رائے کے احترام سے خوبصورت بن سکتی ہے دنیا: محمد حنیف خان

0

محمد حنیف خان

کبھی کبھی عام سی گفتگو کے دوران بڑی اہم اور پتے کی بات سامنے آجاتی ہے جو غور وفکر پر مجبور کردیتی ہے۔ایک دن دوران گفتگو ایک دوست سے سوال کرلیا،یہ بتائیں کہ آپ کی نظر میں کوئی انسان پیارا اور محترم کیسے بن سکتا ہے؟ ان کا جواب تھا ’’میری رائے کا احترام کرکے ‘‘میں چونک پڑا،بات بڑی اہم اور پتے کی تھی،جب اس پر غور کرنا شروع کیا تو اس ایک مختصر سے جملے نے پوری کائنات کو اپنے دائرے میں لے لیا۔اگر اس جملے پر نیچے اوپر کی جانب یعنی فرد سے ملک اور دنیا کی طرف غور کرنا شروع کریں تو یہ اپنی پوری سچائیوں کے ساتھ سامنے آجاتا ہے۔

اگر ہر فرد ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرنے لگے تو سوچئے دنیا کتنی خوبصورت بن جائے گی،ایک دوسرے کی نظر میں سب کی عزت بڑھ جائے گی،وقار اور احترام میں کتنا اضافہ ہوجائے گا۔اسی فرد کو دوسرے فرد سے جوڑ کر دیکھئے اور معاشرے کی کڑیوں کو آپس میں ملانا شروع کیجیے، دیکھئے نتائج کتنے خوشگوار سامنے آتے ہیں۔اس کا آغاز اگر ہم خانگی سطح سے کریں تو نتائج مزید بہتر ہوں گے۔ خاندان کا وجود زن و شو سے ہے،اس وقت ہماری عدالتوں میں کئی لاکھ عائلی مقدمے زیر التوا ہیں،جن کے لیے فاسٹ ٹریک عدالتوں کا قیام کیا گیا ہے،اس کے باوجود ان کا تصفیہ نہیں ہوسکا،بیوی اپنے شوہر سے ناراض ہے اور شوہر اپنی بیوی سے،اگر تنازعات کی جڑ میں جائیں گے تو پتہ چلے گا کہ ایک دوسرے کی رائے کا احترام نہ کرنے کی وجہ سے ہی یہ معاملات عدالتوں تک پہنچے ہیں اور ایک بار ملنے والی یہ بیش قیمت زندگی جہنم کا نمونہ بن گئی ہے۔اگر زن و شو کے مابین رائے کا احترام ہوتا تو شاید پریشانیوں کا نام و نشان تک نہیں ہوتا کیونکہ اس صورت میں دونوں ایک دوسرے کی پسند، خواہش اور ضرورت کا احترام کرتے مگر چونکہ ایسا نہیں ہوا اس لیے ان کی اور ان کے ساتھ بچے ہونے کی صورت میں ان بچوں کی زندگیاں تباہ و برباد ہو رہی ہیں۔

اسی طرح سے اولاد اور والدین کے مابین کشمکش کی ایک بڑی وجہ رائے کا عدم احترام ہے۔والدین چاہتے ہیں کہ چونکہ وہ ان کے بچے ہیں، اس لیے ان کی ہر بات بغیر کسی قیل و قال کے مان لیں جبکہ بچے یہ سوچتے ہیں کہ والدین تو پرانے زمانے کے لوگ ہیں،انہیں نئے دور کی ضرورتوں سے آگاہی نہیں، اس لیے وہ اپنے تجربے اور علم کی روشنی میں اپنی زندگی کا سفر آگے بڑھانا چاہتے ہیں،ایسے میں ان دونوں کے مابین کشمکش کی صورت سامنے آتی ہے۔چونکہ یہ نیوکلیر سوسائٹی کا دور ہے،ہر آن دنیا بدل رہی ہے، ایسے میں اگر دونوں ایک دوسرے کو سمجھیں اور ان کی رائے کا احترام کریں تو اس طرح کی صورت حال سے دونوں بچ سکتے ہیں۔بچوں کی شادیوں کے سلسلے میں والدین کا رویہ خطرناک حد تک پریشان کن ہوتا ہے،خاص طور پر والدین اگر قصبات یا دیہی علاقوں سے تعلق رکھتے ہوں۔60 فیصد ہندوستان آج بھی دیہات میں بستا ہے،اسی لیے اسے زراعت پر مبنی ملک قرار دیا جاتا ہے،اس کے باوجود جدت اور ترقیات کے منابع و مصادر آج بھی تعلیم اور شہرہیں، قصبات اور دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے بچے تعلیم اور ترقی کے لیے شہروں کا رخ کرتے ہیں جہاں انہیں ایک ایسا ماحول ملتا ہے جو ان کے اپنے آبائی علاقوں سے مختلف ہوتا ہے،ایسے میں اگر وہ شادیوں کا فیصلہ کرلیتے ہیں تو انہیں بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے،حالانکہ یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ ہر معاملے میں یہ بچے ہی درست ہوں،اس لیے دونوں اگر ایک دوسرے کی رائے کا احترام کریں تو نتائج بڑے خوشگوار مل سکتے ہیں۔
اساتذہ و طلبا،مالکان اور ملازمین،اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے افراد اور ماتحتوں کے مابین بھی نزاعی کیفیت صرف اس لیے سامنے آتی ہے کیونکہ دونوں ایک دوسرے کی رائے کا احترام نہیں کرتے۔یعنی اگر رائے کا احترام ہم سیکھ لیں اور اسے اپنی زندگی کا جز بنالیں تو یقینی طور پر فرد کی سطح پر ہم معاشرے کو خوبصورت بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

فرد سے آگے بڑھ کر اگر ہم ذات و برداری کی سطح پر اسی رائے کے احترام کا مطالعہ کریں،اس پر غور و فکر کریں تو یہاں بھی پتہ چلے گا کہ نزاعی کیفیت کی بنیاد رائے کا عدم احترام ہی ہے۔کیونکہ ایک ذات دوسری کو اسفل مانتی ہیں، تفوق کے بہت سے اسباب ہوسکتے ہیں،چونکہ ہندوستان کی بنیاد ذات و برادری پر ہے خواہ اکثریتی طبقے کی بات کی جائے یا اقلیتی،دونوں جگہ ذات و برادری کا تفوق اپنے پورے وجود کے ساتھ موجود ہے۔اس لیے یہاں بھی اسی احترام رائے کی ضرورت ہے۔

مسلمانوں میں مسلکی اعتبار سے اس قدر تنازعات ہیں کہ ایک اسٹیج سے دوسرے کو کافر قرار دینے کو بھی برا تصور نہیں کیا جاتا،یہاں تک کہ سلام و کلام اور مصافحے تک سے باز رہا جاتا ہے،ہر مسلک کا ماننے والا دوسرے مسلک کے ماننے والے کی رائے کا احترام نہیں کرتا بلکہ آنکھ بند کرکے اپنے مسلک کو برتر تصور کرتا ہے،ایسے میں مسلکی تنازعات جنم لیتے ہیں،اس معاملے میں شیعہ اور سنی،دیوبندی اور بریلوی،دیوبندی اور اہل حدیث ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار نظر آتے ہیں،ایک خوبصورت معاشرے کے لیے یہ نفسیات سم قاتل ہے،جس سے احتراز لازمی ہے۔

ہندوستان گزشتہ کچھ برسوں سے مذہبی تفوق کی آگ میں جل رہا ہے، ہندو-مسلم منافرت،مذہبی تعصب اور مذہب کی بنیاد پر قتل و خون، آگ زنی عام سی بات ہے۔ حالات یہ ہوگئے ہیں کہ ہندو اور مسلمان ایک سوسائٹی میں نہیں رہنا چاہتے ہیں،کچھ برس قبل میرٹھ میں کسی ہندو ڈاکٹر نے ایک مسلم کے ہاتھ اپنا گھر فروخت کردیا تھا تو اس پر قبضہ نہیں کرنے دیا گیا،ابھی چند دنوں قبل ایک ایسے اپارٹمنٹ کی تعمیر کی خبر آئی جہاں صرف مسلمان ہی فلیٹ خرید سکتے ہیں،کسی ہندو کو اس میں رہنے کی اجازت نہیں۔ اسی طرح ایک مسلمان آج گھر سے باہر نکلتے ہوئے ڈرتا ہے۔ ملک کے حالات ایسے ہوگئے ہیں کہ کب کس کو اجتماعی تشدد کا نشانہ بنا لیا جائے کوئی نہیں جانتا،مذہبی شعار کی بنیاد پر زد و کوب کیا جانا اب بالکل عام ہوچکا ہے،اہم بات یہ ہے کہ منافرت سماج میں ہر سطح پر سرایت کرچکی ہے۔جس کی سب سے بڑی وجہ مذہبی سطح پر ایک دوسرے کا عدم احترام ہے۔اگر یہ احترام ہماری نفسیات کا حصہ بن جائے تو یہ ملک کتنا خوبصورت اور پر امن بن سکتا ہے،ذرا سوچئے۔

سیاسی سطح پر بھی ہم رائے کے عدم احترام کو دیکھ رہے ہیں،حکمراں پارٹی اور حزب اختلاف کے مابین جس طرح کی رسہ کشی اور منافرت کا جذبہ پایا جاتا ہے،اس کی بنیاد یہی ہے۔اگر دونوں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیںاور اس بات کو تسلیم کریں کہ عوام الناس نے ایک کو پالیسی سازی کے لیے اور دوسرے کو اس کے کراس ویری فائنگ کے لیے منتخب کیا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہوگا مگر یہاں سبھی دشواریوں اور پریشانیوں کی جڑ حزب اختلاف ہے جبکہ اس کی نظر میں حکومت کا کوئی بھی فیصلہ عوام کے حق میں ہونے کے بجائے ملک اور آئین مخالف ہے،ایسے میں پارلیمنٹ سے لے کر سڑک تک دونوں کے مابین ایک نہ ختم ہونے والی جنگ چلتی ہے،جس میں پارٹی کے ساتھ ہی ذات کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔

اسی مسئلے کو اگر ہم آفاقی مان کر غور کریںتو دنیا میں ہونے والی جنگیں بھی رائے کے عدم احترام کا نتیجہ ہیں،طاقتور ممالک کمزور ممالک کو اپنا بازگزار تصور کرتے ہیں،ان کی نظر میں ان ممالک کا کوئی وجود اور حیثیت نہیں،اس لیے وہ ان کی رائے کا احترام کرنے کے بجائے اپنے فیصلے ان پر تھوپتے ہیں،جس کے نتیجے میں جنگیں ہوتی ہیں اور انسانوں کی جانیں ضائع ہوتی ہیں۔

حال ہی میں سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ابھے شری نواس اوک نے ایک میڈیاہاؤس کو انٹرویو دیتے ہوئے رائے کے احترام اور فرد کی آزادی سے متعلق بڑی اہم بات کہی،انہوں نے کہا کہ آج کے دور میں رائے کی آزادی اور فردکی آزادی خطرے میں ہے،جس کے لیے انہوں نے فرد اور حکومت دونوں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا: ’’میں یہ نہیں کہہ رہا کہ بولنے کی آزادی صرف حکومت کی وجہ سے خطرے میں ہے، یہ شہریوں(عوام)کی وجہ سے بھی خطرے میں ہے،ہم شہری ایک دوسرے کے بولنے کی آزادی کا احترام نہیں کر رہے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ فرد،طبقہ،مذہبی گروہ، سیاسی جماعت،حکومت و عوام اور ملکوں کی سطح پر ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرکے جہنم نما اس دنیا کو بہت خوبصورت بناسکتے ہیں۔

haneef5758@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS