صبیح احمد
ہر ’شام‘ کے بعد بلا شبہ صبح ہوتی ہے، لیکن درمیان میں ایک طویل رات بھی ہوتی ہے جو کافی بھیانک ہوتی ہے۔ صبح کی خوشگوار فضا کا مزہ لینے کے لیے ہر کسی کو پہلے اس بھیانک رات کی تاریکی جھیلنی پڑتی ہے۔ کچھ بد نصیب لوگ اس تاریک رات میں گم ہوجاتے ہیں اور کچھ خوش نصیب ہوتے ہیں جو صبح کا خوشنما منظر دیکھ پاتے ہیں۔ اور دن رات کا یہ نظام وقت کا تابع ہوتا ہے،کیونکہ
’’وقت سے دن اور رات
وقت سے کل اور آج
وقت کی ہر شے غلام
وقت کا ہر شے پہ راج
کون جانے کس گھڑی
وقت کا بدلے مزاج
وقت کی ٹھوکر میں ہے
کیا حکومت کیا سماج‘‘
ملک شام کے صدر بشارالاسد کا تختہ پلٹنے کے بعد لوگ ’صبح‘کی باتیں کر رہے ہیں اور امید کر رہے ہیں کہ ’شام‘ میں آمریت کا دور ختم ہونے کے بعد اب ’صبح‘ کا دور شروع ہوگیا ہے یا ہونے والا ہے لیکن یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ابھی تو ’شام‘ ختم ہوئی ہے ، اس کے بعد ایک طویل رات بھی آتی ہے اور پھر صبح ہوتی ہے۔
اپنے والد سے اقتدار سنبھالنے کے بعد ایک چوتھائی صدی تک شام پر حکمرانی کرنے والے اسد کی بے دخلی نے ملک میں ایک خطرناک سیاسی خلا چھوڑ دیا ہے۔ ایک پیچیدہ اور غیر یقینی صورت حال ہے، اور زیادہ تر مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ آنے والے دنوں، ہفتوں اور مہینوں میں حالات کیسے ہوں گے، اس کا اندازہ لگانا فی الحال ناممکن ہے۔ حالانکہ بشارالاسد اور دیگر حکومتی شخصیات دمشق میں اقتدار پر باغیوں کے قبضہ سے چند گھنٹے پہلے ہی شام سے فرار ہوگئے تھے، لیکن وزیراعظم محمد غازی جلالی اپنے عہدے پر قائم رہے۔ جلالی کا کہنا تھا کہ ’ہم کام کر رہے ہیں تاکہ اقتدار کی منتقلی کا عبوری دور تیز اور ہموار ہو۔‘ ایچ ٹی ایس لیڈر نے بھی تسلیم کیا ہے کہ باغیوں کی فتح کے باوجود ’ہم پچھلی حکومت کونظر انداز نہیں کرسکتے۔‘ لیکن ابھی کسی بھی نتیجے پر پہنچنا قبل از وقت ہوگا۔ شام میں فی الحال سب سے زیادہ ضرورت انسانی امداد کی ہے۔ ایک اندازہ کے مطابق 16.7 ملین افراد ضرورت مندہیں، جو کہ 2011 کے بعد سے سب سے زیادہ تعداد ہے۔ خوردنی اشیا کی مہنگائی عروج پر ہے۔ شام کے بنیادی ڈھانچے بشمول اسکولوں، سڑکوں اور اسپتالوں کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا ہے۔ شام کے ہمسایہ ممالک بھی شامی پناہ گزینوں کی واپسی کے لیے کوشاں ہیں۔
شامی اپوزیشن متحد نہیں ہے اور ملک کئی محاذ پر منقسم ہے۔ ایچ ٹی ایس اور ایس این اے نے ایس ڈی ایف کے زیر کنٹرول علاقہ بھی چھین لیا ہے۔ شام کے ساحلی علاقوں میں روسی فوجی اڈے ابھی باقی ہیں۔ جنوبی شام میں اسرائیلی افواج کی موجودگی برقرار ہے اور امریکی افواج شام کے شمال مشرق میں موجود ہیں۔ فی الحال اقتدار پر قابض باغیوں کی تنظیم ایچ ٹی ایس کی جڑیں القاعدہ میں پیوست بتائی جاتی ہیں، حالانکہ اس کا کہنا ہے کہ اس نے 2016 میں اس گروپ سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔کہا جاتا ہے کہ اس کے رہنما ابو محمد الجولانی(جن کا اصل نام احمد الشارع ہے) نے 2000کی دہائی میں عراق میں امریکہ اور برطانیہ کی اتحادی افواج کے خلاف شورش میں حصہ لیا تھا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، برطانیہ، امریکہ، یوروپی یونین اور دیگر اسے دہشت گرد گروپ سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ایچ ٹی ایس کے حوالے سے فیصلہ الفاظ سے نہیں بلکہ اس کے اعمال سے کریں گے اور وہ چاہتے ہیں کہ یہ شہریوں، تمام اقلیتی گروپوں کی حفاظت کریں اور اقتدار کی منتقلی پرامن طریقے سے کریں۔ ابھی کچھ ہی دنوں قبل برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر کہہ چکے ہیں کہ برطانیہ میں دہشت گرد تنظیم کے طور پر اس پر عائد پابندی پر فی الحال نظر ثانی ’بہت جلد بازی‘ ہوگی۔
حالانکہ اسد حکومت کا خاتمہ ہوچکا ہے، لیکن کچھ تنازعات اور فوجی سرگرمیاں جاری ہیں۔ اسلامک اسٹیٹ (داعش) کے خلاف امریکی فضائی حملوں کے علاوہ اسرائیل اور ترکیہ 2 بیرونی طاقتیں ہیں جو شام میں عسکری طور پر سرگرم عمل ہیں۔ اسلامک اسٹیٹ نے 2019 میں شام میں اپنا آخری علاقہ کھو دیا تھا۔ لیکن امریکہ نے خبردار کیا ہے کہ اس گروپ نے 2024 میں شام میں 2023 کے مقابلے دوگنا حملوں کا دعویٰ کیا ہے اور وہ اسد کے زوال کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر سکتا ہے۔ ادھر اسرائیلی ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) نے اقوام متحدہ کے بفر زون پر قبضہ کیلئے مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں سے پیش قدمی شروع کر دی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ ممکنہ حملوں کو روکنے کیلئے ایک عارضی قدم ہے اور یہ مذکورہ زون سے اسد حکومت کی افواج کے انخلا کی عکاسی کرتا ہے۔ آئی ڈی ایف نے اسد کے زوال کے بعد سے شام میں مبینہ کیمیائی ہتھیاروں اور فوجی تنصیبات کے خلاف تقریباً 350 حملے کیے ہیں۔
ترکیہ ایس این اے کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے، جس نے نومبر میں ایس ڈی ایف کے خلاف آپریشن شروع کیا تھا۔ ترکیہ کا استدلال ہے کہ ایس ڈی ایف کے کردستان ورکرس پارٹی(پی کے کے) سے روابط ہیں، جو ترکیہ میں شورش برپا کر رہی ہے اور اسے دیگر کئی ملکوں کے علاوہ یوروپی یونین اور برطانیہ ایک دہشت گرد تنظیم تصور کرتے ہیں۔ ترکیہ کو بشارلاسد کے زوال کا سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ترکیہ تقریباً 2.9 ملین شامی مہاجرین کی میزبانی کرتا ہے۔ جہاں تک ایران اور لبنانی حزب اللہ کا سوال ہے، بشارالاسد کا زوال ایران کے ’محور مزاحمت‘ کے لیے ایک تزویراتی شکست ہے۔ اسد کی شکست نے ایران سے لبنان تک ایک اہم زمینی راستہ کاٹ دیا ہے۔ روس بھی صدر اسد کا ایک اہم حمایتی رہا ہے اور شام میں اس کے فوجی اڈوں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے یہ بحیرۂ روم، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے بنائے ہیں۔ ان اڈوں کا مستقبل اب غیریقینی ہے۔ امریکہ کے شام میں 900 فوجی ہیں جن میں سے زیادہ تر ایس ڈی ایف کے ساتھ شمال مشرق میں مقیم ہیں۔ اس کا ارادہ ہے کہ ان فوجیوں کو اسلامک اسٹیٹ کی شکست کو یقینی بنانے کے لیے وہاں موجود رہنا چاہیے۔
بہرحال شام اس وقت امن اور جنگ، استحکام اور لاقانونیت، تعمیر نو یا مزید بربادی کے درمیان ایک دوراہے پر کھڑاہے ۔ حالانکہ حالیہ پیش رفت سے امید پیدا ہوئی ہے کہ شامی عوام کے مصائب بالآخر ختم ہوسکتے ہیں اور دنیا کا سب سے بڑا جبری نقل مکانی کا بحران منصفانہ حل کی طرف بڑھ سکتا ہے۔ لیکن دیگر ملکوں میں پناہ گزیں شامی لوگوں کی واپسی اور اس کی رفتار اس بات سے طے ہوگی کہ شام کے اگلے رہنما کتنا سیاسی استحکام فراہم کرسکتے ہیں۔ عراق پر امریکی حملے کے بعد کے حالات سے جس میں 2003میں صدام حسین کا تختہ پلٹ دیا گیا تھا، شام سبق حاصل کرسکتا ہے۔ صدام کے زوال کے بعد امریکہ نے حکمراں بعث پارٹی کو تحلیل کردیا تھا، جس کے نتیجے میں بنیادی خدمات میں خلل پڑا جس سے بڑے پیمانے پر عوام میں افراتفری پھیل گئی اورجس نے بالآخر پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ خطہ کی حکومتیں ان خطرات سے بخوبی واقف ہیں جو ایک آمر کے زوال کے بعد پیدا ہوسکتے ہیں۔ 2011 میں معمر قذافی کی موت کے بعد کئی سالوں تک لیبیا پر خانہ جنگی کا غلبہ رہا، بالکل اسی طرح جیسے عراق میں صدام حسین کی معزولی کے بعد ہوا۔ آج وہ شام کے واقعات کو بہت ہی محتاط اور چوکس ہو کر دیکھ رہے ہیں۔