عبدالماجد نظامی
بابری مسجد رام مندر تحریک کے دور میں ملک جس حد تک فرقہ وارانہ کشیدگی کا شکار ہو چکا تھا اور لال کرشن اڈوانی کے ذریعہ فراہم کردہ قیادت نے اس تحریک کو نفرت کا جو ماڈل بنا دیا تھا، اس کے پیش نظر اس وقت کی سیاسی قیادت کو یہ اندازہ ہو چلا تھا کہ فرقہ وارانہ نفرت کا یہ طوفان اب رک نہیں پائے گا۔ انہیں اس بات کا بھی بخوبی اندازہ تھا کہ اس نفرت کی بنیاد میں دھرم اور مذہب کو رکھا گیا ہے جس سے انسان کا رشتہ بڑا جذباتی ہوتا ہے لہٰذا اگر جذبات کے سیلاب کو روکنے اور اس کو صحیح رخ میں استعمال کرنے کا انتظام نہیں کیا گیا تو اس سے بڑی تباہیاں پھیلیں گی اور پورا ملک قتل وخون اور بیجا تشدد پسندی کی آگ میں جھلس جائے گا۔ کیونکہ دھرم انسانی وجود کو تشخص عطا کرتا ہے اور جینے کا مقصد طے کرتا ہے۔
اب دھرم کو ہی اگر سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جانے لگے گا اور اس کی بنیاد پر ملک کے شہریوں کو بانٹا جانے لگے گا تو پھر صورت حال بہت بگڑ جائے گی اور دھرم کے نام پر مشتعل ہونے والی بھیڑ کو روکا نہیں جا سکے گا۔ اس کا برا نتیجہ یہ نکلے گا کہ پورا ملک بد امنی اور بے چینی کا شکار ہوجائے گا اور ترقی و بہبود کی راہ میں باقی ملکوں سے پیچھے رہ جائے گا۔ انہی وجوہات کو دھیان میں رکھتے ہوئے 90 کی دہائی کے بالکل آغاز میں پی وی نرسمہا راؤ کی سرکار نے ایک قانون پاس کیا جس کا نام پلیسیز آف ورشپ( اسپیشل پروویژن) ایکٹ رکھا گیا۔ اس قانون کے تحت یہ حل پیش کیا گیا تھا کہ ملک کی آزادی کے وقت یعنی 15 اگست 1947 کے وقت جن عبادت گاہوں کی جو حیثیت اور حقیقت تھی وہ جوں کی توں برقرار رہے گی اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی کی اجازت نہیں ہوگی۔ بہت حد تک اس قانون پر عمل بھی ہوتا رہا۔ لیکن جب سے نریندر مودی کی سرکار2014میں مرکز کے اندر بنی تب سے ہندوتو کی تشدد پسندی اور اقلیت مخالف سیاست کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ نہ دستوری و آئینی اخلاقیات کا خیال رکھا گیا اور نہ ہی دستوری اداروں کو اس لائق رہنے دیا گیا کہ وہ دستوری روح کی حفاظت کرسکیں۔ خود عدالتیں بھی اس کمزوری کا شکار ہوئیں اور سب سے بڑھ کر ظلم یہ ہوا کہ سپریم کورٹ کے بعض جج صاحبان بھی وہ قلعہ ثابت نہیں ہوپائے جس میں دستور خود کو محفوظ رکھ پائے۔
بابری مسجد معاملہ پر سپریم کورٹ کا جو فیصلہ آیا، وہ اس بات کو صاف ظاہر کرتا ہے کہ اس کی نوعیت قانونی سے زیادہ سیاسی تھی۔ جب عدالتیں اور خاص طور سے وہ عدالتیں جن کی ذمہ داری ہے کہ وہ دستور کی تشریح کا کام کریں، اگر وہ بھی ایگزیکٹیو کے سامنے سرنگوں ہوجائیں یا اس کے دباؤ کو قبول کرلیں یا پاپولزم کی بنیاد پر عدالتی فیصلے دینے لگ جائیں تو قانون کی بالادستی کا معاملہ کس قدر سوال کے دائرہ میں آ جائے گا، اس پر بہت کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آج ملک بھر میں مساجد و مزارات کے نیچے ہندو مندروں کو ڈھونڈنے کا جو جنون ہندوتو کی سیاست کرنے والی تنظیموں پر سوار ہوا ہے، اس کے پیچھے عدالت کی اپنی کمزوریاں ہی ہیں۔
اگر بابری مسجد معاملہ پر قانون اور حقائق کی بنیاد پر فیصلہ ہوگیا ہوتا اور صاف لفظوں میں یہ کہا جاتا کہ بابری مسجد کے نیچے مندر پائے جانے کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے اور مسلمانوں پر مندر مسمار کرکے مسجد تعمیر کرنے کا الزام بے بنیاد ہے تو کیا اس ملک میں بے شمار عبادت گاہوں اور مزاروں کے نیچے مندر تلاش کرنے کا سلسلہ جاری رہ سکتا تھا؟ ہرگز نہیں۔ اگر ہمارے جج صاحبان نے اتنی جرأت دکھائی ہوتی کہ وہ قانون کو لفظ و معنی ہر اعتبار سے نافذ کرنے کا حکم صادر کرتے اور ان مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچاتے جنہوں نے بابری مسجد کی شہادت میں اپنا مجرمانہ کردار ادا کیا تھا تو کیا دوبارہ سے یہ ملک مندر-مسجد کے جھگڑے میں الجھایا جا سکتا تھا؟ کبھی نہیں۔ جب کسی ملک میں دستوری ادارے کمزور ہوجاتے ہیں اور بھیڑ کی مرضی سے فیصلے ہونے لگتے ہیں تو اس کا پر امن رہ پانا ناممکن ہوجاتا ہے۔ سابق چیف جسٹس چندر چوڑ کے ایک زبانی تبصرہ نے کاشی و متھرا سے لے کر سنبھل و اجمیر اور دلی تک کی مسجدوں اور مزاروں کے نیچے مندر کے باقیات کو تلاش کرنے کا راستہ کھول دیا۔ ایک عام انسان بھی اس سے اندازہ لگا سکتا ہے کہ سپریم کورٹ کے جج صاحبان کی ان باتوں کا بھی کتنا اثر ہوتا ہے جو فیصلوں کا حصہ نہیں ہوتی ہیں۔ اس کا ایک دوسرا منفی اور خطرناک پہلو یہ ہے کہ نچلی عدالتوں کے جج صاحبان اپنے اندر اتنی ہمت نہیں جٹا پاتے کہ وہ دستور پر پوری قوت کے ساتھ عمل کر سکیں۔ کیونکہ وہ دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ جب سب سے اونچی عدالت کے جج صاحبان دستوری بنیاد کی پروا کیے بغیر تبصرے کر رہے ہیں اور قانون کو نظرانداز کرکے صرف بھیڑ کے مزاج کا لحاظ کرکے اپنے فیصلے سنا رہے ہیں تو انہیں بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ ہوا کا رخ کس طرف ہے۔ ہوا کے اسی بدلتے رخ کو بھانپ کر بعض ہندوتو وادی تنظیموں نے سپریم کورٹ میں عبادت گاہوں سے متعلق ایکٹ کو چیلنج کر دیا اور کئی درخواستیں اس سلسلہ میں پیش کی گئیں جن میں مطالبہ کیا گیا کہ اس ایکٹ کو کالعدم قرار دیا جائے۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلا اقدام لکھنؤ کی ایک ہندو تنظیم نے 2020 میں کیا تھا جس کا نام وشو بھدر پجاری پروہت مہا سنگھ ہے۔ اس کے بعد تو کئی درخواستیں اس سلسلہ میں داخل کی گئیں۔ سپریم کورٹ نے 2021 میں مرکزی سرکار کو اس ایکٹ پر اپنا موقف واضح کرنے کو کہا لیکن کئی بار پوچھنے پر بھی کوئی جواب وہاں سے نہیں آیا۔ اس درمیان چندر چوڑ کے زبانی تبصرہ کی بنیاد پر نچلی عدالتوں نے مساجد کے سروے کا حکم دینا شروع کر دیا۔ اسی سلسلہ کی ایک کڑی سنبھل کا معاملہ ہے جس میں نچلی عدالت نے حیرت انگیز تیزی دکھاتے ہوئے قدیم تاریخی مسجد کے سروے کا حکم آناً فاناً دے دیا اور ایک سروے کروا بھی لیا۔ دوسرے سروے کے موقع پر جس قسم کا ماحول پولیس اور انتظامیہ کی نگرانی میں تیار ہوا اس میں کم سے کم پانچ مسلم نوجوانوں کی موت ہوگئی اور حالات کشیدہ ہوگئے۔
اسی تناظر میں سپریم کورٹ کے اندر پلیسیز آف ورشپ ایکٹ پر آج سماعت ہوئی جس میں سہ رکنی بنچ نے چند ہدایات جاری کی ہیں جو نہایت اہم اور قابل تعریف ہیں۔ جسٹس کھنہ کی قیادت والی بنچ نے یہ کہا ہے کہ نچلی عدالتیں اب مزید کوئی درخواست اس سلسلہ میں قبول نہیں کریں گی۔ جو مقدمے پہلے سے درج ہیں اور ان کی سماعت چل رہی ہے، ان پر نچلی عدالتیں کوئی موثر عارضی یا آخری فیصلہ نہیں دے سکتی ہیں۔ نہ ہی سروے کروانے کا حکم دے سکتی ہیں کیونکہ ورشپ ایکٹ کا معاملہ اب سپریم کورٹ کے سامنے ہے۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ مرکزی سرکار کو اب اس ایکٹ کے سلسلہ میں اپنا موقف چار ہفتوں کے اندر واضح کرنا ہوگا۔ اس کے بعد چار ہفتے اس سرکاری موقف کے جواب کے لیے متعلق فریق کو دیے جائیں گے۔ گویا کم سے کم آٹھ ہفتوں یا سپریم کورٹ میں دوسری سماعت تک نچلی عدالتیں اس معاملہ پر کچھ نہیں کرسکتی ہیں۔ سپریم کورٹ کے لیے یہ اچھا موقع ہے کہ ورشپ ایکٹ کی دستوری حیثیت کو مزید مضبوط بناکر ملک میں بڑھتے اس فرقہ وارانہ فتنے کا دروازہ بند کردے تاکہ یہ ملک پر امن طریقہ سے ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]