محمد حنیف خان
خواتین خود کفیل ہوں،آگے بڑھیں،ترقی کریں اور ملک کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کریں۔یہ خواب صرف ایک شخص کا نہیں ہے بلکہ ہر شخص چاہتا ہے کہ اس کی بہن، بیٹیاں آسمانوں پر کمند ڈالیں اور اس کو زیر کرلیں،لیکن کیا یہ صرف چاہنے سے ہوجاتا ہے؟اگر ایسا ہوتا تو آج بھی خواتین بچوں کو اپنی پشت پر باندھ کر تعمیراتی مقامات پر اینٹ نہ اٹھا رہی ہوتیں۔وزیراعظم نے الٰہ آباد میں خواتین خود کفالت سے متعلق پروگرام کیا اور ہزاروں خواتین نے اس میں شرکت کی،جس سے ملک و سماج میں یہ پیغام گیا کہ حکومت خواتین کے لیے بہت فکر مند ہے،اس کو فکر مند ہونا بھی چاہیے لیکن پروگرام کی تصاویر کے علاوہ بھی بہت سی تصویریں ہیں جو ہندوستانی خواتین کا سماج میں اصل مقام و مرتبہ واضح کرتی ہیں۔
ہندوستان میں خواتین کو اب بطور گھر کی سربراہ اہمیت حاصل ہے،خود حکومت نے ان کو یہ عہدہ یا ذمہ داری سونپی ہے۔راشن کارڈ ایک سرکاری دستاویز ہے جس میں کسی خاتون کا بطور سربراہ درج ہونا ضروری ہے،اس کا عملی نفاذ راشن کی تقسیم کے وقت دیکھنے کو ملتا ہے۔اسی طرح تعلیم سے لے کر دوسرے شعبوں میں خواتین کو آگے بڑھانے کی کوششوں کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹیلی ویژن اور اخبارات سے لے کر ہراشتہاری جگہ پر خواتین کو خود کفیل بنانے کے نعرے دکھائی دے جائیں گے۔لیکن ان نعروں اور ورچوئل دنیا سے الگ بھی کیا خواتین کی یہی زمینی حقیقت ہے؟یہ ایک بڑا اور اہم سوال ہے کیونکہ خواتین سے صرف کائنات میں رنگ ہی نہیں ہے بلکہ ترقی کی دوڑ میں وہ ایک اہم بازو کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اگر گھر اور باہر کی تقسیم کی جائے تو گھر کے مورچے پر عورت ہی نظر آئے گی جو اس کو سنبھالتی ہے۔دستاویزی سطح پر یہ تبدیلی تو بہت خوش آئند ہے لیکن زمینی حقیقت حد درجہ المناک ہے۔بلکہ اگر یوں کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ دستاویزی اور زمینی سطح میں زمین و آسمان کا بعد ہے۔
حکومت نے خواتین کی پرسکون زندگی کے لیے ’اجولا اسکیم ‘ شروع کی تھی جس کے تحت مفت گیس سلنڈر اور چولہے دیے گئے تھے۔اس اسکیم سے متعلق آج بھی بہت زور وشور سے نہ صرف گفتگو کی جاتی ہے بلکہ اس کو خواتین کے لیے اٹھایا گیا حکومت کا اہم قدم بتایا جاتا ہے لیکن اس اسکیم کا کیا حال ہوا شاید بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔یہ اسکیم خصوصاً دیہی علاقوں کے لیے وردان تصور کی جاتی ہے لیکن آج عالم یہ ہے کہ اس سلنڈر کو کاٹ کر اس کو لکڑی کا چولہا بنالیا گیا ہے۔جس کی وجہ گیس کی قیمت میں بے تحاشا اضافہ کے سوا کچھ نہیں۔اب تو یہ بات زبان زد خاص و عام ہے کہ ایسے سلنڈر کا کیا فائدہ جسے حکومت نے مفت دیا ہو لیکن اس میں بھری جانے والی گیس مہنگی کردی ہو۔ایک بہت پرانی کہاوت ہے کسی شخص نے اونٹ سے عاجز آکر اس کو ایک روپیہ میں فروخت کرنے کی قسم کھالی لیکن بعد میں اس کو افسوس ہواتو وہ ترکیبیں سوچنے لگا،یار دوستوں میں کوئی زیادہ عقلمند تھا اس نے ایک ترکیب بتائی کہ اونٹ کے گلے میں بلی باندھ دو اوراونٹ کی قیمت ایک روپے رکھ دو جبکہ بلی کی قیمت اس طرح رکھو جس سے تمہارا نقصان نہ ہو۔ شرط یہ لگا دو کہ بلی اور اونٹ ایک ساتھ ہی فروخت ہوں گے۔اس طرح قسم بھی پوری ہوجائے گی اور نقصان بھی نہیں ہوگا۔حکومت نے مفت گیس سلنڈر کی تقسیم کے بعد یہی کیا ہے۔
حکومت کے دعوؤں کی اگر زمینی کے بجائے دستاویزی ہی تصدیق کی جائے تب بھی اس کے غبارے کی ہوا نکل جاتی ہے۔اگر حکومت واقعی خواتین کے لیے سنجیدہ ہوتی تو وہ خواتین کو معاشی طور پر مضبوط کرتی لیکن اس نے یہ کام بھی صرف کاغذی اور اسٹیج کی سطح پر کیا ہے۔ اعداد و شمار اس کے دعوؤں کے برخلاف ہیں۔صرف ہندوستان ہی ایک ایسا ملک ہے جہاں پرمحنت /روزگار کے مواقع میں خواتین کا حجم کم ہو رہاہے۔2005میں جہاں یہ 25فیصد تھا، 2020 میں 16فیصد ہوگیا۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس طرح سے حکومت ان کی ترقی کے دعوے کررہی ہے۔کروڑوں مزدور خواتین دن بھر جب محنت کرتی ہیں تو ان کو 300روپے ملتے ہیں۔بیماری و آزاری کے دنوں میں ان کی زندگی کیسے کٹتی ہے کسی کو پتہ اور فکر نہیں۔
حکومت اگر صرف ان اسکولوں اور کالجوں کا سروے کرالے جہاں پرائیویٹ خواتین ٹیچرس ہیںتو اس کو اندازہ ہوجائے گا کہ پڑھی لکھی خواتین کس قدر پریشان ہیں،ان کی زندگی کتنی تاریک اورمستقبل کتنا سیاہ ہے،ان اسکولوں میں خواتین کو اول مردوں کے مقابلے بہت کم تنخواہ دی جاتی ہے۔دوم جنسی استحصال کے ساتھ ہی ان سے کام بھی زیادہ لیا جاتا ہے۔ کیا حکومت یہ تسلیم کرسکتی ہے کہ پرائیویٹ اسکولوں میں خواتین ٹیچروں کو دو سے پانچ ہزار روپے ماہانہ دیے جاتے ہے۔لیکن یہ سچ ہے کہ ان کو اس سے زیادہ محنتانہ نہیں ملتا ہے۔اگر اوسطاً تین ہزار روپے مان لیا جائے تو کیا حکومت کے مطابق اتنی رقم میں گھر چل سکتا ہے؟ کیونکہ حکومت نے ہی اس کو گھر کا سربراہ بنایا ہے، اس لیے کم از کم گھر چلانے کی ذمہ داری تو سربراہ کے سر ہوگی ہی؟یہ صرف ایک شعبے کی بات ہے،ہر شعبے میں پڑھی لکھی خواتین کی یہی حالت ہے۔ اس کے باوجود حکومت سرکاری اداروں کو پرائیویٹ ہاتھوں میں دینے کے لیے بے قرار ہے۔حکومت نے ’جن دھن یوجنا ‘ شروع کی تھی جس کے تحت خواتین کے کھاتے کھلوائے گئے تھے، حکومت نے اس وقت دعویٰ کیا تھا کہ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ اس کثیر مقدار میں خواتین کے پاس کھاتے ہیں لیکن اس نے اس کا مصرف نہ اس وقت بتایا تھا اور نہ آج بتا سکی ہے کہ خواتین کی آمدنی کہاں سے ہورہی ہے؟حکومت نے اس کے لیے کس طرح کے ذرائع پیدا کیے ہیں؟ان چند خواتین کو چھوڑ دیجیے جنہیں سرکار میڈیا کے سامنے پیش کردیتی ہے۔یہ اسکیم اگر پورے ملک کی خواتین کے لیے تھی تو اس کے فائدہ کے اعداد و شمار بھی اسی وسیع تناظر میں ہونے چاہیے مگر یہاں بھی صفر ہی نظر آتا ہے۔
اسکولنگ ایک ایسا شعبہ ہے جس میں خواتین کی کثرت ہے،اگر حکومت اس شعبے کے ساتھ ہی دیگر شعبوں میں کم از کم شرح تنخواہ نافذ کردے تو ان خواتین کا استحصال کم ہوجائے لیکن چونکہ اس محاذ پر حکومت کام نہیں کرنا چاہتی ہے اور اس کے پاس روزگار ہے نہیں اور اگر ہے بھی تو وہ دینا نہیں چاہتی ہے جس کی وجہ سے خواتین کو درد ر بھٹکنا پڑتا ہے، اس کا فائدہ پرائیویٹ ادارے اٹھاتے ہیں اور ان کا استحصال کرتے ہیں۔
حکومت شہری علاقوں کے ساتھ ہی دیہی علاقوں کی خواتین کے لیے بھی بہت سی اسکیموں کے دعوے کرتی ہے۔ وزیر اعظم نے الٰہ آباد کی اپنی تقریر میں اسکیموں کے ساتھ ہی ان کے تحفظ اور تھانوں میں طریق کار پر گفتگو کی لیکن شاید ان کو نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو کے اعداد و شمار مہیا نہیں کرائے گئے تھے۔خواتین کی زبان پر نہ کل تالے لگے تھے اور نہ آج تالے لگے ہیں،لیکن خواتین کل بھی استحصال کا شکار تھیں اور آج بھی ہیں،حکومت میں تبدیلی سے ان کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے، اس کا ثبوت نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو کے اعداد و شمار ہیں۔اگر واقعی حکومت ان خواتین کے لیے سنجیدہ ہے تو اس کو دکھاوا اور تشہیر کے بجائے خواتین کے لیے ٹھوس اقدام کرنا چاہیے۔اولاً ہر شعبہ میں پرائیویٹ زمرے میں خواتین کے لیے کم از کم شرح تنخواہ کا حکومت تعین کرے تاکہ خواتین کی بے روزگاری کا کوئی ناجائز فائدہ نہ اٹھاسکے۔دوم دیہی خواتین کے لیے صرف کاغذی اسکیم کے بجائے زمینی سطح پر اسکیمیں شروع کرکے خواتین کو خود کفیل بنایا جائے تبھی خواتین اور ملک کا بھلا ہوسکتا ہے۔
[email protected]