ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ
حماس کے صدر اور فلسطینی مزاحمت کے عظیم قائد یحییٰ سنوار (1962-2024) کی شہادت 16 اکتوبر کو تل السلطان میں اس حالت میں ہوئی کہ وہ اپنی حیاتِ عزیز کے بالکل آخری لمحہ تک صہیونی دشمن سے لڑتے رہے۔ وہ پیدا خان یونس میں ہوئے تھے اور موت رفح کے تل السلطان میں ہوئی ۔ جس مٹی میں پیدا ہوئے اسی کی حفاظت میں ہر سانس کو لگا دیا۔ ایسی قابل رشک شہادت نے انہیں نہ صرف فلسطینی نوجوانوں اور بچوں کا کبھی نہ مرنے والا ہیرو بنا دیا ہے بلکہ پوری دنیا میں جہاں کہیں بھی ارضِ وطن کی آزادی اور جائز حقوق کی بازیابی کی خاطر کوشاں رہنے والی جماعتیں کام کر رہی ہیں ان کے لئے وہ ایک مینارۂ نور بن گئے ہیں جس کی روشنی سے تحریکیں اپنے مشن کی جہت طے کرنے کا کام لیں گی اور قربانیوں سے اپنا قدم کبھی پیچھے نہیں کریں گی۔ یحییٰ سنوار اور ان کے رفقاء نے 7 اکتوبر 2023 کو آپریشن ’طوفان الاقصیٰ‘ کے ذریعہ پہلی بار اسرائیل کی عسکری اور مشینی قوت کو چیلنج کیا تھا اور پوری دنیا کے سامنے اس کے انٹلیجنس کے بودے پن کو اجاگر کرکے اس کے ناقابلِ تسخیر ہونے کے بھرم کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا تھا۔ 7 اکتوبر کی تاریخ صہیونیت کے لئے ہمیشہ ہی اتنی تکلیف دہ اور ذلت آمیز رہے گی کہ اس کی ٹیس سے اس کا پورا وجود کانپتا رہے گا۔ اس کے ساتھ ہی جب جب صہیونی گھروں، قہوہ خانوں، بازاروں یا دفتروں میں اس واقعہ کا ذکر ہوگا یا صہیونی اسکولوں، کالجوں اور عسکری اداروں میں اس کے مختلف پہلوؤں پر بحث ہوگی تب تب یحییٰ سنوار کا نام بھی لیا جائے گا۔ اس طرح سے یحییٰ سنوار ایک لازوال حقیقت بن کر صہیونیت کی سیاہ تاریخ میں بھی ایک روشن باب بن کر ہی چمکتے رہیں گے۔ گویا سنوار نہ تو فلسطینی تاریخ میں کبھی مریں گے اور نہ ہی صہیونی زندگی سے کبھی دور جائیں گے۔ لافانی ہونے کا یہ ایسا واقعہ ہے جس کی مثال جدید تاریخ میں شاذ و نادر ہی ملتی ہے۔ ساتھ ہی اس حقیقت کو بھی دنیا نظر انداز نہیں کرپائے گی کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سے لے کر صہیونی و امریکی نظام دفاع و انٹلیجنس کا پورا عملہ اول دن سے ہی سنوار کے بارے میں صرف جھوٹ بول رہا تھا کہ وہ سرنگوں سے ہوتے ہوئے ارض فلسطین کو چھوڑ کر صرف اپنے اہل خانہ کو لے کر بھاگ گئے ہیں۔ اسرائیل و امریکہ مستقل یہ پرپیگنڈہ پھیلاتا رہا کہ فلسطینی کاز سے زیادہ سنوار کو اپنے اہل خانہ کی زندگی اور تحفظ کا خیال تھا۔ لیکن جب حقیقت آشکار ہوئی تو پتہ چلا کہ یحییٰ سنوار ایک سچے مرد میداں کی طرح اپنے سپاہیوں کی قیادت کرتے ہوئے صف اول میں کھڑے تھے اور دشمن سے دلیرانہ آنکھیں چار کر رہے تھے۔ سنوار نے اپنی زندگی کے آخری لمحہ تک یہ ثابت کیا کہ وہ اسرائیل و امریکہ اور پوری مغربی دنیا کے استخباراتی تام جھام سے زیادہ ذہین، دلیر اور سچے تھے۔ انہوں نے اپنے لوگوں کے ساتھ کبھی غداری نہیں کی۔ کبھی جان بچانے کی غرض سے اسرائیلی یرغمالیوں کا جھنڈ لے کر اپنے ساتھ لے کر نہیں گھومے۔ اس کے برعکس وہ عسکری لباس میں ملبوس ہتھیاروں سے لیس ہروقت میدان میں موجود تھے اور ایک حقیقی رہنما و کمانڈر کی طرح صف اول میں کھڑے ہوکر نہ صرف ہدایات جاری کرتے رہے بلکہ خود ان کے نفاذ میں عملی طور پر شریک رہے۔ اس سے زیادہ شرمناک شکست صہیونیت اور مغربی استعماریت کی اور کیا ہوگی کہ فلسطین کے چپہ چپہ کو جاسوسی ڈرونز اور فینسی آلات سے بھر دینے کے باوجود وہ یحییٰ سنوار کا پتہ نہیں لگا سکے۔ اسرائیلی و امریکی انٹلیجنس کی اس ذلت آمیز ناکامی کے بعد دنیا کا کونسا ملک ان کے مہنگے آلات پر بھروسہ کرے گا اور انہیں خریدنا چاہے گا؟ اس کا پورا امکان ہے کہ اب دنیا کے تمام عسکری اور انٹلیجنس کے اداروں میں یحییٰ سنوار کے دماغ اور ان کے طرز فکر کو گہرائی سے سمجھنے کی کوشش کی جائے گی اور ان کی ذہانت کے تمام پہلوؤں سے استفادہ کا سلسلہ شروع ہوگا۔ اسرائیل نے ابھی چند ہفتے قبل سید حسن نصر اللہ اور ان کے رفقاء کو لبنان میں پیجر حملہ اور اس کے مابعد کے مشن میں شہید کرکے جو وقتی واہ واہی لوٹی تھی یحییٰ سنوار نے اس کی بھی ہوا نکال دی اور ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا کہ انٹلیجنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں اسرائیل کی برتری کو نہ صرف چیلنج کیا جا سکتا ہے بلکہ اسے ناکام بھی بنایا جا سکتا ہے۔ کیا یہ شرمناک واقعہ نہیں ہے کہ جس وقت یحییٰ سنوار اور ان کے رفقاء کے ساتھ اسرائیلی فوج کی مڈبھیر ہو رہی تھی اس وقت انہیں یہ پتہ تک نہیں تھا کہ ان کے مقابل خود سنوار کھڑے ہیں؟ جن کو ڈھونڈ نکالنے اور ختم کرنے کو اسرائیل نے اپنے مشن کا اولین اور بنیادی عنصر قرار دیا تھا ان کے بارے میں معمولی جانکاری تک اسرائیل و امریکہ کے پاس نہیں تھی۔ جبکہ اسرائیلی و امریکی پروپیگنڈوں کے برعکس وہ سرنگوں میں چھپے ہوئے نہیں تھے بلکہ فلسطین کی سڑکوں اور گلیوں میں گھوم گھوم کر اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے تھے۔ یحییٰ سنوار نے اپنی اس بہادری و جوانمردی اور بے خوفی و ذہانت سے تقریباً 90 سال پرانا اس واقعہ کو دہرا دیا ہے جب شیخ عزالدین القسام نے شہادت پائی تھی۔ واقعہ یوں ہے کہ 20 نومبر 1935 کو برطانوی فوج کی بڑی تعداد نے عزالدین القسام اور ان کے گیارہ رفقاء کو گھیر لیا تھا اور انہیں سرینڈر کرنے کو کہا۔ شیخ اور ان کے رفقاء نے اس مطالبہ کو مسترد کر دیا اور یہ چھوٹی سی جماعت 6گھنٹوں تک برطانوی فوج کے ساتھ لڑتی رہی۔ شیخ عزالدین القسام اور ان کے چار رفقاء شہید ہوگئے اور باقی زخمی و اسیر ہوئے۔ یہ وہی عزالدین القسام ہیں جن کے نام پر حماس کی ملٹری وِنگ کا نام ’القسام بریگیڈ‘ رکھا گیا ہے اور ان ہی کی زبان سے نکلا ہوا آخری جملہ حماس کے مزاحمت کاروں کا نعرہ بن گیا ہے۔ شیخ القسام نے کہا تھا کہ یہ راستہ جہاد کا ہے۔ یا تو فتحیاب ہوں گے یا جامِ شہادت نوش کریں گے۔ یحییٰ سنوار کی بھی یہی تمنا تھی کہ یا تو ارض فلسطین اور بیت المقدس کو آزاد کرائیں گے یا پھر اسی راہ میں جان دے کر شہادت حاصل کریں گے۔ ان کا وہ تاریخی جملہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ دشمن انہیں جو سب سے بڑا تحفہ دے سکتا ہے وہ یہ ہے کہ انہیں شہید کر دے کیونکہ اونٹ کی طرح اپنے بستر پر مرنا وہ پسند نہیں کریں گے۔ اس لئے یہ کہنا بالکل مناسب ہوگا کہ سنوار کی زندگی بالکل اسی طرح ختم ہوئی جیسی وہ تمنا رکھتے تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ قدرت نے انہیں اختیار دے دیا ہو کہ تم اپنی زندگی کے صفحات اپنے ہاتھوں اپنی مرضی سے لکھ لو۔ اب اپنی شہادت کے بعد فلسطینی مزاحمت کاروں کے لئے وہ ایک نئی علامت بن گئے ہیں جن سے حوصلہ پاکر نئی قوت کے ساتھ اسرائیلی قبضہ کے خلاف مقابلہ آرائی کا دور شروع ہوگا۔ ارض فلسطین پر اسرائیلی وجود برطانوی سامراج کا ہی ایک متواتر سلسلہ ہے جس کا وارث آج امریکہ بنا ہوا ہے۔ چونکہ مغربی سامراج کی ہر شکل کے لئے کوئی نہ کوئی مزاحمت کار ضرور کھڑا ہوا ہے لہٰذا فلسطین میں بھی ایسی شخصیات کی کمی نہیں پائی جاتی رہی ہے۔ شہادت کے بعد یحییٰ سنوار ان ممتاز تاریخی شخصیات کی فہرست میں بھی شامل ہوگئے ہیں جن کے ذکر سے آزاد کے مشنوں کو نئی انرجی ملتی رہتی ہے۔ اب ان کا تذکرہ عمر المختار، امیر عبدالقادر الجزائری اور شیخ عزالدین القسام کے ساتھ کیا جائے گا۔ ان کی شہادت کے بعد مغربی لیڈران کے جو بیانات آئے ہیں ان سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ سنوار کی کیا تصویر ان کے ذہنوں میں تھی۔ یہ وہی مغربی قائدین ہیں جنہوں نے اسرائیل کے ساتھ مل کر معصوم فلسطینیوں کے خون میں ڈبکیاں لگائی ہیں اور مسلسل اس بداخلاقی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ بطور خاص امریکی صدر بائیڈن کا بیان تو یہ واضح کرتا ہے کہ یہ ملک سیاسی اخلاقیات سے مکمل طور پر عاری ہو چکا ہے۔ بائیڈن نے سنوار کی شہادت کو اسرائیل، امریکہ اور دنیا کے لئے اچھا قرار دیا اور یہ اشارہ دیا ہے کہ اب جنگ بندی ہوسکتی ہے۔ گویا جنگ بندی کی راہ میں رکاوٹ نیتن یاہو کے بجائے یحییٰ سنوار ہوں۔ اس کے ساتھ ہی مغربی میڈیا نے مزاحمت کاروں میں مایوسی کا ماحول پیدا کرنے کی خوب کوشش کی گویا اب حماس کا وجود مٹ جائے گا اور مشرق وسطیٰ میں مغربی مفادات کے امین اسرائیل کو اب کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلم دنیا کو سمجھنے میں مغرب کا نظام کتنا ناکارہ ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سنوار کی شہادت سے مزاحمت کی فضا مزید بڑھے گی۔ جو بچے امریکی و اسرائیلی بموں سے بچ جائیں گے وہ سنوار کا ادھورا خواب پورا کریں گے۔ جس طرح 7 اکتوبر کے بعد سے فلسطین کا مسئلہ دوبارہ دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ بن گیا ہے اور اسرائیل کی بربریت نے اس کو مہذب دنیا میں اچھوت بنا دیا ہے اسی طرح سنوار کی شہادت بھی ارض مقدس کی آزادی کی راہ میں فلسطینیوں کے لئے آخری شہادت نہیں ہوگی بلکہ ایک نیا آغاز ثابت ہوگا۔ کیا حسن نصراللہ کی شہادت سے ’حزب اللہ‘ ختم ہوگیا؟ اس کے برعکس آج حالت یہ ہوگئی ہے کہ حزب اللہ کے حملوں سے خود نیتن یاہو کا اپنا گھر تک محفوظ نہیں ہے۔ اس مسئلہ کا ایک ہی حل ہے کہ فلسطینیوں کو ان کا حق ملے۔ ان کی آزاد ریاست ہو جہاں ان کے بچے بہتر زندگی کا خواب دیکھیں اور ان کو پورا کرنے کے لئے پرامن فضا انہیں میسر ہو۔ اسرائیل اور اس کے ہمنوا یہ چاہتے ہیں کہ فلسطین کو آزادی نہ دی جائے۔ ان کے مقدسات کو پامال کیا جائے۔ ان کے وسائلِ حیات اور معاش کو ملیامیٹ کر دیا جائے اور عزت کا ایک پل تک انہیں نصیب نہ ہو۔ ایسی حالت میں بھی اہل فلسطین کو ہی امن کا دشمن قرار دینا کتنی بڑی بد دیانتی ہے۔ اگر اسرائیلی ظلم اور امریکی بد دیانتی کا یہ سلسلہ ختم نہیں ہوگا اور فلسطینی زندگیوں کو تاریکی در تاریکی میں جھونکا ہی جاتا رہے گا تو پھر اسرائیل کا مستقبل بھی تاریک ہی رہے گا۔ شہادتوں کے سلسلہ سے تحریکوں کی موت واقع نہیں ہوتی۔
(مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں)