لاک ڈاؤن سے ڈر کر نہیں چلے گا کام

اس طرف کنواں، اُس طرف کھائی کی حالت ، ایسے میں توازن قائم رکھناواحد طریقہ

0

بھرت جھن جھن والا

فرینک فرٹ اسکول آف فائنانس کے مطابق اگر لاک ڈاؤن نہیں لگاتے ہیں تو شرح اموات میں اضافہ ہوتا ہے اور اس سے آنے والے وقت میں معیشت میں گراوٹ آتی ہے۔ اس کے برعکس اگر لاک ڈاؤن لگاتے ہیں تو معیشت میں فوراً گراوٹ آتی ہے۔ مالیاتی ادارہ جیوفریز(Financial institution geoffreyes) نے بتایا ہے کہ امریکہ کی تین ریاستیں ایریجونا، ٹیکسس اور یوٹاہ میں لاک ڈاؤن نہ کے برابر لگائے گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان ریاستوں میں کووڈ کا پھیلاؤ زیادہ ہوا اور معیشت میں زیادہ گراوٹ آئی۔ اسی مطالعہ میں اسکین ڈنیویا کے دو ممالک کا تقابلی مطالعہ کیا گیا۔ سویڈن میں لوگوں کو رضاکارانہ سوشل ڈسٹینسنگ اپنانے کے لیے حوصلہ افزائی کی گئی۔ اس کے برعکس ڈنمارک میں لاک ڈاؤن لگایا گیا۔ پایا گیا کہ سویڈن میں پانچ گنا زیادہ اموات ہوئیں۔ یونیورسٹی آف آکسفورڈ اور ’وائلی کلینیکل پریکٹس‘ میگزین میں دو مختلف مضامین میں انگلینڈ کے لاک ڈاؤن کے تعلق سے بتایا گیا کہ دیر سے لاک ڈاؤن لگانے کے سبب وہاں شرح اموات زیادہ ہوئی، جس کا معیشت پر منفی اثر پڑا۔

نیشنل بیورو آف اکنامک ریسرچ کیمبرج کے مطابق 1918 کی فلو وبا کا معاشی منفی اثر چار دہائی تک رہا۔ یوروپ کے سینٹر فار اکنامک پالیسی ریسرچ کے مطابق وبا کے ایک سال بعد کا معاشی اثر 15فیصد منفی ہوتا ہے اور پوری طرح سنبھالنے میں تین برس لگ جاتے ہیں۔ اس سے یہ بات واضح ہے کہ یہ مسئلہ ابھی لمبے عرصہ تک چلے گا۔ حکومت کو لاک ڈاؤن لگاتے وقت چھوٹی صنعتوں اور غریبوں کو راست مالی مدد دینی چاہیے۔ اس مدد کے لیے رقم کمانے کے لیے سرکاری کھپت میں کٹوتی کرنی چاہیے، قرض نہیں لینا چاہیے۔

ان مطالعوں سے واضح ہے کہ لاک ڈاؤن تو ہمیں لگانا ہی پڑے گا۔ لاک ڈاؤن نہیں لگاتے ہیں تو وبا کا پھیلاؤ زیادہ ہوتا ہے جو آخرکار معیشت پر بھاری پڑتا ہے۔ دوسری طرف اگر لاک ڈاؤن لگاتے ہیں تو معیشت کو راست نقصان ہوتا ہے۔ اس لیے ہمارے سامنے سوال یہ نہیں ہے کہ لاک ڈاؤن لگائیں یا نہ لگائیں۔ سوال یہ ہے کہ لاک ڈاؤن کس طرح لگایا جائے، اس کا طریقہ کیساہو۔ لاک ڈاؤن خصوصی مقامات، کاموں اور ترکیب سے لگایا جاسکتا ہے جس سے کہ معاشی مضر اثرات کم ہوں اور وبا کا پھیلاؤ بھی کم ہو۔ ’اکنامکس ٹوڈے‘میگزین کے مطابق اگر کنسٹرکشن انڈسٹری سے کہہ کر مزدوروں کو سائٹ کی چہاردیواری کے اندر ہی رہنے کی سہولت مہیا کرائی جائے تو معاشی سرگرمیاں جاری رکھتے ہوئے بھی وباکے پھیلاؤ پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح کا انتظام کل کارخانوں میں بھی کیا جاسکتا ہے۔
یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ لاک ڈاؤن کا فوری اور طویل مدتی کل اثر کیا ہے۔ اسکولوں میں لاک ڈاؤن لگانے سے موجودہ وقت میں خصوصی منفی اثر نہ نظر آئے، تو بھی طویل مدت میں اس کا بہت زیادہ اثر پڑتا ہے۔ اس لیے وہاں ٹیسٹنگ اور ٹریسنگ کی جائے۔ اس کے مقابلہ میں ہوٹل، ریستوراں، مندر اور تیرتھ یاترا پر لاک ڈاؤن لگادینا بہتر ہے، کیوں کہ ان سرگرمیوں سے کووڈ کے پھیلاؤ کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
حکومت کو مختلف سرگرمیوں پر الگ الگ ترکیب سے لاک ڈاؤن لگانے کے نفع نقصانات کا اندازہ لگانا چاہیے۔ پرائمری، سکینڈری اور اعلیٰ تعلیم کے اسکولوں میں لاک ڈاؤن لگانے سے انفیکشن میں کتنی بچت ہوتی ہے اور معیشت کو کتنا نقصان ہوتا ہے، یہ دیکھا جائے۔ اسی طرح غیرملکی سفر، ہوٹل، ریستوراں اور تیرتھ یاترا پر پابندی عائد کرنے سے کتنا نفع-نقصان ہوتا ہے، یہ بھی دیکھا جائے۔ کنسٹرکشن کے معاملہ میں بھی اسے کھولنے، بند کرنے اور مزدوروں کو چہاردیواری کے اندر رکھنے-ان تینوں متبادل کے الگ الگ نفع نقصان کا ٹھیک سے حساب کیا جانا چاہیے۔ تب جس متبادل میں فائدہ زیادہ ہو، اس کو اپنانا چاہیے۔ ایسا کرنے سے معیشت کی اصل رفتار قائم رہ سکتی ہے۔
’وائلی کلینیکل پریکٹس‘ میگزین میں اس بات پر زور دیا گیا کہ لاک ڈاؤن کو صرف اوپر سے لگانے سے بات نہیں بنتی ہے۔ اس میں عوام کا تعاون حاصل کرنا اہم ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ گزشتہ برس کووڈ وبا کے شروعاتی وقت میں نیویارک کے گورنر کواومو ہر روز صبح پریس کانفرنس کرکے عوام کو حالات کی تفصیلی معلومات فراہم کراتے تھے۔ اسی طرح اگر ہر ریاست کے وزیرصحت روزانہ عوام کو صحیح حالت سے آگاہ کرائیں اور خود بھی ان ضوابط پر عمل درآمد کریں جن کی امید وہ عوام سے کرتے ہیں تو عوام کا انہیں تعاون حاصل ہوگا۔ یاد رکھیں کہ لال بہادر شاستری نے پاکستان سے جنگ کے وقت پورے ملک سے اپیل کی تھی کہ سب کو ہفتہ میں ایک دن کا اپوواس کرنا چاہیے، جس سے اناج کی بچت ہوسکے۔ ان کی اپیل کا پورے ملک کے لوگوں پر گہرا اثر پڑا تھا کیوں کہ وہ خود بھی اس مشورہ پر پوری ایمانداری سے عمل کررہے تھے۔
مطالعات بتاتے ہیں کہ لاک ڈاؤن کا اثر غریبوں پر زیادہ پڑتا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ڈیوڈ نوارو نے یہ بات زور دے کر کہی ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے ایک مطالعہ میں بھی کہا گیا ہے کہ سخت لاک ڈاؤن کے سبب غریب کے پاس کھانا نہیں ہوتا ہے اور وہ بھوکے مرنے کی جگہ لاک ڈاؤن کو توڑ کر روزی روٹی کمانا پسند کرتا ہے۔ ایسے میں لاک ڈاؤن ناکام ہوجاتا ہے۔ معیشت لاک ڈاؤن کے سبب کمزور پڑتی ہے اور وبا لاک ڈاؤن توڑنے کے سبب بڑھتی ہے۔ اس لیے ہارورڈ یونیورسٹی کا کہنا ہے کہ سخت لاک ڈاؤن کے ساتھ ساتھ غریبوں کو راست مالی مدد دینی چاہیے۔ ’وائلی کلینیکل پریکٹس‘ اور لندن اسکول آف اکنامکس کے مضامین میں کہا گیا ہے کہ غریبوں اور چھوٹی صنعتوں کو لاک ڈاؤن کی مدت پار کرنے کے لیے قرض دینے کی پالیسی کامیاب نہیں ہوگی، کیوں کہ لاک ڈاؤن کا اثر لمبے وقت تک رہتا ہے۔ وہ قرض ادا نہیں کرپائیں گے اور زیادہ گہرے بحران میں گریں گے۔ حکومت کو یہ پالیسی تو فوراً ترک کردینی چاہیے۔
نیشنل بیورو آف اکنامک ریسرچ کیمبرج کے مطابق 1918کی فلو وبا کا معاشی منفی اثر چار دہائی تک رہا۔ یوروپ کے سینٹر فار اکنامک پالیسی ریسرچ کے مطابق وبا کے ایک سال بعد کا معاشی اثر 15فیصد منفی ہوتا ہے اور پوری طرح سنبھالنے میں تین برس لگ جاتے ہیں۔ اس سے یہ بات واضح ہے کہ یہ مسئلہ ابھی لمبے عرصہ تک چلے گا۔ حکومت کو لاک ڈاؤن لگاتے وقت چھوٹی صنعتوں اور غریبوں کو راست مالی مدد دینی چاہیے۔ اس مدد کے لیے رقم کمانے کے لیے سرکاری کھپت میں کٹوتی کرنی چاہیے، قرض نہیں لینا چاہیے۔ آنے والے وقت میں بحران برقرار رہے گا اور حکومت کے لیے قرض کی ادائیگی کرپانا آسان نہیں ہوگا۔ معیشت کو واپس اپنی راہ پکڑنے میں کافی وقت لگ سکتا ہے۔
(بشکریہ: نوبھارت ٹائمس)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS