا کے ساتھ شیئر کرنے کیلئے اس فورم میں شریک ہے،لیکن اس کا مقصد صرف عالمی سطح پر اثر و رسوخ بڑھانا نہیں ہے۔ اس کا مقصد یہ بھی ہے کہ ترقی کے فوائد غریبوں اور پسماندہ طبقات تک پہنچیںاور ان کی زندگیوں میں حقیقی تبدیلی آئے۔ جب تک یہ ترقی عوام تک پہنچ کر ان کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی نہیں لاتی،تب تک یہ ترقی ایک فریب کے سوا کچھ نہیں۔
ورلڈ اکنامک فورم کی بات چیت تب ہی کامیاب ہو سکتی ہے جب اقتصادی ترقی کا فائدہ صرف اعداد و شمار میں نہیں،بلکہ انسانوں کی زندگیوں میں بھی محسوس ہو۔ عالمی رہنماؤں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ترقی کا اصل فائدہ تب ہی حاصل ہو سکتا ہے جب وہ عوام کے مفاد کو ترجیح دیں اور ان کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر فیصلے کریں۔ یہی وہ کامیابی ہے جس کا اثر ہر فرد کی زندگی میں محسوس ہو اور یہ تب ہی ممکن ہے جب عالمی فورمز میں ہونے والی بات چیت زمین پر حقیقت بنے،نہ کہ صرف کاروباری مفادات کی بات ہو۔