عبدالماجد نظامی
میڈیا یا صحافت کو جمہوریت کا چوتھا ستون مانا جاتا ہے کیونکہ اس پیشہ نے اپنے سر یہ ذمہ داری لی ہے کہ عوام جن کے بغیر جمہوریت کا کوئی مفہوم باقی نہیں رہے گا، اس کو ہمیشہ باخبر رکھے تاکہ اس کے مفادات کے ساتھ کسی قسم کا کھلواڑ نہ ہوپائے۔ یہ صحافت ہی ہے جو عوام کے تمام طبقات کو بتاتی ہے کہ اقتدار کے گلیاروں میں کیا چل رہا ہے اور کن مراحل میں ان کے جائز حقوق کو ارباب اقتدار ہضم کرنے کی تیاری میں لگ جاتے ہیں۔ ایک صحتمند جمہوریت کے لیے ضروری ہے کہ وہاں کے لوگ ہر وقت اپنے ذریعہ منتخب کردہ قائدین پر نظر رکھیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ جو دستوری ذمہ داریاں انہیں سونپی گئی ہیں، ان کی ادائیگی پوری ذمہ داری کے ساتھ ہو رہی ہے یا نہیں۔ صحافیوں کی انہی کوششوں اور مختلف ذرائع سے معلومات یکجا کرکے ان پر ماہرانہ تجزیہ پیش کرنے کی وجہ سے انہیں تمام کامیاب جمہوری معاشروں میں عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ان کو تحفظ و ترقی کے تمام مواقع فراہم کیے جائیں اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے تاکہ وہ بے خوف ہوکر اپنا کام کر سکیں۔ اگر ہم امریکی جمہوریت کو پیش نظر رکھیں تو معلوم ہوگا کہ لبرل جمہوریت کے اس عظیم عالمی مرکز میں صحافت کو ہمیشہ اس قدر اہمیت حاصل رہی ہے کہ کبھی بھی اس کے اعلیٰ اصولوں سے سمجھوتہ نہیں کیا گیا۔ معروف امریکی صحافی Bob Woodward نے، صحافت کی اہمیت اور اس کی آزادی کا جو اہم کردار جمہوریت کو باقی رکھنے میں رہا ہے، اس پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا تھا کہ اگر صحافت نہ رہے تو جمہوریت ظلمات میں ڈوب کر ختم ہوجائے گی۔ یہ نعرہ اس قدر مشہور ہوا اور اپنے اختصار کے باوجود اپنی معنویت میں ایسی وسعت رکھتا ہے کہ معروف امریکی اخبار ’’دی واشنگٹن پوسٹ‘‘ نے اپنے صحافتی سفر کے140برس مکمل کرنے کے موقع پر2017میں اس نعرہ کو اس اخبار کے نشانِ امتیاز کے طور پر اختیار کیا۔ ایسا اس لیے کیا گیا کیونکہ سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے امریکہ میں جمہوریت کی جڑوں کو کھودنا شروع کر دیا تھا اور اس بات کا خطرہ تھا کہ کہیں امریکہ میں جمہوریت کا خاتمہ ہمیشہ کے لیے نہ ہوجائے۔ لیکن یہ ان بے باک صحافیوں کا ہی قابل تعریف کام تھا جن کی بدولت امریکی عوام کو یہ معلوم ہوتا رہا کہ جمہوریت کو کتنے شدید خطرات درپیش ہیں۔ لہٰذا عوام نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرکے2020میں انہیں اقتدار سے باہر کر دیا اور جمہوریت کو بچانے کا عظیم سہرا امریکی عوام کے سر باندھا گیا جو بے باک صحافت کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ ہمارے ملک میں صحافت کی جو حالت ہوگئی ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ صحافیوں کی ایک بڑی جماعت ایسی پیدا ہوگئی ہے جو اپنی ذمہ داریاں مکمل طور پر بھول گئی ہے اور وہ عوام کے حقوق اور ان کے مفادات کے تحفظ کے بجائے ارباب اقتدار کے قدموں میں گر گئی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ سماج و معاشرہ میں طرح طرح کے بحران پیدا ہوگئے ہیں۔ ہم دنیا میں اگرچہ سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر جانے جاتے ہیں لیکن جب دنیا میں صحافت کی درجہ بندی ہوتی ہے تو180ملکوں کی فہرست میں ہم 161ویں پائیدان پر کھڑے نظر آتے ہیں۔ ہماری رینک 2022 میں 150تھی اور ایک برس کے اندر گیارہ درجہ نیچے آگئی ہے۔ اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے ملک میں جمہوریت کی صحت کتنی خراب ہے۔ ایسے بُرے حالات کو مزید ابتر بنانے کے لیے موجودہ سرکار نے یہ قدم اٹھا لیا کہ ’نیوز کلک‘ اور اس سے وابستہ صحافیوں کو نہ صرف پولیس سے پوچھ تاچھ کروائی بلکہ خود ’نیوز کلک‘ کے دفتر کو بند کر دیا۔ اس سے ظاہر ہے کہ خوف کا ماحول پیدا ہوگا اور صحافی اپنی بات آزادی سے نہیں کہہ پائیں گے۔ خاص طور سے ایسی حالت میں جبکہ ان پر یو اے پی اے جیسی دفعات لگا دی جائیں۔ ہندوستان کی حکومت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ جب تک میڈیا آزاد نہیں ہوگا تب تک ملک کا بھلا نہیں ہوسکتا۔ اس ملک کے عوام کو بھی اس حقیقت سے باخبر ہونے کی ضرورت ہے کہ آج جو حملے صحافیوں پر ہو رہے ہیں، ان کا اصل نشانہ وہ خود ہیں۔ کیونکہ نشانہ صرف انہی صحافیوں کو بنایا جاتا ہے جو عوام کے حق میں بولتے ہیں اور ان کے مفادات کے تحفظ کے لیے محنت کرتے ہیں۔ جو صحافی اپنے پیشہ کی پاکیزگی کو پاؤں تلے روند کر ارباب اقتدار کے چشم و ابرو کے اشارے پر کام کر رہے ہیں وہ تو آج بھی داد عیش دے رہے ہیں۔ چونکہ ہمارا ملک ایک جمہوری ملک ہے جس میں عوام کی اہمیت سب سے زیادہ ہوتی ہے، اس لیے یہ اپیل بھی عوام سے ہی کی جائے گی کہ وہ ایسے صحافیوں کے تحفظ کے لیے آگے آئیں جو ان کے مفادات اور حقوق کی حفاظت کی خاطر اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر کام کرتے ہیں۔ اس ملک میں کسان آندولن اور دیگر عوامی تحریکوں سے ثابت کیا جا چکا ہے کہ عوام اگر باخبر ہوجائیں اور وہ اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے سڑکوں پر اتر آئیں تو پھر حکومتوں کو بھی اپنی غلطیاں ماننی پڑتی ہیں اور معافی نامہ پیش کرنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔ آج اس ملک میں صحافت و میڈیا کی آزادی کے لیے بھی عوام کی مدد درکار ہے تاکہ جمہوریت کو ڈوبنے سے بچایا جاسکے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]