کیا کرد علیحدگی پسندوں کا مسئلہ شام و ترکی میں ختم ہوگا؟

0

ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

شامی انقلاب جن مراحل سے گزر رہا ہے ان سے کبھی تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ شاید اس کو مکمل کامیابی نصیب نہ ہو جیسا کہ لاذقیہ اور ساحل شام کے علاقوں میں بشار الاسد کے حامیوں کے حملہ سے معلوم ہو رہا تھا۔ کبھی ایک دوسرا ایسا پہلو بھی سامنے آ جاتا ہے جس سے شامی عوام اور دنیا بھر کے لوگوں کی توقعات بڑھ جاتی ہیں کہ امکانی طور پر یہ انقلاب اپنی منزل طے کرے گا اور شام کو ایک پرامن اور مستحکم ملک بننے کا موقع مل جائے گا۔ کچھ ایسا ہی خوش آئند واقعہ شام کی موجودہ عبوری حکومت کے صدر احمد الشرع اور مسلح کرد جماعت قسد کے کمانڈر مظلوم عبدی کے درمیان ہوئے معاہدہ کی شکل میں پیش آیا ہے۔ یہ واقعہ اس اعتبار سے کافی اہمیت رکھتا ہے کہ قسد یا سیرین ڈیموکریٹیک فورسز نے اس سے قبل یہ اعلان کیا تھا کہ وہ اسی شرط پر نئے جمہوری ادارہ کے ساتھ ضم ہونے کو قبول کرے گا کہ شامی فوج کے اندر ایک غیر منقسم یونٹ کے طور پر اسے اپنی فورسز کو باقی رکھنے کی اجازت دی جائے۔

اس بیان کا صاف مطلب یہ نکلتا تھا کہ ایک خاص قسم کا غیر مرکزی ادارہ ملک میں نافذ کیا جائے اور شام کے شمال مشرقی علاقوں میں کردوں کو کسی قدر ذاتی ادارہ چلانے کی اجازت دی جائے۔ اس بیان کے بعد عبوری حکومت کی جانب سے سخت ردعمل اور شدید مخالفت دیکھنے کو ملا۔ عبوری حکومت کے وزیر دفاع مرھف ابو قصرہ نے کردوں کے اس مطالبہ کو سرے سے خارج کرتے ہوئے یہ اعلان کردیا کہ وہ ایسی کسی بھی جماعت کے خلاف جنگ کے لئے تیار ہیں جو شامی زمینوں کی وحدت کو تقسیم کرنے کا خواب دیکھ رہی ہے۔ ابھی اسی نوعیت کی باتیں چل ہی رہی تھیں کہ اچانک شامی حکومت کی جانب سے یہ اعلان سامنے آگیا کہ انہوں نے قسد کے ساتھ آٹھ نکاتی پروگرام پر مبنی معاہدہ پر دستخط کر لیا ہے جس کے مطابق قسد کی صورتحال کا تعین ہوگا اور شام کے نئے جمہوری اداروں میں اس کا اندراج کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ کرد علاقے میں موجود پٹرول، گیس، ایئرپورٹ اور سرحدی گزرگاہوں سمیت تمام ادارے نئی حکومت کے زیر عمل آئیں گے۔ ملک کے تمام حصوں میں جنگ بندی ہوگی اور مسلح کرد عناصر جو اب تک شام کی تقریبا ایک چوتھائی زمین پر قابض تھے ان کو شامی ادارہ کے تحت لایا جائے گا۔

اسی کے ساتھ ساتھ ان کی یہ بھی ذمہ داری ہوگی کہ ملک کو متحد اور مستحکم بنانے کے لئے اس جنگ میں حکومت کا ساتھ دیں جو ان دنوں بشار الاسد کے باقی ماندہ عناصر کے ساتھ جاری ہے۔ اس معاہدہ میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ شامی معاشرہ سے تعلق رکھنے والی تمام جماعتوں اور گروہوں کے اس حق کو یقینی بنایا جائے گا کہ وہ اپنی علمی صلاحیتوں اور عملی تجربات کی بناء پر سیاست و نمائندگی کے عمل میں حصہ لے سکیں۔ اس سلسلہ ان کے ساتھ رنگ و نسل کی بنیاد پر کوئی بھید بھاؤ نہیں ہوگا۔

احمد الشرع اور قسد کے درمیان ہونے والے اس معاہدہ میں حیرانی اور اچنبھے پن کا پہلو گرچہ نمایاں معلوم ہوتا ہے لیکن اس کے صاف اشارے اس اعلان میں موجود ہیں جو کرد ورکرز پارٹی کے بانی اور روحانی پیشوا عبداللہ اوگلان نے کچھ ہی دنوں پہلے کیا تھا۔ اوگلان نے اپنی پارٹی کے اراکین کو یہ دعوت دی تھی کہ وہ عسکری آپریشنز والے فائل کو بند کردیں اور ترکی کے خلاف کسی طرح کا حملہ نہ کریں۔

اسی تاریخی دعوت میں انہوں نے اپنے اراکین سے اس بات کا بھی مطالبہ کیا تھا کہ وہ ہتھیار ڈال دیں اور سیاسی عمل میں شامل ہوکر کردوں کے مفاد کے لئے کام کریں اور خود کو ترکی معاشرہ میں ضم کر لیں۔ اوگلان کی اس دعوت کے بعد قسد کے کمانڈر مظلوم عبدی نے اگرچہ یہ کہا تھا کہ اوگلان کا یہ مطالبہ ان سے نہیں ہے بلکہ ان کی اپنی پارٹی کے اراکین سے ہے لیکن بظاہر ایسا لگتا ہے کہ قسد پر اس اعلان کا گہرا اثر پڑا تھا اور اسی لئے اس کو اپنا تیور بدل کر عبوری حکومت کی پیشکش پر سنجیدگی سے غور کرنا پڑا۔ عراق کی کرد قیادتوں نے بھی قسد کو اسی بات کا مشورہ دیا تھا کہ وہ اس وقت عبوری حکومت کی پیشکش کو قبول کرکے سیاسی عمل میں شامل ہوجائیں تاکہ مستقبل میں کردوں کے مطالبوں کی تکمیل کے امکان کو یقینی بنایا جا سکے۔ ایسی صورت میں قسد کے پاس کوئی دوسرا راستہ باقی نہیں رہ گیا تھا۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اگر کردستان کی ورکرز پارٹی عبداللہ اوگلان کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے اپنا ہتھیار ڈال کر ترکی کے ساتھ سیاسی بات چیت کے مرحلہ کا آغاز کر لیتی ہے تو ایسی صورت میں قسد کو مادی اور معنوی دونوں قسم کا خسارہ جھیلنا پڑے گا کیونکہ قسد کے عناصر کو اچھی خاصی عسکری حمایت کردستان کی ورکرز پارٹی سے ہی ملتی تھی۔ اس تعاون کے ختم ہونے کی صورت میں قسد خود کو باقی نہیں رکھ سکتا تھا۔ اس کے علاوہ قسد کو امریکی ادارہ کی جانب سے جو خارجی تعاون ملتا تھا اس کو بھی تین مہینے کے لئے منجمد کردیا گیا تھا۔ قسد کو یہ امداد مالی، عسکری اور سیکورٹی تعاون کے نام پر امریکہ کی وزارت دفاع اور وزارت خارجہ سے ملتی تھی جس سے قسد اپنے عناصر کو تنخواہیں دیتا تھا اور ان عناصر کی ضروریات پوری کرتا تھا جن کے ذمہ داعشی قیدیوں اور ان کے اہل و عیال کی دیکھ ریکھ کے لئے مختص قید خانے اور خیمے ہیں۔ ساتھ ہی امریکہ کی شدید خواہش ہے کہ وہ شمالی شام میں تعینات اپنے دوہزار فوجیوں کو نکال لے گا۔ امریکی وزارت دفاع نے اس غرض کے لئے تین مراحل پر مبنی اپنا ایک پلان بھی تیار کر لیا ہے۔

ٹرمپ نے بھی صاف کہہ دیا ہے کہ شام میں موجود امریکی فوج کے بارے میں فیصلہ جلد لیا جائے گا۔ ان کا ماننا ہے کہ امریکہ کے پاس اپنی ہی مشکلات بہت ہیں اور جتنی انارکی پہلے سے پھیلی ہوئی ہے وہی کافی ہے۔ ٹرمپ کا کہنا ہے شام میں مداخلت کی اب کوئی ضرورت بھی نظر نہیں آتی ہے۔ امریکہ کے اس موقف سے بھی قسد کو یہ معلوم ہوگیا کہ امریکیوں کی نظر میں کردوں کے مقاصد کی کوئی اہمیت کبھی تھی ہی نہیں۔ بس ان کا استعمال داعش کے خلاف جنگ اور داعشی قیدیوں اور ان کے عیال کی نگرانی کے لئے کیا گیا تھا۔ آخر کار پچاس ہزار داعشی قیدیوں کو سنبھالنا خود ایک ایسا کام تھا جس کے لئے قابل اعتماد فورس کی ضرورت تھی جو قسد کی شکل میں امریکہ کو بآسانی مل گیا تھا۔ اس طرح اوگلان کے اعلان اور امریکہ کے واضح موقف کے بعد قسد کے ہاتھ میں زیادہ کارڈ نہیں بچے تھے اور اسی لئے شام کی عبوری حکومت کے ساتھ بات چیت میں انہیں اپنا موقف نرم کرنا پڑا اور اپنے بہت سے مطالبوں سے دستبردار ہوکر یہ معاہدہ کرنا پڑا۔

اس معاہدہ کی وجہ سے ترکی کو بھی آخرکار وہ سنہری موقع ہاتھ آہی گیا جس کا انتظار اس کو کئی دہائیوں سے تھا۔ اب ترکی کو اطمینان رہے گا کہ داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر اس کو علیحدگی پسندوں کے جھمیلوں سے چھٹی مل گئی۔ اس کی وجہ سے ترکی کو اپنے دیگر اہم امنی، اقتصادی اور سیاسی مسئلوں کو حل کرنے میں دقت پیش آتی تھی۔ اسی لئے اردگان نے شامی حکومت اور قسد کے درمیان ہونے والے اس معاہدہ کی پوری تائید کی ہے اور اس کو صحیح سمت میں اٹھایا گیا قدم قرار دیا ہے۔ اردگان نے یہ بھی کہا ہے کہ اس معاہدہ کو من و عن نافذ کرنا شام اور اس کے عوام، اس کے پڑوسی ممالک اور گرد و پیش کے جغرافیائی دائرہ ہر ایک کے امن و سلامتی کے لئے بہت اہم ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کا ملک شامی زمینوں کی وحدت کی حفاظت کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ اردگان کے یہ بیانات بے وجہ نہیں ہیں۔ ترکی دراصل احمد الشرع کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ اس معاہدہ کے تحت قسد کے مسلح عناصر سے ہتھیار واپس ضرور لے لیں اور پورے کرد خطہ پر حکومت کی گہری نظر ہو۔ صرف اتنا کافی نہیں ہوگا کہ کرد علاقوں کے پٹرول اور گیس یا دیگر معدنی ذخائر سے استفادہ کیا جائے اور شامی فوج کو اس علاقہ میں تعینات نہ کیا جائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو انقرہ کی سیکورٹی کو خطرہ کا احساس باقی رہے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے اگلے ایک برس کے اندر اس معاہدہ کے نفاذ کے دوران کیا صورتیں پیش آتی ہیں۔ سب سے بڑا سوال یہ ہوگا کہ ان داعشی قیدیوں اور ان کے آل و عیال کی نگرانی کی ذمہ داری کون سنبھالے گا اور اس مسئلہ کو کیسے حل کیا جائے گا۔ ایک دوسرا مسئلہ یہ بھی ہوگا کہ قسد کی صف میں جو غیر ملکی جنگجو ہیں ان کو کہاں کھپایا جائے گا۔ تیسرا اور سب سے حساس مسئلہ یہ ہوگا کہ کیا تمام کرد مسلح عناصر اوگلان یا مظلوم عبدی کی اطاعت قبول کرکے مسلح مزاحمت چھوڑ دیں گے یا وہ اپنے طور پر علیحدگی پسندی کے ایجنڈہ کو جاری رکھیں گے۔ اگر ایسی صورت پیش آتی ہے تو پھر شام اور ترکی دونوں کے سیکورٹی مسائل میں پیچیدگی برقرار رہے گی۔ البتہ اس وقت اس بارے میں مزید کوئی بات کہنا قبل از وقت ہوگا۔ اس کے لئے معاہدہ کی تنفیذ کی مدت کے دوران پیش آنے والے چیلنجوں کو دھیان سے دیکھنا ہوگا۔ فی الحال تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ اس معاہدہ سے شام کو خانہ جنگی اور ترکی کو علیحدگی پسندی کے خطرات و خدشات سے بظاہر راحت مل گئی ہے۔

(مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS