انجینئر خالد علیگ
ابھی بنگال کے نتائج پوری طرح آئے بھی نہیں تھے کہ ممتابنرجی کے ای-میل inbox میں مبارک باد کے پیغامات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اکھلیش یادو کی مبارک باد آئی، شرد پوار نے مبارک باد دی، کجریوال کیوں چپ رہتے اور صرف یہ ہی نہیں راہل گاندھی جنہوں نے ممتا کے خلاف لیفٹ اور عباس صدیقی کے ساتھ مل کر ممتا کے خلاف عظیم اتحاد بنا کر الیکشن لڑا تھا، وہ بھی ممتا کو مبارک باد دینے سے اپنے آپ کو روک نہ سکے، تعجب تو اس وقت ہوا جب بی جے پی کے سابق حلیف ادھو ٹھاکرے نے بنگال کی شیرنی بتاتے ہوئے ان کو مبارک باد دی اور بھی لوگوں نے ممتا کی غیرمعمولی کامیابی کی مبارک باد دی ہے جن سب کا ذکر یہاں ضروری نہیں ہے، سوال یہ ہے کہ مبارک باد کے یہ پیغامات صرف ممتا کی جیت کی خوشی ظاہر کرنے کا سلسلہ ہے یا ان میں کوئی اور پیغام پوشیدہ ہے؟ کیا یہ پیغامات ان لوگوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں جو مودی اور شاہ کی شکست کے بعد ممتا میں امید کی نئی کرن دیکھ رہے ہیں یا ان سیاست دانوں کے دل کی آواز ہے جو ملک کی دم توڑتی جمہوریت کو امت شاہ کے عتاب سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں، وجہ جو بھی ہو جس حوصلے سے ممتا بنرجی نے امت شاہ اور مودی جی کی فوج کا مقابلہ کیا ہے، اس کی مثال ہندوستانی انتخابی تاریخ میں نہیں ملتی۔ حالانکہ ممتا نے تیسری بار اقتدار حاصل کیا اور تینوں مرتبہ دوتہائی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔ ممتا کی پہلی جیت کو بھی لوگوں نے تاریخی قرار دیا تھا جب انہوں نے طویل مدت سے قائم لیفٹ کی مضبوط حکومت کو اکھاڑ پھینکا تھا اور217سیٹیں حاصل کی تھیں مگر اس وقت ممتا کا مقابلہ صرف ایک سیاسی پارٹی سے تھا جو ہندوستان کے صرف دو تین صوبوں میں اپنا اثر و رسوخ رکھتی تھی، اگر2021کے الیکشن کی بات کریں تو اس بار ممتا ملک کی سب سے بڑی پارٹی کے خلاف الیکشن لڑ رہی تھیں۔ ممتا کا مقابلہ ایک ایسے گروہ سے تھا جو اقتدار حاصل کرنے کے لیے سیاسی، اخلاقی اور سماجی قدروں کو اپنے پیروں تلے روندنے میں مہارت حاصل کر چکا ہے۔ اس بار ممتا صرف ایک سیاسی پارٹی کے خلاف نہیں لڑ رہی تھیں بلکہ ان کا مقابلہ حکومت کی طاقتور مشینری سے تھا جس سے ہر کوئی واقف ہے۔اتنا ہی نہیں تھا ممتا کو ہرانے کے لیے آر ایس ایس پورے ملک سے کارکنان کی ایک فوج بنگال لائی تھی جن کے پاس لا محدود معاشی وسائل موجود تھے، سونے پہ سہاگا یہ کہ اس عظیم فوج کے ساتھ ممتا کے کئی سپہ سالار بھی شامل ہو گئے تھے جن کو گزشتہ پچیس سالوں سے ممتا سیاست کے گر سکھا رہی تھیں اور جو ممتا کی سیاسی چالوں سے بخوبی واقف تھے، وہ بھی میر جعفر کا رول ادا کرنے کے لیے بی جے پی میں شامل ہوکر گھر کے بھیدی کا رول ادا کر رہے تھے اور ان سب کے مقابل تھی ایک تنہا خاتون جس کے بدن پر ایک سوتی ساڑھی اور پاؤں میں ایک ہوائی چپل۔ ایسی صورت حال میں ممتا بنرجی کی کامیابی یقینا کسی معجزہ سے کم نہیں ہے، اس لیے ملک کے منتشر اور کمزور حزب اختلاف کو ممتا کی شخصیت میں ایک ایسا پیغام نظر آنا جو ان کو مودی کی شاطرانہ چالوں اور امت شاہ کی آمرانہ سیاست سے نجات دلاسکے، ایک فطری عمل ہے اور ممتا کے inbox میں مبارک باد کے پیغامات کی کثرت بھی اسی امر کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ممتا حزب اختلاف کی اس امید پر پوری اتریں گی اور کیا وہ پورے ملک میں وہ کارنامہ انجام دے پائیں گی جو انہوں نے بنگال میں انجام دیا ہے۔ اس وقت ملک ایک نازک دور سے گزر رہا ہے، اپوزیشن لگ بھگ ختم ہو چکی ہے۔ گزشتہ دو بار سے پارلیمنٹ میں اپوزیشن کا لیڈر نہیں ہے۔ کانگریس میں دوسالوں سے قیادت کا بحران ہے، اس کی گونگی بہری قیادت بی جے پی اور سنگھ پریوار کی شاطرانہ چالوں کو نہ تو سمجھ پارہی ہے اور نہ ہی اس کا مؤثر جواب دے پا رہی ہے، ایسی صورت میں حزب اختلاف کو ایک ایسے قائد کی ضرورت ہے جو بی جے پی کو اسی کی زبان میں جواب دے سکے۔ ملک کی موجودہ صورتحال یہ ہے کہ حکومت ہر محاذپر ناکام ہو چکی ہے ، جس میں وہ کووڈ کی وبا سے نمٹنے میں پوری طرح نا کام ہو چکی ہے اور ملک کے سامنے ایک واضح پالیسی پیش کرنے سے قاصر رہی ہے۔ ملک کی شبیہ پوری دنیا میں متاثر ہوتی جارہی ہے۔
بنگال کے الیکشن نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ بی جے پی ناقابل شکست نہیں ہے بشرطیکہ بی جے پی مخالف ووٹ تقسیم نہ ہو اور ہر حلقہ میں ووٹرس کو یہ معلوم ہو کہ کون سا امیدوار ان کو بی جے پی سے نجات دلا سکتا ہے۔ اگر2024میںیوپی اے اینٹی مودی ووٹوں کی تقسیم کو روکنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو بنگال کی طرح بی جے پی کو ہرانا آسان ہو سکتا ہے۔
بیرون ملک ذرائع ابلاغ پروٹوکول کو نظر انداز کر کے مودی جی کی ناکامیوں کو اجاگر کر رہا ہے۔ اندرون ملک کسانوں کے مسائل حل کرنے میں حکومت پوری طرح ناکام ہو چکی ہے جس کی وجہ سے کسان چھ ماہ سے دھرنے پہ بیٹھے ہیں۔ ملک کی اقتصادی حالت دن بدن بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے جس کے نتیجہ میں عوام حکومت سے ناراض ہیں۔ یوپی کے پنچایتی انتخابات کے نتائج بھی صاف اشارہ کر رہے ہیں کہ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔ ایودھیا، متھرا، کاشی، پریاگ راج جیسے بی جے پی کے قلع مسمار ہو گئے ہیں۔ سماج وادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی اور آزاد امیدواروں کی تعداد بی جے پی کے جیتے ہوئے امید واروں سے چار گنا ہے۔ یہ ذکر یہاں اس لیے ضروری ہے کیونکہ یوپی کو بی جے پی کا ناقابل تسخیر قلع تصور کیا جاتا ہے، غرض یہ ملک کے حالات کسی بھی اپوزیشن لیڈر کے لیے نہایت سازگار ہیں جس کو ممتا بنرجی جیسی ججھارو لیڈر بہت آسانی سے مودی مخالف لہر میں تبدیل کر سکتی ہیں ۔ ممتا بنرجی میں وہ ساری صفات موجود ہیں جو ان کو مودی کا مقابلہ کرنے کا اہل بناتی ہیں۔ اس الیکشن کے دوران وہ اس بات کا اشارہ بھی کر چکی ہیں کہ وہ بنارس جاکر شیر کی ماند میں گھس کر اس کا مقابلہ کرنے کو تیار ہیں۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ حزب اختلاف میں سب سے بڑی پارٹی کانگریس ہے جس کی قائد سونیا گاندھی سے ممتا کے تعلقات نہایت خوش گوار ہیں، مختصر یہ کہ ممتا کی راہ میں کوئی خاطر خواہ رکاوٹ نظر نہیں آتی نیز یہ کہ اگلے سال پوپی میں اسمبلی الیکشن ہونے ہیں جو یقینا2024کا سیمی فائنل ہوگا، اگر حزب اختلاف یو پی میں بی جے پی کو شکست دے پایا تو ملک کو مودی اور شاہ کی ٹیم سے چھٹکارہ مل سکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بہت جلد ممتا کی قیادت میںیو پی اے کی تشکیل نو کی جائے جس میں کانگریس کے ساتھ ملک کی تمام بی جے پی مخالف پارٹیوں کو جمع کیا جائے۔این سی پی، لالو یادو، اکھلیش یادو، چندرشیکھر آزاد، ڈی ایم کے، جے ڈی ایس، آر ایل ڈی،جگن ریڈی، نوین پٹنایک، پی ڈی پی اور شیو سینا سبھی ملک کے موجودہ سیاسی نظام کو تبدیل کرنے کے خواہش مند ہیں، جس کے لیے کانگریس کو فوری شروعات کرنی چاہیے ۔
بنگال کے الیکشن نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ بی جے پی ناقابل شکست نہیں ہے بشرطیکہ بی جے پی مخالف ووٹ تقسیم نہ ہو اور ہر حلقہ میں ووٹرس کو یہ معلوم ہو کہ کون سا امیدوار ان کو بی جے پی سے نجات دلا سکتا ہے۔ اگر2024میںیوپی اے اینٹی مودی ووٹوں کی تقسیم کو روکنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو بنگال کی طرح بی جے پی کو ہرانا آسان ہو سکتا ہے۔ اگر ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال پہ ایک سرکاری نظر ڈالی جائے تو آسام، بنگال، اڈیشہ، جھارکھنڈ، ہریانہ، ایم پی، راجستھان، چھتیس گڑھ، کرناٹک، مہاراشٹر، تمل ناڈو، ہماچل، اتراکھنڈ میں یہ کام بہت مشکل نہیں ہے ۔
یوپی اور بہار میں بھی اگر لالو، نتیش،اکھلیش اور مایاوتی کے اختلافات ختم کرائے جا سکیں تو بہت آسانی سے بی جے پی سے چھٹکارہ مل سکتا ہے اور ملک کی گاڑی ایک بار پھر سیکولرزم کی پٹری پہ لوٹ سکتی ہے ۔
[email protected]