ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ
ابھی چند برس قبل کی بات ہے کہ ایران کے ایک بڑے لیڈر نے فخر کے لہجہ میں یہ اعلان کیا تھا کہ چار عرب ممالک ایران کے زیر اثر آ چکے ہیں۔ غالباً انہیں اپنے ازلی حریف سعودیہ عرب کو دھمکی بھرا اشارہ دینا تھا کہ وہ دن دور نہیں جب ہم بحرین اور خود سعودی عرب کے شیعہ اکثریت والے خطہ میں بھی اپنا رسوخ قائم کر لیں گے۔ ایران کی یہ خود اعتمادی بے جا بھی نہیں تھی۔ ان دنوں یمن میں ایران کی پروردہ جماعت حوثی یکے بعد دیگرے کئی یمنی شہروں کو اپنے قبضہ میں لے رہی تھی اور جنگ کا پلڑا حوثیوں کے حق میں جھکتا نظر آ رہا تھا۔ عراق میں ایران کی حمایت یافتہ جماعتیں حکومت کا حصہ تھیں اور ایران کے سیاسی نظریہ کو نافذ کرنے میں پورے طور پر کوشاں نظر آ رہی تھیں۔ لبنان ابھی افلاس کے اس درجہ تک نہیں پہنچا تھا جس کی شدت سے آج اہل لبنان جوجھ رہے ہیں۔ ملک شام میں بھی ایران کے تربیت یافتہ جنگجو بشار الاسد کو تحفظ فراہم کر رہے تھے اور شام کی مسلح جماعتوں کو پیچھے دھکیل رہے تھے۔ جہاں ایک طرف آسمان سے روسی جنگی طیاروں کی بمباری ہوتی رہتی تھی وہیں زمینی جنگ بشار کے وفادار فوجیوں کے ساتھ ایران کے وفاشعار انقلابی گارڈس بھی لڑتے تھے۔ یہی وہ پس منظر تھا جس کو دھیان میں رکھتے ہوئے ایرانی لیڈر نے دعوی کر دیا تھا کہ وہ چار عرب راجدھانیوں کو اپنے قبضہ میں لے چکے تھے۔ یہ چار راجدھانیاں تھیں بغداد، صنعاء، بیروت اور دمشق۔ یہ پہلا موقع تھا جب ایران نے واضح الفاظ میں اپنی توسیعی پالیسی کا اعتراف کیا تھا۔ لیکن بنیادی اور اہم سوال یہ ہے کہ ایران کے زیر اثر آنے کے بعد ان راجدھانیوں کا کیا ہوا؟ کیا انہیں سیاسی استحکام نصیب ہوا؟ یا کیا ان کا اقتصادی ترقی اور سماجی آہنگی کا وہ خواب شرمندۂ تعبیر ہو پایا جس کی تمنا برسوں سے وہ اپنی آنکھوں میں سمائے ہوئے ہیں؟ یمن کی جو صورت حال ہے وہ دنیا بھر کے سامنے ہے۔ لبنان میں سیاسی عدم استحکام کے ساتھ ساتھ اقتصادی طور پر افلاس کی کیفیت اپنے عروج پر ہے جبکہ شام کا مستقبل کیا ہوگا اس کی کوئی واضح تصویر ابھر کر سامنے نہیں آ رہی ہے۔ ایسے میں صرف عراق کے بارے میں یہ امید ظاہر کی جا رہی تھی کہ وہاں باز آبادکاری کا کام قدرے آسان ہوگا کیونکہ وہ قدرتی وسائل سے مالامال ملک ہے اور سیاسی جماعتیں انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ عراق میں جمہوریت کی بحالی کی ایسی امید پیدا ہو رہی تھی کہ معروف امریکی تجزیہ نگار فرید زکریا نے ایک برس قبل ’پرنٹ‘ پر شیکھر گپتا کے ساتھ اپنی گفتگو میں یہاں تک کہہ دیا تھا کہ جہاں ایک طرف دنیا کے باقی حصوں میں جمہوریت کمزور ہو رہی ہے وہیں دوسری طرف بالکل غیر متوقع ڈھنگ سے مشرق وسطی کے ایک ملک عراق میں جمہوری نظام جڑ پکڑ رہا ہے۔ لیکن آج جو صورت حال عراق میں پیدا ہو گئی ہے اس کو دیکھ کر یقینا فرید زکریا اب اتنے اعتماد سے نہیں کہہ پائیں گے کہ وہاں جمہوریت کا مستقبل روشن ہوتا نظر آ رہا ہے۔ 1932 میں برطانوی سامراج سے آزاد ہونے والا قدرتی وسائل سے پْر یہ ملک آج بھی اپنی مکمل آزادی کی جنگ لڑ رہا ہے۔ عجیب اتفاق ہے کہ اس نے طرز حکومت کے سارے رنگ دیکھے ہیں۔ برطانوی سامراج کے خاتمہ کے فوراٰ بعد ہی وہاں ملوکیت کا عہد شروع ہوا۔ اس کے بعد جمہوریت کے دور میں اشتراکیت کا غلبہ وہاں رہا اور اس کے بعد قومیت پسند بعث پارٹی کی حکومت بنی۔ 1968 کے انقلاب کے بعد صدام حسین کی مطلق العنانی کا دور دورہ رہا جو 2003 میں امریکی تسلط تک جاری رہا۔ 2003 میں جب صدام حسین کے عہد کا خاتمہ ہوگیا تب ایران کو اپنے قدم جمانے کا موقع ملا۔ بلکہ زیادہ مناسب الفاظ میں یہ کہنا چاہئے کہ امریکہ کی نگرانی میں ایران کو اپنا دائرۂ اثر بڑھانے میں مدد ملی اور مسلسل ایرانی اثر و رسوخ میں اضافہ ہوتا رہا یہاں تک کہ عراق کے تمام اداروں پر ایرانی نظام کی چھاپ پڑ گئی۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ کہنا بجا ہوگا کہ امریکی سامراج سے آزادی ملی تو ایران کے قبضہ میں یہ ملک چلا گیا۔ سامراج کے صرف نام اور شکل و شباہت میں تبدیلی پیدا ہوئی لیکن نتیجہ کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ ایران نے بڑی مہارت سے اپنے مہرے عراق میں تیار کئے تھے۔ اس نے اپنے انقلابی گارڈس کی طرز پر ایک مسلح جماعت ’حشد شعبی‘ کے نام سے عراق میں قائم کی اور اسے ہتھیار چلانے کی تربیت فراہم کی۔ ضرورت کے تمام ہتھیار بھی انہیں مہیا کروائے۔ اور جب داعش کے خلاف جنگ کا بہانہ ختم ہوگیا تو یہی مسلح جماعتیں سیاسی پارٹیوں میں تبدیل ہوگئیں اور ایرانی نظام کے نفاذ میں سرگرم ہوگئیں۔ ان جماعتوں نے اپنے مسلح جتھوں کو بھی تحلیل نہیں کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عراق کے شہروں میں ان کی زیادتیاں وقتاً فوقتاً جاری رہیں اور ان کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام کا ماحول برقرار رہا کیونکہ ایران کی حمایت یافتہ جماعتوں کا تسلط اسٹیٹ کے تمام اداروں پر قائم تھا خواہ وہ حکومت کا گلیارہ ہو یا عدالت اور پارلیمنٹ کی کرسیاں سب کچھ ان کے قبضہ میں چلا گیا۔ یہی سلسلہ پورے دو دہائی تک چلتا رہا۔ جس قدر ایران کا قدم جمتا رہتا اسی قدر امریکہ اپنا قدم ہٹاتا رہتا۔ ایسا معلوم ہوتا کہ گویا خاص مقصد کو ذہن میں رکھ کر ایران کو اپنی جگہ امریکہ دیتا جا رہا ہے۔ اس لئے عراق میں جو بھی انارکی آج پھیلی نظر آتی ہے اور ایک ناکام اسٹیٹ کے طور پر یہ ملک ابھر رہا ہے اس کے لئے بنیادی طور پر صرف امریکہ اور ایران کو ذمہ دار ماننا چاہئے۔ 1980 کی دہائی میں جو ایران و عراق جنگ ہوئی وہاں سے اس انارکی کا آغاز ہوتا ہے جو گزرتے ہوئے 1990 تک پہنچتا ہے اور آخرکار 2003 اور اس کے بعد کا مرحلہ دنیا کے سامنے ہے۔ ان تمام تاریخی مراحل میں صرف یہی دو ممالک نمایاں طور پر عراق کی تباہی کے ذمہ دار نظر آتے ہیں۔ عراق کے وہ شیعی لیڈران جنہوں نے ایران کے مفاد کو اپنے ملک کے عوام جن میں شیعہ، سنی اور کْرد سبھی شامل ہیں ان کے مفادات پر ترجیح دے رکھا ہے وہی اصل میں اس قتل و خون کے ذمہ دار ہیں جس کا منظر گزشتہ ہفتہ گرین زون میں دیکھنے کو ملا۔ کرپشن اور سیاسی بے یقینی کے ماحول سے دل برداشتہ ہوکر عراقی عوام نے اپنے غصہ کا اظہار کیا ہے جس سے مزید ابتری پھیلنے کا خدشہ ہے۔ ایران کے اکثر شیعی سیاسی لیڈران وہ ہیں جنہوں نے برسوں ایران میں زندگی گزاری ہے اور ان کا ذہن خاص ایرانی رنگ سے تیار کیا گیا ہے۔ وہ ایک عرصہ تک صدام مخالف جماعت کے طور پر کام کرتے رہے۔ ان کے خاتمہ کے بعد اب بھی وہ خاص اس ایرانی رنگ سے آزاد نہیں ہوپائے ہیں اور اسی لئے یہ فرق نہیں کرپاتے کہ فارسی رنگ میں رنگی شیعیت عربوں کی شیعی فکر سے میل نہیں کھاتی۔ ایران کے تربیت یافتہ لیڈران اس قدر ’فارسی‘ رنگ میں ڈھل چکے ہیں وہ اپنا ’عربی‘ رنگ ہی پہچان نہیں پاتے اور یہی بنیادی وجہ ہے کہ عراق میں عمومی انتشار کی کیفیت پھیلی ہوئی ہے۔ عراق کے لیڈران کو سمجھنا چاہئے کہ ایران کے اثرات سے آزاد ہوئے بغیر ان کے ملک اور عوام کا فائدہ نہیں ہوگا۔ وہ خود اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں کہ جن ممالک میں بھی ایرانی اثر و رسوخ قائم ہے وہاں افلاس اور خانہ جنگی کے سوا کچھ بھی ان مقدر نہیں رہا ہے۔ جتنی جلدی انہیں یہ بات سمجھ میں آ جائے گی اتنی ہی جلد عراق کی نو آبادکاری کا کام شروع ہوسکتا ہے۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں