پچھلے ایک سال کے مشاہدات و تجربات کی روشنی میں اگر کوئی حکومت چاہتی تو یہ سمجھ سکتی تھی کہ کورونا وائرس کوئی عام وائرس نہیں۔ اس کے معاملے میں کسی طرح کی خوش فہمی میں مبتلا ہونا ٹھیک نہیں ہے مگر سال رواں میں پیدا ہوئے حالات کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ملک کے بیشتر لیڈروں کے لیے سب سے اہم چیز ان کی امیج ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ محنت کم سے کم کریں، لوگوں کی فلاح و بہبود کے کاموں پر توجہ کم سے کم دیں مگر ان کی امیج بنی رہے۔ عام دنوں میں ان کی مثبت امیج بنی بھی رہی، کیونکہ پچھلے چند برسوں میں اکثر میڈیا والوں نے حکمراں جماعتوں یا اتحاد کی غلطیوں پر سوال کرنے کے بجائے اپوزیشن جماعتوں یا اتحاد کے لیڈروں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ چھوٹے چھوٹے ایشوز کو انہوں نے بڑے بڑے ایشوز کے مقابلے اتنی زیادہ توجہ دے دی کہ بیشتر لوگ یہ سمجھ ہی نہیں سکے کہ ان کے اصل ایشوز کیا ہیں۔ ہمارا ملک جب دیگر ملکوں کو ویکسین کی سپلائی کر رہا تھا تو اکثر میڈیا والوں نے یہ سوال نہیں کیا کہ کیا ملک کے سبھی لوگوں کے لیے ویکسین وافر تعداد میں ہے؟ اگر نہیں ہے تو پھر ویکسین کی سپلائی کیوں کی جا رہی ہے؟ ویکسین ایسی چیز تو نہیں کہ ایک دن میں بنا لی جائے؟
سبھی میڈیا والوں نے اگر حکومتوں کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلایا ہوتا، اگر حکومتوں نے یہ بات سمجھی ہوتی کہ ان کے پاس موقع ہے، وہ ہیلتھ کیئر سسٹم کو بہتر سے بہتر بنالیں، ویکسین کی وافر تعداد اسپتالوں اور کووِڈ سینٹروں میں پہنچائیں تو کورونا کی دوسری لہر بڑی تعداد میں ہندوستان کے لوگوں کے لیے درد سر نہ بنتی، کورونا کی وجہ سے خاصی تعداد میں لوگوں کو جانیں نہ گنوانی پڑتیں اور دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کجریوال کو آج سے 18 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کی ٹیکہ کاری کو بند کرنے کا اعلان نہ کرنا پڑتا۔ اروند کجریوال کا کہنا ہے کہ ’ہر ماہ دلی کو ویکسین کی 80 لاکھ خوراک چاہیے جبکہ جون کے لیے مرکزی حکومت نے 8 لاکھ ڈوز ہی بھیجی ہے۔‘ یعنی ضرورت سے 90 فیصد کم۔ ایسی صورت میں بروقت کورونا ویکسین لگانے کا ہدف کیسے پورا کیا جائے گا، یہ ایک سوال ہے اور جواب طلب سوال یہ بھی ہے کہ کیا اسی طرح وطن عزیز ہندوستان میں کورونا کی وبا پر کنٹرول کیا جائے گا؟ حالات اگر اسی طرح کے رہے، اگر کجریوال کی بات مان لی جائے تو پھر حکومتیں کورونا کی متوقع تیسری لہر سے کیسے نمٹیں گی۔
یہ بات اب فہم سے بالا ترنہیں رہ گئی ہے کہ کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے فی الوقت ویکسین ہی کارگر ہتھیار ہے۔ اس پر ہی خصوصی توجہ دینی ہوگی۔ ہمارے ملک کا ہیلتھ کیئر ’کتنا شاندار‘ ہے، کورونا کی دوسری لہر میں ملک کے لوگوں نے اچھی طرح سے دیکھ لیا ہے۔ زیادہ تر لوگوں کی جان کورونا کی وجہ سے نہیں، بروقت آکسیجن نہ سپلائی ہونے، وینٹی لیٹر دستیاب نہ ہونے، اسپتال میں داخلہ نہ ملنے کی وجہ سے گئی۔ اس سے حکومتوں کی بدنامی ہوئی۔ مزید بدنامی سے بچنے اور اسپتالوںکو اس لائق رکھنے کہ اس پر کبھی بھی ایک حد سے زیادہ بوجھ نہ پڑے، کے لیے خاطر خواہ تعداد میں ویکسین دستیاب کرانے پر ہی توجہ دینی ہوگی مگر اس سلسلے میں غلطیاں ہوتی رہی ہیں۔ ویکسین وافر تعداد میں نہیں تھی تو دیگر ملکوں کو پہلے نہیں بھیجی جانی چاہیے تھی۔ پہلے دیگر ملکوں کو ویکسین بھیجی گئی۔ اس کے بعد اپنے یہاں حالات ابتر ہونے لگے تو باہر ویکسین کی سپلائی روک دی گئی، اس سے ظاہر ہے، وہ ممالک جہاں ایک ڈوز دی جا چکی ہے، وہ ناراض ہوں گے اور ان کی ناراضگی دور کرنے کے ساتھ سرکار کو اپنے لوگوں کا بھی خیال رکھنا ہوگا۔
عجیب حالات ہیں۔ ان سے نمٹنے کے لیے دلی سرکار نے اپنے طور پر حکومت ہند کو مشورہ دیا ہے کہ بھارت بایوٹک دیگر کمپنیوں کے ساتھ ویکسین کا فارمولہ ساجھا کرنے کے لیے راضی ہو گیا ہے، اس لیے سبھی کمپنیوں کو ویکسین بنانے کی اجازت دی جانی چاہیے۔ مرکزی حکومت 24گھنٹے کے اندر غیر ممالک سے ویکسین خرید کرریاستوں کو فراہم کرائے۔ غیر ملکی کمپنیوں کو ہندوستان میں ہی ویکسین بنانے کی اجازت دے۔ کچھ ملکوں کے پاس ان کی ضرورت سے زیادہ ویکسین ہے، بھارت ان سے ویکسین خریدے۔ یہ مشورے اچھے ہیں، حکومت ہند کو ان پر غور کرنا چاہیے اور یہ سمجھنا چاہیے کہ حالات ابھی بھی اطمینان بخش نہیں ہیں،کیونکہ روزانہ کورونا متاثرین کی تعداد 2 لاکھ سے زیادہ رہتی ہے۔
[email protected]
ایسے ہوں گے حالات بہتر؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS