عبدالماجد نظامی
بہار میں ووٹر لسٹ خصوصی نظرثانی کا مسئلہ اس قدر تضادات اور قانونی لڑائی میں پھنس چکا ہے کہ اس کے پیش نظر الیکشن کمیشن آف انڈیا کو اپنے فیصلہ پر غور کرنا چاہیے اور پورے عمل کو روک کر اس روایت کی طرف لوٹ جانا چاہیے جس کے تحت ملک بھر میں ووٹر لسٹ میں ناموں کی شمولیت اور عدم شمولیت کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ ایسا کرنا خود الیکشن کمیشن کی اپنی ساکھ کے لیے بہت اچھا ہوگا اور بہار کے بے چین اور پریشان حال لوگوں کو راحت کی سانس لینے کا موقع ملے گا۔ ویسے بھی ایک ایسی ریاست میں جہاں عوام کی اکثریت نانِ شبینہ کے لیے محتاج رہتی ہے اور اپنی روزمرہ کی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے بھی انہیں سخت محنت و جفا کشی کے جاں گسل مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، ان سے یہ مطالبہ کیا جانا کہ وہ ایسے گیارہ دستاویزوں میں سے کوئی ایک اپنی اہلیتِ حقِ رائے دہی کے لیے پیش کریں جن کا انہوں نے نام تک نہیں سنا ہوگا، کسی ذہنی عذاب سے کم ان کے لیے نہیں ہوگا۔ اصلی ووٹروں کی شناخت کرنا ہمارے ملک میں اتنا بھی مشکل کام نہیں ہے کہ اس کے لیے اتنے مشکل معیار طے کر دیے جائیں۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا کو یقینا اس کا حق ہے کہ وہ ان ووٹروں کی نشان دہی کرے جس کو دستور کی طرف سے صحیح معنی میں یہ حق دیا گیا ہے کہ جب وہ اٹھارہ برس کی عمر کو پہنچ جائیں تو ان کا اندراج ووٹروں کی فہرست میں ہوجائے۔
لیکن یہ کام عام شہری کا نہیں بلکہ اسٹیٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر مستحق ووٹر کو فہرست میں شامل کرے۔ بہار میں اس وقت اسپیشل انٹنسیو ریویژن کا جو حکم الیکشن کمیشن نے جاری کیا ہے اور جس کے تحت از سر نو ووٹر لسٹ کی تیاری کے لیے عمل جاری ہے، اس کا سب سے بڑا نقص ہی یہی ہے کہ اس میں اب یہ ذمہ داری عام شہریوں پر ڈال دی گئی ہے کہ وہ خود کو دستاویزوں کی لسٹ کے ساتھ ثابت کریں کہ وہ رائے دہی کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اس حکم سے آج پورا بہار پریشان و مضطرب ہوچکا ہے۔ ہر طرف افرا تفری کا ماحول ہے۔ لوگوں میں سخت اضطراب کی کیفیت پائی جا رہی ہے اور سارے کام کاج چھوڑ کر غریب و مزدور انسانوں کو دستاویزوں کی تلاش میں سرگرداں رہنا پڑ رہا ہے۔ سرکاری افسران اور بوتھ لیول آفیسر(بی ایل او) کی بھی پریشانیاں اور دقتیں کچھ کم نہیں ہیں کیونکہ انہیں اس کام کی انجام دہی کے لیے نہایت مختصر مدت دی گئی ہے۔ خراب موسم اور گرمی و بارش کے مسائل کے باوجود شب و روز کی بھاگ دوڑ سے وہ عجیب قسم کے ذہنی و جسمانی دباؤ کو جھیلنے پر مجبور ہیں۔ عملی طور پر انہیں جو مشکلات زمین پر پیش آ رہی ہیں، ان کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ خود الیکشن کمیشن کے لیے یہ ممکن نہیں ہوپایا ہے کہ وہ اپنی جاری کردہ ہدایات کو پورے طور پر نافذ کرسکے اور ان کے مطابق ووٹر لسٹ پر خصوصی نظر ثانی کا کام انجام پائے۔ الیکشن کمیشن نے یہ ہدایات جاری کی تھیں کہ بی ایل او گھر گھر جائیں گے اور دو فارم عوام کے درمیان تقسیم کریں گے۔
اس میں سے ایک فارم بھر کر بی ایل او کو دے دیا جائے گا اور دوسرا فارم بطور ثبوت فارم بھرنے والے کے پاس رہ جائے گا۔ لیکن میڈیا کی بے شمار رپورٹوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایسا کہیں بھی ممکن نہیں ہوپایا۔ اسی طرح زمینی حقیقت سے یہ بھی پتہ چلا کہ جن دستاویزات کا مطالبہ الیکشن کمیشن نے عوام سے کیا تھا، وہ ان میں سے اکثریت کے پاس سرے سے ندارد ہیں۔ اسی وجہ سے بی ایل او حضرات کو ان کے افسران نے یہ حکم دیا کہ وہ بغیر دستاویز کے بھی فارم قبول کرلیں۔ جن کے پاس آدھار کارڈ یا ووٹر آئی ڈی جیسے کاغذات تھے، انہوں نے اسی کو منسلک کر دیا کیونکہ ان کے علاوہ دوسرا کوئی دستاویز ان کے پاس نہیں ہے۔ ایسی بھی خبریں ہیں کہ لاکھوں کی تعداد میں ایسے فارمز بھی بھرے گئے ہیں جن کے بارے میں خود ان لوگوں تک کو خبر نہیں جن کے نام سے ایسا کیا گیا ہے۔ گویا اس خصوصی نظرثانی کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جو شفافیت کے معیار پر پورا اترتا ہو۔ اس کے خلاف سیاسی پارٹیوں اور شہری حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور شخصیتوں نے جو قانونی اقدام کیا ہے، اس میں بھی اسی بات کا پتہ چلتا ہے کہ ملک کے شہریوں کے حق رائے دہی پر الیکشن کمیشن کے اس عمل سے سخت ضرب پڑے گی۔ سوال یہ ہے کہ ایسی کسی کارروائی کی آخر الیکشن کمیشن کو ضرورت کیا تھی؟ جب 70 برس سے زیادہ مدت سے جاری شدہ روایت مؤثر اور مفید ثابت ہوئی ہے تو اس پر عمل کیوں نہیں کیا جا رہا ہے؟
الیکشن کمیشن نے خصوصی نظر ثانی کے اس عمل کو اب پورے ملک میں نافذ کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے۔ کیا بہار کے تجربہ سے ان کو ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوا کہ یہ ایک مشکل اور غیر ضروری عمل ہے؟ خود این ڈی اے میں شامل بی جے پی کی اہم ترین حلیف تیلگو دیشم پارٹی کے سربراہ اور آندھرا پردیش کے وزیراعلیٰ نے باضابطہ خط لکھ کر الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس پورے عمل کو شہریت کے مسئلہ سے جوڑ کر نہ دیکھیں۔ اس قسم کے سوالات ملک کی دیگر سیاسی پارٹیوں کی جانب سے بھی اٹھائے جائیں گے۔ ایسے حالات میں کیا الیکشن کمیشن کے لیے یہ بہتر نہیں ہوگا کہ وہ اس پورے پروسیس کو روک دے اور اس بات کا انتظار نہ کرے کہ ملک گیر سطح پر اس کے اس فرمان کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوجائے۔ ویسے بھی اس مسئلہ پر ابھی سپریم کورٹ کا فیصلہ آنا باقی ہے۔ کسی حد تک28جولائی کو اس کی تصویر صاف ہوجائے گی۔ البتہ بہتر تو یہی ہوگا کہ الیکشن کمیشن خود ہی اپنے فیصلہ پر نظرثانی کرلے اور عوام کو ذہنی عذاب کے مزید مراحل سے نہ گزارے۔ ایسا کرنے کی صورت میں الیکشن کمیشن کے تئیں عوام کا اعتماد بحال ہوگا اور اس کی ساکھ گرنے سے بچ جائے گی۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]