ڈاکٹر چندرکانت لہاریا
نیویارک میں جنوری میں سب سے زیادہ ٹھنڈ ہوتی ہے۔ کچھ برس قبل میں جنوری کے مہینہ میں ہی نیویارک میں تھا۔ اپنے ہوٹل سے ایئرپورٹ کے لیے نکلا تو صبح کے تقریباً ساڑھے دس بج رہے تھے۔ باہر کا درجہ حرارت صفر سے 7ڈگری نیچے تھا۔ صفر سے نیچے درجہ حرارت کا مطلب برف گرنا ضروری نہیں ہوتا۔ ایئرپورٹ تک آسمان پوری طرح صاف اور نیلا نظر آرہا تھا۔ سورج اپنی جگہ پر تھا۔ بالکل ویسا ہی جیسا کہ ہندوستان کے کسی بھی دوردراز کے گاؤں میں ویشاکھ یا جیشٹھ کے مہینہ میں ہوتا ہے۔ ہاں، صرف تب معلوم ہوا، جب کار سے باہر نکلا۔ چہرے اور ہاتھوں کو احساس ہوگیا کہ ہڈیاں کپکپادینے والی سردی ہے۔ اگلے دن جب میری فلائٹ دہلی اُتری تو اتفاق سے یہاں بھی صبح کے ساڑھے 10بج رہے تھے۔ باہر درجہ حرارت صفر سے 6ڈگری اوپر تھا۔ لیکن آسمان دھندلا اور اسماگ سے بھرا تھا، سورج کا دور تک کوئی نام و نشان نہیں جیسے لمبی تعطیل پر گیا ہو۔ ایئرپورٹ سے گھر کے راستہ میں کاروں کو دن میں بھی ہیڈلائٹ جلانے کی ضرورت تھی۔ اگر کار کا شیشہ کھول دو تو ناک اور گلے میں جلن ہونے لگے گی۔
شمالی ہندوستان کے کئی شہروں میں سردیوں میں آلودگی میں اضافہ ہوجانا ایک ایسی حقیقت ہے، جس سے تقریباً ہر شخص، بالخصوص سانس کی بیماری میں مبتلا مریض مکمل طور پر واقف ہیں۔ آلودگی کی سطح میں اضافہ کی شروعات اکتوبر کے وسط سے ہوتی ہے اور تقریباً آدھی فروری تک یہی حالت رہتی ہے۔ ہندوستان کے کئی شہروں میں اچھی ہوا کے معیار کے دن تو سال میں گنے چنے ہی ہوتے ہیں، لیکن باقی دن سردیوں کی آلودگی کی نسبتاً بہتر ہوتے ہیں۔فضائی آلودگی پوری دنیا میں ایک سنگین چیلنج ہے، جس سے ہر سال اندازاً 70لاکھ بے وقت اموات ہوتی ہیں۔ ہر پانچ میں سے چار اموات، کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں ہوتی ہیں۔ دنیا کے 40سب سے آلودہ شہروں میں 37جنوب ایشیائی ممالک میں ہیں۔ 2019کی ایک رپورٹ میں پایا گیا کہ دنیا کے 30سب سے آلودہ شہروں میں سے 21ہندوستان میں ہیں۔ خراب ہوا کے معیار سے صرف سانس کی بیماریاں ہی نہیں بلکہ امراض قلب، ذیابیطس اور اسٹروک جیسی دقتیں بھی ہوسکتی ہیں۔ ہمارے ملک میں ہر سال تقریباً 17لاکھ اموات، آلودگی اور اس سے متعلق اسباب سے ہوتی ہیں۔ گزشتہ کچھ برسوں سے فضائی آلودگی کو روکنے پر توجہ دینی شروع ہوئی ہے۔ 2019میں مرکزی حکومت نے نیشنل کلین ایئر پروگرام شروع کیا۔ کئی ریاستی حکومتو ںنے بھی چھوٹے موٹے اقدامات کیے۔ لیکن اقتصادی الائمنٹ اور قدم دونوں ہی ناکافی رہے ہیں۔
ہوا کے معیار کا ہر شخص کی صحت اور زندگی سے گہرا اور راست تعلق ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ حکومتیں اور لوگ مل کر قدم اٹھائیں۔ خاص طور سے جیواشم ایندھن (fossil fuel) کے استعمال کو کم کرنا ہوگا۔ نئی پالیسیاں لانی ہوں گی جن سے الیکٹرک وہیکل اور آلودگی نہ پھیلانے والے ایندھن کے استعمال میں اضافہ ہو۔ دیہی علاقوں میں آرگینک ویسٹ کو کھاد میں بدلنے کے نئے طریقوں (Methods) کے استعمال کو تقویت ملے۔
صحت کے نقطہ نظر سے سب سے زیادہ نقصان غریب کنبوں کا ہوتا ہے، جہاں کھانا بنانے کے لیے لکڑی اور کوئلے و دیگر حیاتیاتی ایندھن کا استعمال ہوتا ہے۔ رسوئی میں دھویں سے خواتین کی صحت کو زیادہ نقصان ہوتا ہے۔ ایسے میں ’اجولا‘ جیسی اسکیمیں اہم ہوجاتی ہیں، لیکن حکومتوں کو یقینی بنانا ہوگا کہ ان مستحق کنبوں کو رسوئی گیس مستقل طور پر ملے۔ جب تک کوئی مسئلہ خوفناک شکل اختیار نہیں کرلیتا یا پھر ذاتی طور پر متاثر نہیں کرتا، ہم اسے نظرانداز کرتے رہتے ہیں۔ فضائی آلودگی کے معاملہ میں ایسا کرنا ہمارے لیے اور آنے والی نسل کے لیے مہنگا ثابت ہوگا۔ ہمیں اور فیملی کے ہر ممبر کو ایسے ہر قدم سے دور رہنا ہوگا، جو ماحول کو آلودہ کرے۔ آئیے اس دیوالی مل کر غور کریں کہ خالص ہوا اور ماحول کے لیے ہم مل کر کیا قدم اٹھا سکتے ہیں۔ قارئین کو محفوظ،سبز اور خوشیوں بھری دیوالی کی مبارکباد۔
(مضمون نگار پبلک پالیسی اینڈ
ہیلتھ سسٹم کے ماہر ہیں)
(بشکریہ: دینک بھاسکر)