عبدالسلام عاصم
ہر سماج میں دو طرح کی اقلیتیں ہوتی ہیں۔ ایک مذہب اور ذات پات کے حساب سے اور دوسری اُن عقلمندوں کی جو اکثریت اور اقلیت دونوں میں پائے جاتے ہیں۔ نام نہاد ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں میں محدود فکر رکھنے والی مختلف قسم کی حکومتیں اِن دونوں اقلیتوں کو اپنے اپنے طریقے اور ترجیحات کے مطابق استعمال کرتی ہیں۔وطن عزیز میں کل تک نام نہاد سیکولر حکومتیں دونوں اقلیتوں کو جھانسے میں رکھ کر حکمرانی کی عیاشیوں میں مصروف رہیں۔ موجودہ حکومت نے بظاہر دونوں کو منھ لگانا ہی بند کر دیا ہے۔
سماج کو ا ن دونوں طرح کی حکومتوں سے جو نقصان ہوتا آیاہے۔ تاریخ کا بے لاگ مطالعہ بتاتا ہے کہ بظاہر امن کے زمانے میں معاشرے میں امیر اور غریب کے فرق کے علاوہ رنگ اور نسل، ذات اور مذہب کے نام پر جو ناانصافیاں پنپتی رہتی ہیں ان کی وجہ سے رفتہ رفتہ نوبت تشدد تک پہنچتی ہے ۔ بالفاظ دیگر ناانصافیوں سے اوبنے والا ایک حلقہ زیادتیوں پر اُتر آتا ہے۔یہ زیادتیاںاُس وقت تک دراز ہوتی رہتی ہیں جب تک متحارب تھکان نہ محسوس کرنے لگیں۔ اس کے بعد امن کی اپیلوں کے ساتھ تھکان اتارنے کا وقفہ آتا ہے جس میں وقتی طور پر سب اچھی اچھی باتیں کرنے لگتے ہیں۔ ماضی میں ایسے انقلابات کا مشاہدہ ہم روس تا ایران سرخ اور سبز دونوں رنگوں میں کر چکے ہیں۔
وطن عزیز میںابھی ماضی قریب تک نام نہاد سیکولر حکومتوں کے قائدین عقل مندوں کو سرکاری و ادارہ جاتی انعام و اکرام کی کشش میں اُلجھا کر اپنا اُلّو سیدھا کیا کرتے تھے۔مذہبی اقلیتوں کیلئے دام فریب بچھانے کا سلسلہ اس قدر دراز کیا گیا کہ سچر کمیشن کی رپورٹ پر ہونے والی بحث تک کو بے ہنگم طریقے سے بھنانے سے بھی لوگ باز نہیں آئے۔ منھ بھرائی اور خوشامد کی سیاست کرنے والوں کی بدمست چالوں کی وجہ سے ایک مرحلے پر سابق وزیراعظم منموہن سنگھ کی ایک تقریر میں انجام کا اندازہ لگائے بغیریہ جملہ ٹھونس دیا گیا کہ قومی وسائل پر پہلا حق اقلیتوں کا ہے۔ اس ایک جملے نے قومی سیاست میں بھونچال لانے کی سیاسی کوششوں کو کتنی مہمیز لگائی اس کا اندازہ ہر باشعور کو ہے خواہ وہ اس کا اظہار کرے یا مصلحتاً خاموش رہے۔
نئی الفی کے ساتھ حالات تیزی سے بدلنے لگے۔پہلی دہائی سیکولر حکمرانوں کے ہاتھ سے پھسلتی اور واپس آتی رہی۔اس کے بعد دوسری دہائی میں ایک زور کا جھٹکا دھیرے سے ایسا لگا کہ سارا کس بل نکل گیا۔ دونوں قسم کی اقلیتوں کو بظاہر منھ لگانا ہی بند کر دینے والی موجودہ حکومت کے عہد میں ایک طرف عقل مند کچھ سوچنے اور سمجھنے سے ہی قاصر نظر آنے لگے ہیں تودوسری طرف اقلیت کو اپنی زندگی کی بقا سے زیادہ اُس شناخت کی بقا کی جد وجہد میں اُلجھا دیا گیا ہے جو دنیا میں کسی بھی قوم کے کسی بھی فرد کااپنا شعوری انتخاب نہیں۔ یہ جنگ اُس جنگ سے مختلف نہیں جس کے حوالے سے اکثر ایک جملہ کانوں سے گزرتا ہے کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے۔ دنیا کا یہ سب سے سفاک اور تکلیف دہ جملہ اکثر اُن لوگوں کی زبان پر ہوتا ہے جو خود کو بہ زعم خود فلاسفر، عالم اور زمانہ ساز سمجھتے ہیں لیکن بنیادی طور پر وہ انتہائی خود پسند اور ظالم ہوتے ہیں۔ انہیں صرف اپنے کاروبار سے مطلب ہوتاہے جس میں ایک طرف وہ سب نفع تجوری میں رکھ کر سب خسارہ کھاتوں میں دکھاتے ہیں اور دوسری طرف گاہک کے اُس جذبے کو بھی کامیابی سے بھناتے ہیں جسے گاہک کسی پر ظاہر نہیں کرتا۔مارکیٹنگ ایجنسی کے ایک نمائندے نے ایک اخباری ملاقات میں بتا یا کہ نہانے کے صابن کے اشتہار میں کسی حسین لڑکی کی تصویر ایک سے زیادہ زاویوں سے شامل کی جاتی ہے۔ انہی میں ایک زاویہ اُس احساس کا ہوتا ہے جس کے بالواسطہ اظہار تک رسائی حاصل کرنے والا ہی ایک اچھا اشتہار تیار کر سکتا ہے۔ سیاست میں یہ محاذ سنبھالنے والوں میں تازہ زیر بحث نام پرشانت کشور کا ہے جنہوں نے حال ہی میںپارٹی پریزینٹیشن کے باوجود کانگریس میں شامل ہونے سے انکار کر دیا تھا۔
نام نہاد ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں میں سیاست کو ایسے ہی عناصر کنٹرول کرتے ہیں۔ ان کا ظاہر خواہ سیکولر ہو یا مذہبی، بباطن وہ صرف ایسے کاروباری ہوتے ہیں جن کا سارا کاروبار اشتہار سے چلتا ہے۔ عقل مندوں اور روایتی اقلیتوں کو اگر منظر نامہ بدلنے میں مسلسل ناکامی کا سامنا ہے تو اس کیلئے وہ طاقتیں بھی ذمہ دار ہیں جو سماجی اتھل پتھل اور کشیدگی کا فائدہ اٹھاتی ہیں۔بیشتر علاقائی اور عالمی مجالس میں ایسے ہی عناصر کا غلبہ ہے۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ یوکرین کی جنگ میں روس مخالف صف بندیاں محاذِ جنگ کے بجائے مذمتی مجالس تک محدود ہیں۔ مغربی ایشیا اور دوسرے متاثرہ خطوں بشمول افغانستان میں بھی نقض امن دور کرنے سے زیادہ اسے بھنانے سے دلچسپی کا دائرہ ہمسائے سے مغرب تک دراز ہے۔
سابقہ حکومتوں کے ساٹھ سالہ عہد اور موجودہ حکومت کی دوسری میعاد میں سماجی رشتوں کا سب سے زیادہ نقصان ہندو یا مسلمان ہونے پر جارحانہ فخر کرنے والوں کو نہیں ہوا بلکہ اُن لوگوں کو ہوا ہے جو اپنی جداگانہ پہچان کے ساتھ آج بھی مل جل کر جینے پر یقین رکھتے ہیں۔ملک کی اکثریت اور اقلیت دونوں میں حیرت انگیز طور پر آج بھی جداگانہ پہچان کے ساتھ پُر امن طور پرجینے کی سوچ رکھنے والے ہی اکثریت میں ہیں۔یہ اکثریت بہرحال اُن اشتہاری عناصر کی طرح نہیں جن کی شعلہ بیانیوں اور زہر افشانیوں کے نتائج کا پوری قوم کو سامنا ہے۔ جداگانہ مذہبی پہچان کے ساتھ مل کر رہنے والے دونوں طرف کے لوگوں کوبھی اپنے اپنے مذاہب بے حد عزیز ہیں لیکن وہ اپنی مبنی برعقیدہ پسند اور ناپسند کو حق و باطل نہیں گردانتے۔
پچھلے دنوں مجھ سے مختلف مذہبی شناخت رکھنے والے میرے ایک صحافی دوست نے بتایا کہ سیاسی اور اشتہاری کاروبار کی رفتار ہمیشہ زمانے کی رفتار سے ہم آہنگ رہی ہے۔ کل جہاں اس رفتارکی تیزی ایک حد میں تھی، وہیں آج لامحدود ہے۔ یہ فرق اور اس کے کاروباری اثرات کم از کم اُن صحافیوں سے پوشیدہ نہیں جو فیلڈ رپورٹنگ کرتے ہیں اور سیاسی، سماجی اور مذہبی رہنماؤں کے تکون کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔آج بھی یہی تکون بہ انداز دیگرکام کر رہا ہے۔رہ گئی بات’’ تحفظ کے مراعات والے منافع‘‘ اور ’’زندگیوں کے زیاں والے خسارے کا‘‘تو بہ کثرت آبادی والے ملکوں میں یہی وہ سیاسی پیمانہ ہے جس پر جمہوریت کے باوجود بندوں کو تولا جاتا ہے گنا نہیں جاتا ہے۔
چونکہ ثبات ایک تغیر کو ہے، زمانے میں اس لیے موجودہ منظر نامے کو بھی ایک دن بدلنا ہے ۔ یعنی وہ دن نہیں رہے تو یہ دن بھی نہیں رہیں گے۔لیکن جب تک تبدیلی نہیں آتی ہے، تب تک کیا کیا جائے! یہ سوال ہمیں پھر وہیں لے جاتا ہے کہ امن کے زمانے میں لوگوں کے ناانصافیوں سے اوبنے سے نوبت خانہ جنگی تک بھی پہنچتی ہے اور پھر جنگی تھکان ایک تبدیلی لاتی ہے جس میں سب تھکے ہارے اس وقت تک امن کے ساتھ جیتے ہیں جب تک ناانصافیاں دوبارہ سر نہ اٹھانے لگیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے! یہ کو ن سی غیر سائنسی سائیکل ہے یا دنیا کے گول ہونے کا یہ بھی ایک ثبوت ہے! ان سوالوں سے جستجو کا سفر کب ختم ہوگا! اس کا دوٹوک جواب کسی کے پاس نہیں۔ سائنس ان سوالوں سے نہیں اُلجھتی کیونکہ وہ تجسس کے سفر کو موڑ در موڑ طے کرتی ہے کسی منزل کی طرف اشارہ نہیں کرتی۔اس کے برعکس ادعائیت منزل اور منزل کا راستہ دونوں دکھاتی ہے لیکن اس راستے سے صحیح سلامت کیسے گزرنا ہے یہ بتانے والے مکاتب فکر آپس میں اِس بری طرح بر سر پیکار ہیں کہ اللہ کی پناہ۔
مطالعات کی میز سے لیپ ٹاپ تک پر بکھری کتابوں، برقی بلاگس، موضوعاتی مآخذات، ڈسکورس اورعکسی فائلوں کی مددسے باہر کی دنیا پر قابو پانے میں جب کوئی مدد نہیں ملتی تو کچھ دیر کیلئے میں یہ بھی سوچنے لگتا ہوں کہ ہم سبھی کہیں سعی رائیگاں کے شکار تو نہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ایک ہی سماج میں دو اور دو چار کے علمی حساب اور دو اور دو پانچ کے عقیدے کے احترام کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا اگر کل مشکل تھا تو آج بھی آسان نہیں۔ بہر حال میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ سب ناممکنات کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ معذوروں کو بہ اندازِ دیگر اہل بنانے والے سائنس دانوں کا تعلق بھی ہم انسانوں سے ہی ہے۔نابینا لوگوں کیلئے بریل تیارکرنا اور پھر اس بریل تحریروں کو موبائل اور لیپ ٹاپ کا فعال حصہ بنا دینا اپنے آپ میں ایسا کمال ہے جو زندگی کی کسی بھی دشواری کے محاذ پر ہمت ہارنے سے بچا لیتا ہے۔ خدا کرے کہ ہمارے قومی، علاقائی اور عالمی معاملات بھی کسی دن ایسی ہی کوئی خوشگوار کروٹ لیں۔ آمین
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]