کاش کہ وزیر اعظم اپنے ’سنکلپ‘ پر قائم رہ سکیں: عبدالماجد نظامی

0

عبدالماجد نظامی

ابھی زیادہ دن نہیں گزرے ہیں کہ وزیراعظم نریندر مودی نے کانگریس کو بہانہ بناکر اس ملک کی سب سے بڑی اقلیت یعنی مسلمانوں کے خلاف نہایت غیرمہذب اور غیر دستوری زبان کا استعمال کیا تھا۔ یہ واقعہ گزشتہ مہینہ 21اپریل کو راجستھان کے شہر بانسواڑہ میں پیش آیا تھا۔ وزیراعظم وہاں اپنی پارٹی کے امیدوار کے لیے عوام سے ووٹ مانگ رہے تھے۔ وزیراعظم کی ایسی باتوں سے نہ صرف پورا ملک انگشت بدنداں تھا بلکہ عالمی میڈیا نے بھی اس پر اپنا تیکھا ردعمل ظاہر کیا تھا۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے کہ نریندر مودی کوئی سنت یا صوفی ہیں جن کے منہ سے پھول جھڑتے ہوں۔ ہندوستانی سیاست اور بطور خاص بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کے نظریاتی رہنما، آر ایس ایس کی تاریخ سے جو لوگ واقف ہیں، انہیں کوئی تعجب بھی نہیں ہوا کہ نریندر مودی نے ایسی باتیں کہیں اور ملک میں انتشار کی فضا کو گرمانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ ماضی میں بھی نریندر مودی مختلف موقعوں پر مسلم مخالف بول چکے ہیں بلکہ عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ وکاس یا وشو گرو بننے بنانے کا نعرہ تو محض ایک پردہ ہے، پس پردہ تو نریندر مودی ایسے ہی بیانات کے لیے جانے جاتے ہیں کیونکہ ان میں مسلم مخالف باتیں کہنے اور اس اقلیت کے خلاف خوف کا ماحول قائم کرنے کا ایک خاص انداز پایا جاتا ہے جو کسی دوسرے بی جے پی لیڈر میں مفقود ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ نریندر مودی نے اقلیت مخالف زبان و انداز میں اپنے سیاسی گرو لال کرشن اڈوانی کو کئی قدم پیچھے چھوڑ دیا ہے تو اس میں ذرا بھی غلط بیانی نہیں ہوگی۔ بس فرق یہ ہے کہ لال کرشن اڈوانی کے ساتھ توازن برقرار رکھنے کے لیے اٹل بہاری واجپئی ہوا کرتے تھے جنہیں تلخ باتوں کو بھی قابل سماعت بناکر پیش کرنے کا ملکہ حاصل تھا اور تقریباً تمام سیاسی حلقوں میں ان کو یکساں رسائی حاصل تھی۔ انہوں نے اپنی اس صلاحیت کا اپنی سیاسی زندگی میں بھرپور استعمال کیا تھا اور بھارتیہ جنتا پارٹی کو سیاسی حلقوں میں اچھوت بننے سے نہ صرف روکا تھا بلکہ بیسویں صدی کے آخری برسوں میں کامیابی کے ساتھ این ڈی اے کے نام کا اتحاد قائم کیا اور اس ملک پر بھارتیہ جنتا پارٹی کے ذریعہ حکومت کیے جانے کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کیا تھا۔

لیکن اب نہ تو دورۂ پاکستان سے واپسی کے بعد والے لال کرشن اڈوانی کی بدلی ہوئی سیاست کا عنصر بھارتیہ جنتا پارٹی میں پایا جاتا ہے اور نہ ہی واجپئی کی شیریں زبانی کی ضرورت اس کو محسوس ہوتی ہے۔ اب بھارتیہ جنتا پارٹی کی سیاست کا پورا زاویہ ہی بدل چکا ہے۔ آج کی بی جے پی اس بات میں یقین رکھتی ہے کہ حاشیہ پر ڈالی جا چکی مسلم اقلیت کے خلاف ہر روز محاذ کھولے رکھے اور اس اقلیت پر ایک دن بھی ایسا نہ گزرنے دے جس میں وہ خود کو اس ملک کا ایسا شہری تصور کر سکے جس کو دستور ہند نے برابر کا حق عطا کیا ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ مسلم اقلیت کے خلاف اس حملہ میں وزیراعظم نریندر مودی پیش پیش ہوتے ہیں۔ حالانکہ ملک کے دستور نے ان پر یہ ذمہ داری عائد کی ہے کہ وہ بلا تفریق مذہب و ملت اس ملک کے تمام شہریوں کو تحفظ فراہم کرائیں اور ان کے جملہ حقوق کو پامال ہونے سے بچائیں۔

اس بار بھی نریندر مودی نے عام انتخابات کے لیے منعقد کیے جانے والے جلسوں میں کئی جگہوں پر بالواسطہ یا بلا واسطہ مسلمانوں پر نشانہ لگایا اور غیر مہذب انداز میں ان کے طرز معاش اور ان کی تہذیب کو برا بھلا کہا۔ ابھی پورا ملک اسی ڈھنگ سے نریندر مودی کو دیکھ رہا تھا کہ اچانک انہوں نے ’نیوز18‘ کو دیے گئے اپنے حالیہ انٹرویو میں ایسی بات کہہ دی جس کی کسی کو توقع نہیں تھی۔ انہوں نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ ’’میں جس دن ہندو-مسلمان کروں گا نا، اس دن میں عوامی زندگی میں رہنے لائق نہیں رہوں گا۔ اور میں ہندو-مسلمان نہیں کروں گا یہ میرا سنکلپ ہے۔‘‘ اپنے انٹرویو کے اس ٹکڑے کو وزیراعظم نے خاص طور سے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر بھی شیئر کیا۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ یہ اس دن کیا گیا جس دن وزیراعظم وارانسی کے اپنے حلقۂ انتخاب سے تیسری بار فتح حاصل کرنے کے ارادہ سے اپنا پرچۂ نامزدگی داخل کرنے کے لیے پہنچے ہوئے تھے۔ وزیراعظم کے اس جملہ کا کیا مطلب نکالا جائے؟ کیا یہ سمجھا جائے کہ شب و روز ہندو-

مسلم کرنے والے وزیر اعظم کے دل میں ایک کونہ ایسا ابھی باقی ہے جس میں کبھی کبھی اخوت و انسانیت کی جوت جل اٹھتی ہیں اور وہاں سے ان کا ضمیر انہیں صحیح رہنمائی کرتا ہے اور دستوری ذمہ داریوں کے تئیں ان کے تار احساسات کو چھیڑ دیتا ہے؟ یا پھر ان کے مشیروں نے انہیں یہ بتایا ہے کہ ایسے افکار و نظریات کو عوام اور دنیا کے سامنے بکھیرنے کے بجائے ان پر خاموشی سے عمل کے لیے انہیں رکھا جائے اور اسی وجہ سے انہوں نے اس بات کو کہنا ضروری سمجھا تاکہ کم سے کم جب ان کی ملاقات دنیا کے لیڈروں سے ہو تو یہ بھرم قائم رہے کہ وہ صرف ایک ہندوتو نظریہ کے حامل لیڈر ہی نہیں بلکہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے بھی لیڈر ہیں جن کے ساتھ ایک سو چالیس کروڑ ہندوستانیوں کی آبرو وابستہ ہے؟ معاملہ جو بھی ہو، البتہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اگر نریندر مودی واقعی اپنی سیاسی زندگی کے آخری پڑاؤ میں یہ ’’سنکلپ‘‘ لے رہے ہیں کہ وہ ہندو- مسلم نہیں کریں گے تو ایسا کہنا ان کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت سنبھالنے والوں کے لیے ایک واضح پیغام ہوگا کہ فرقہ واریت اور تقسیم پسندی کی سیاست سے اس ملک کا بھلا نہیں ہو سکتا اور سب کے لیے یہی بہتر ہوگا کہ نفرت کی سیاست کو چھوڑ کر ایک ایسے متحد ہندوستان کے لیے کوشش کی جائے جہاں سب کے لیے ترقی، امن و سلامتی اور خوش حالی کے یکساں مواقع موجود ہوں۔ حالانکہ اس قسم کی امید آر ایس ایس اور بی جے پی سے رکھنا کسی معصوم کی نادان تمنا سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی، اس کے باوجود بھی اس ملک کا مسلمان یہی چاہے گا کہ نفرت کے خاتمہ کا آغاز نریندر مودی کے اسی سنکلپ سے کیا جانا چاہیے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS