دلی کی نئی حکومت کیا اپنے وعدوں کو پورا کر پائے گی؟: عبدالماجد نظامی

0
دلی کی نئی حکومت کیا اپنے وعدوں کو پورا کر پائے گی؟: عبدالماجد نظامی

عبدالماجد نظامی

بھارتیہ جنتا پارٹی نے شالیمار باغ حلقہ انتخابات سے پہلی بار ایم ایل اے بننے والی ریکھا گپتا کو وزیراعلیٰ بنانے کا اعلان چہار شنبہ کو کر دیا تھا۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے جب بی جے پی نے کسی خاتون امیدوار کو اس عہدہ کے لیے منتخب کیا ہے۔ آج سے27برس قبل بھی سشما سوراج کو اسی دلی کا وزیراعلیٰ بناکر پارٹی یہ تاریخ رقم کر چکی ہے۔ سشما سوراج کی مدت حکومت گرچہ بہت طویل نہیں رہی تھی لیکن ان دنوں بی جے پی کے دو وزرائے اعلیٰ جلدی جلدی بدل گئے تھے اور اس کے بعد سشما جی کو اس عہدہ کی ذمہ داری دی گئی تھی تاکہ وہ اس بحران کو ختم کر سکیں جس کا آغاز پیاز کی بڑھتی قیمتوں سے ہوا تھا لیکن اس کے بعد یکے بعد دیگرے کئی مسائل پیدا ہوگئے تھے۔ سشما سوراج نے بڑی دانائی سے ان مسائل کو بہت حد تک حل کیا تھا لیکن جب اگلا انتخاب دلی میں ہوا تو بھارتیہ جنتا پارٹی امیج کی جنگ میں ہار گئی تھی اور کانگریس پارٹی کو شاندار جیت ملی تھی۔ کانگریس پارٹی نے بھی اپنی ممتاز لیڈر شیلا دیکشت کو وزیراعلیٰ بنایا اور انہوں نے لگاتار پندرہ برسوں تک اس شان کے ساتھ حکومت کی کہ شیلا دیکشت اور دلی دونوں ایک دوسرے کے متبادل بن گئے تھے۔ آنجہانی شیلا دیکشت نے دلی میں بے شمار ترقیاتی کام کیے اور ملک کی راجدھانی کی شکل و صورت ہی پورے طور پر بدل کر رکھ دی۔ آج سی این جی بسوں، فلائی اوورز اور میٹرو کی جتنی سہولیات نظر آتی ہیں، ان سب پر شیلا دیکشت کے کاموں کی چھاپ صاف نظر آتی ہے۔ اب بھارتیہ جنتا پارٹی نے یہ کوشش کی ہے کہ سشما سوراج کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ریکھا گپتا کو وزیراعلیٰ بنائیں تاکہ دہلی کے عوام سے انتخابات کے دوران جو وعدے کیے گئے تھے، ان کو پورا کیا جائے۔ ویسے تو دلی کو ملک بھر میں امتیاز حاصل ہے کہ اس کی مالی صحت اچھی رہتی ہے اور یہاں کے لوگوں کی فی کس شرح آمدنی بھی قومی سطح سے ڈھائی گنا زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود ووٹروں سے اس قدر زیادہ وعدے کر لیے گئے ہیں کہ ان کی تکمیل کوئی آسان بات نہیں ہوگی۔ سب سے پہلا وعدہ جس کی تکمیل کا وقت بہت قریب ہے، اس کا تعلق خواتین کو ڈھائی ہزار روپے ان کے اکاؤنٹ میں فراہم کرنے سے ہے۔ اس وعدہ کو8مارچ یعنی یوم خواتین کی مناسبت سے ہی نافذ کرنا ہوگا کیونکہ وزیراعظم یہ وعدہ کر چکے ہیں کہ حکومت تشکیل پاتے ہی بین الاقوامی یوم خواتین کے موقع پر ہر بہن کے اکاؤنٹ میں ماہانہ ڈھائی ہزار آنا شروع ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ حاملہ خواتین کو اکیس ہزار فراہم کرنے کا وعدہ بھی کیا جا چکا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ جب دلی کا نیا بجٹ پیش کیا جائے گا، اس موقع پر ان وعدوں کی تکمیل کے علاوہ دیگر مالی پالیسیوں کے نفاذ کے لیے ترجیحات کی کیسی فہرست تیار کی جاتی ہے۔ دلی کی نئی سرکار کی ترجیحات میں آیوشمان بھارت کے نفاذ کا مسئلہ بھی ضرور شامل ہوگا کیونکہ مغربی بنگال کی ممتابنرجی کے علاوہ دلی کے سابق وزیراعلیٰ کجریوال نے بھی مرکزی سرکار کی اس اسکیم کو نافذ نہیں کیا تھا۔ ان اسکیموں اور وعدوں کے علاوہ جن میں دلی سرکار کا اچھا خاصا پیسہ خرچ ہوگا دیگر اہم مسائل بھی کم توجہ کے لائق نہیں ہیں۔ دلی سے گزرنے والی جمنا ندی جس کو نارمل حالات میں اس شہر کے حسن اور آبی ضروریات کی تکمیل دونوں کے لیے ایک قدرتی نعمت سمجھا جانا چاہیے، پوری طرح سے گھٹ کر رہ گئی ہے۔ اگر مانسون کے زمانہ کو نکال دیں تو اس کا حال یہ ہوتا ہے کہ اس میں دھول اڑتی رہتی ہے یا تنگ گندے نالوں کی طرح بہتی رہتی ہے۔ اروند کجریوال جب وزیراعلیٰ بنے تھے تو انہوں بھی یہ وعدہ کیا تھا کہ دو سال کی مدت کے اندر ہی وہ جمنا کو صاف کر دیں گے۔ اپنی دس سالہ مدت میں وہ اس محاذ پر بری طرح ناکام رہے اور شاید ان کی پارٹی کی شکست میں ’’شیش محل‘‘کے علاوہ جمنا کی عدم صفائی کا رول بہت بڑا رہا۔ لیکن ان تمام مسئلوں سے بھی زیادہ بڑا مدعا یہ ہے کہ کیا دلی سرکار کی مالی حالت واقعتا ایسی ہے کہ وہ اپنے تمام وعدوں کو سہولت کے ساتھ پورا کر پائے؟ بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ دلی کی سرکار بھی مالی مشکلات سے گزرتی رہی ہے کیونکہ کجریوال سرکار کے کم سے کم آخری دو سالوں میں تو شعبۂ مالیات نے کئی بار اپنی فکر مندی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ مالی صورتحال ٹھیک نہیں ہے۔ اس کی تائید کجریوال سرکار کے عمل سے بھی ہوئی کیونکہ الیکشن سے کچھ دن قبل ہی ان کو نیشنل اسمال سیونگ فنڈ سے دس ہزار کروڑ کا قرض بڑی شرح سود پر لینا پڑا تھا۔ ایسی حالت میں نئی سرکار کو اس بات کا لحاظ رکھنا پڑے گا کہ وہ ان سبسڈیوں کو بند نہ کرے جن کو کجریوال سرکار نے شروع کیا تھا۔ گویا دلی کے عوام کو فری بجلی، پانی اور صحت کی سہولیات فراہم کرانے کے ساتھ ساتھ ان نئی ذمہ داریوں کا بوجھ بھی اٹھانا پڑے گا جن کا وعدہ حالیہ انتخابات میں کیا گیا ہے۔ ریکھا گپتا کے پاس میونسپلٹی کی سطح پر ادارتی اور ترقیاتی امور کی تکمیل کا خاصا تجربہ ہے، اس لیے وہ چیلنجز سے واقف تو ضرور ہوں گی لیکن انہیں یہ بھی دھیان میں رکھنا ہوگا کہ ان کی سرکار کے پاس کجریوال کی طرح یہ بہانا نہیں ہوگا کہ لیفٹیننٹ گورنر یا مرکزی سرکار کا تعاون انہیں حاصل نہیں ہو رہا ہے، اس لیے انتخابی وعدوں کو پورا کرنے میں انہیں دقتیں پیش آ رہی ہیں۔ دلی کے عوام اب اگلے پانچ برسوں تک اس سرکار کو ان کی کارکردگی کی بنیاد پر ہی پرکھیں گے۔ جن مسائل کا ذکر اوپر کیا گیا ہے، ان کے علاوہ بھی دلی کے مسائل کم نہیں ہیں۔ شہری ترقیات کے مسئلے ان پر مستزاد ہیں۔ لوگوں کو سانس لینے کے لیے صاف فضا تک نصیب نہیں ہے۔ پینے کا پانی مستقل ایک مسئلہ بنا رہتا ہے اور روزگار کے مواقع بڑھنے کے بجائے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ دلی کی اقلیتوں کے مسائل میں تو بطور خاص کوئی کمی نہیں آتی ہے۔ اس بار بھارتیہ جنتا پارٹی نے گرچہ فرقہ وارانہ مسائل کو انتخابات کے دوران نہیں اٹھایا تھا لیکن کیا ریکھا گپتا کی سرکار مسلم اقلیت کے مسئلوں کو حل کرنے اور انہیں تحفظ فراہم کرانے میں سنجیدگی دکھائے گی، ان باتوں پر دلی کے لوگ ضرور نظر رکھیں گے کیونکہ الزام در الزام کا دور ختم ہوا، اب عملی طور پر یہ ثابت کرنے کا دور ہے کہ دلی کے عوام نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو27سالوں بعد اقتدار عطا کرکے کوئی غلطی نہیں کی ہے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS