یہ حربہ کام آئے گا؟

0

صبیح احمد

ہمارے ملک کے جمہوری نظام کے 3 اہم ستون ہیں: مقننہ (لیجسلیچر)، منتظمہ (ایگزیکٹو) اور عدلیہ (جوڈیشری)۔ اور یہ تینوں آئینی ادارے ہیں۔ آئین میں ان کے دائرۂ کار اور اختیارات واضح کر دیے گئے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی کسی دوسرے کے دائرۂ اختیار میں مداخلت نہیں کر سکتا۔ آئین میں وضع کردہ اصول و ضوابط کے تحت یہ اپنی اپنی ذمہ داریوں کو پوری کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کے دائرۂ کار میں مداخلت اور ٹکرائو کی صورتحال سے بچنے کے لیے ’چیک اینڈ بیلنس‘ کا اصول موجود ہے۔ تینوں ادارے آئین کی روشنی میں ہی اپنے فرائض کو انجام دیتے ہیں۔ مقننہ جہاں قانون سازی کی ذمہ داری نبھاتی ہے، وہیں منتظمہ ان قوانین کو عملی جامہ پہنانے کے فرائض ادا کرتی ہے۔ عدلیہ عمومی طور پر قانون کی روشنی میں معاملات اور مقدمات کو نمٹانے کا کام کرتی ہے، لیکن عدلیہ کی اہم ذمہ داری آئین کے تحفظ کی ہے۔ دراصل عدلیہ آئین کی محافظ کا کردار ادا کرتی ہے۔ اسے یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ مقننہ جو قانون بناتی ہے یا منتظمہ جو بھی اقدامات کرتی ہے، وہ آئین کے عین مطابق ہے یا نہیں۔ عدلیہ درحقیقت آئین کی تشریح کرتی ہے۔ وہ یہ طے کرتی ہے کہ جو بھی قانون بنائے جاتے ہیں، وہ آئین کی روشنی میں کھرے اترتے ہیں یا نہیں۔
ابھی حال ہی میں نائب صدر جمہوریہ اور راجیہ سبھا چیئر مین جگدیپ دھن کھڑ نے تمل ناڈو سرکاربنام گورنر تنازع میں ریاستی اسمبلی میں منظور کردہ بلوں پر گورنر اور صدرجمہوریہ کے فیصلے لینے کے لیے وقت مقرر کیے جانے پر سپریم کورٹ کے حوالے سے سخت تبصرے کیے ہیں۔ سپریم کورٹ کی جانب سے بلوں کو منظور کرنے کی آخری تاریخ مقرر کرنے کے بعد دھن کھڑ کا بیان سامنے آیا ہے۔ ملک کی عدلیہ کے خلاف سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم ایسی صورتحال پیدا نہیں کر سکتے جہاں عدالتیں صدر کو ہدایات دیں۔ انہوں نے آئین کے آرٹیکل 142 کے تحت عدالت کو دیے گئے خصوصی اختیارات کو جمہوری قوتوں کے خلاف ’ایٹمی میزائل‘ قرار دیا۔ سپریم کورٹ نے تمل ناڈو میں گورنر کی طرف سے بلوں کو طویل عرصہ سے التوا میں رکھنے کے معاملے میں یہ تاریخی فیصلہ سنایا ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ اگر گورنر بل کو روکتے ہیں یا اسے صدر جمہوریہ کے پاس بھیجتے ہیں تو گورنر کو اس پر ایک ماہ کے اندر کارروائی کرنی ہوگی۔ اگر گورنر ریاستی کابینہ کے مشورے کے برعکس بل کو منظوری نہیں دیتے ہیں یا بل کو غور کے لیے صدر جمہوریہ کے پاس بھیجتے ہیں تو صدر جمہوریہ کے پاس بھی اس پر فیصلہ لینے کے لیے 3 ماہ کا وقت ہوگا۔ اگر ریاستی اسمبلی کسی بل کو پھر سے پاس کردیتی ہے اور اسے گورنر کے پاس دوبارہ منظوری کے لیے بھیجا جاتا ہے تو گورنر کو ایک ماہ کے اندر منظوری دینی ہوگی۔
نائب صدر جمہوریہ دھن کھڑ کے سر میں سر ملاتے ہوئے برسراقتدار پارٹی کے لیڈروں نے بھی ان سے بھی کئی قدم آگے بڑھاتے ہوئے عدالت عظمیٰ اور یہاں تک کہ چیف جسٹس آف انڈیا پر لفظی تیروں کی بارش کر دی۔ ایسا کرتے وقت انہوں نے شاید آئینی اصول و ضوابط اور اس اہم ترین آئینی ادارہ کے وقار اور مقام کا ذرا سا بھی خیال نہیں رکھا۔ حالانکہ مذکورہ بالا معاملے میں سپریم کورٹ نے صرف آئین کی تشریح کی ہے کہ اس صورتحال میں گورنر اور صدر جمہوریہ کو کیا کرنا چاہیے۔ آئین ہند میں جن آئینی عہدوں کا ذکر ہے، ان میں پہلا نام صدر جمہوریہ کا ہے۔ صدر جمہوریہ ہندوستانی مسلح افواج کے تینوں ونگوں کے سپریم کمانڈر اور منتخب مرکزی حکومت کے سربراہ ہونے کے باوجود ملک کے پہلے شہری بھی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سپریم کورٹ اس آئین کی محافظ ہے جسے ہم ہندوستان کے شہریوں نے اپنے کو، اپنے ذریعہ اور اپنے لیے وقف کیا ہے اور اپنایا ہے اور صدر جمہوریہ خود پہلے شہری ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ یہ چیف جسٹس آف انڈیا ہی ہیں جو صدر جمہوریہ کو عہدے اور رازداری کا حلف دلاتے ہیں۔ دیگر لوگوں سے امید رکھنا فضول ہے، کیا نائب صدر جمہوریہ خود آئینی ماہر ہونے کے باوجود آئین کی اس بنیادی حقیقت کو نہیں جانتے یا وہ جان بوجھ کر اس اہم حقیقت کو نظرانداز کر رہے ہیں؟ جگدیپ دھن کھڑ آئین کے ماہر وکیل ہونے کے ناطے دہائیوں سے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں آئین کی تشریح کرتے رہے ہیں۔ نائب صدر جمہوریہ اس سے قبل بھی گورنر جیسے آئینی عہدوں اور مرکزی وزیر جیسے قانون سازی کے عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔ نائب صدر جمہوریہ نے سپریم کورٹ کے اس تاریخی فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے یہ ردعمل ظاہر کیا ہے جس سے ملک میں منتخب ریاستی حکومتوں کے جمہوری حقوق بحال ہوئے ہیں۔
سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ گورنر اور صدر جمہوریہ کے لیے ان بلوں کی منظوری کے حوالے سے وقت کی حد مقرر کرتے ہوئے دیا ہے جو ریاستی اسمبلیوں سے اکثریت کے ساتھ منظور کیے گئے ہیں اور جو غیر ضروری طور پر زیر التوا ہیں۔ اس فیصلے کی وجہ تمل ناڈو کی ایم کے اسٹالن حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر کی گئی ایک عرضی ہے۔ درخواست میں ریاستی حکومت نے گورنر آر این روی کی طرف سے تمل ناڈو کی منتخب قانون ساز اسمبلی سے منظور کردہ بلوں کو منظوری دینے میں غیر ضروری تاخیر کے مسئلے کا حل طلب کیا تھا۔ اس تاریخی فیصلے میں سپریم کورٹ نے گورنر کو پابند کر دیا ہے کہ اسمبلی سے دوبارہ اکثریت سے منظور ہونے والے بل کو یا تو ایک ماہ کے اندر حتمی فیصلے کے لیے صدر جمہوریہ کے پاس بھیجنا ہو گا ورنہ خود منظوری دے کر ریاستی حکومت کو واپس بھیجنا ہو گا۔ اسی طرح جسٹس کھنہ کی بنچ نے صدر جمہوریہ کو بھی پابند کیا کہ حتمی فیصلہ کے لیے گورنر سے موصول ہونے والے بل پر انہیں 3 ماہ کے اندر اپنی رائے ظاہر کر دینی ہوگی۔ ظاہر ہے کہ مذکورہ مدت ختم ہونے پر زیر غور بلوں کو خود بخود منظور تسلیم کر کے انہیں ریاستی سرکار خود نوٹیفائی کر سکے گی۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے اقتدار کے ایوانوں میں کھلبلی فطری ہے، کیونکہ نہ صرف تمل ناڈو بلکہ کیرالہ اور مغربی بنگال کے گورنروں نے بھی منتخبہ اسمبلیوں سے اکثریت کے ساتھ منظور کردہ بلوں پر فیصلہ لینے میں اسی طرح ٹال مٹول کی تھی۔
صدر جمہوریہ کو پابند کرنے کے حوالے سے سپریم کورٹ کے دائرۂ اختیار کو چیلنج کرنے سے متعلق اپنے بیان میں نائب صدر نے پارلیمنٹ یعنی قانون ساز ایوانوں کو ہمارے آئینی نظام میں سپریم قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق اس کی بنیاد قانون ساز ایوانوں کے ارکان کا راست طور پر انتخاب ہے۔ تو پھر کیا سپریم کورٹ نے منتخب قانون ساز ایوانوں کے ذریعہ اکثریت سے منظور کردہ بلوں کی منظوری کے لیے گورنروں اور صدر جمہوریہ کے لیے وقت کی حد مقرر کرکے قانون ساز اسمبلیوں کی خود مختاری اور بالادستی کو بحال نہیں کیا؟ سپریم کورٹ کے فیصلے سے کیا عوامی نمائندوں کو منتخب کر کے قانون ساز اسمبلی بھیجنے والے ان ووٹروں یعنی شہریوں کو وہ بل نافد ہونے سے اس کا حق واپس نہیں مل رہا ہے جس پر گورنر کنڈلی مارے بیٹھے تھے؟ آخر کار صدر جمہوریہ اور گورنر بھی تو ووٹر اور ملک کے شہری ہی ہیں۔ انہوں نے بھی تو منتخب اسمبلی اور لوک سبھا کی تشکیل کے لیے ووٹ دیا ہے۔ پھر نائب صدر جمہوریہ کے دلائل میں اس بنیادی حقیقت کو کیوں نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ نائب صدر جمہوریہ نے بھی تو اسمبلی اور لوک سبھا انتخابات میں ووٹ دیا ہے! یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ تمام تر متاثر کن اختیارات کے باوجود ہمارے صدر جمہوریہ کا عہدہ ایک ’آئینی سربراہ مملکت‘ کے طور پر تصور کیا جاتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 53 میں یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ یونین آف انڈیا کے انتظامی اختیارات کا استعمال صدر جمہوریہ کو ’آئین کے مطابق‘ کرنا ہے اور مسلح افواج کے سپریم کمانڈر کی حیثیت سے صدر جمہوریہ کے اختیارات کا استعمال ’قانون کے مطابق‘ ہونا ہے۔ سپریم کورٹ نے مختلف فیصلوں کے ذریعہ یہ واضح کر دیاہے کہ صدر جمہوریہ ایک آئینی سربراہ ہیں جنہیں وزرا کی کونسل کے مشورے پر لازمی طور پر عمل کرنا چاہیے اور ہمارے نظام میں حقیقی انتظامی اختیار وزرا کی کونسل کے پاس ہے۔
بہرحال حکمراں طبقہ کے قائدین کی جانب سے اس طرح کے بیانات سے عدلیہ پر لوگوں کا اعتماد ختم ہوسکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ آئین کی حدود میں رہ کر ہی لیا ہے۔ یہ فیصلہ عدلیہ کے ذریعہ حدود سے تجاوز کرنے کی مثال نہیں ہے۔ عدالت نے نہ تو صدر جمہوریہ کو اور نہ ہی گورنر کو کوئی حکم دیا ہے بلکہ صرف اتنا کہا ہے کہ اگر 3 مہینے سے زیادہ تاخیر ہوتی ہے تو اس میں ان کی منظوری مانی جائے گی۔ اگر حکومت کو عدالت کی طرف سے مقرر کردہ وقت سے اتفاق نہیں ہے تو اس کے پاس قانون بنانے اور موجودہ دفعات میں ترمیم کرنے کا حق ہے۔ مقررہ وقت کے حوالے سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اس کا صحیح طریقہ عوامی طور پر تنقید نہیں بلکہ قانون میں ترمیم ہے۔ عدلیہ جیسے آئینی ادارہ پر عوامی سطح پر اس طرح کے تلخ و تند تبصرے و تنقید کہیں کسی حربے کا حصہ تو نہیں ہیں، کیونکہ آج کل کئی اہم معاملے سپریم کورٹ کے زیر غور ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS