کیا ملک شام کو ایک نئی صبح مل پائے گی؟

0

ڈاکٹر محمد ضیاء اللہ

ملک شام مسلم دنیا کا ایسا ملک ہے جس کی بڑی شاندار تاریخ رہی ہے۔ یہ اسلامی عظمت کا ایسا نشان رہا ہے کہ اس کی گلی کوچوں میں تاریخ کے اوراق جگہ بہ جگہ بکھرے ملیں گے۔ یہ مقدر نہ تو فرانس کے شہر پیرس کا رہا ہے نہ انگلینڈ کے شہر لندن کا۔ ’ہسٹری آف دی عربس‘ کے مصنف پی کے ہٹی کے مطابق جس زمانے میں بغداد و دمشق کی گلیاں اور بازار قمقموں سے روشن ہوا کرتے تھے، اس زمانے میں لندن اور پیرس کے گھروں تک کو مناسب روشنی نصیب نہیں ہوتی تھی۔ شام کا شہر دمشق جسے سب سے پہلے اموی خلافت کے بانی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس بلندی تک پہنچا دیا تھا جس کے سامنے روم و یونان کے شہنشاہوں تک کا قد اتنا بونا نظر آتا تھا کہ اموی گورنر بھی انہیں ایک معمولی حکمراں سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے، آج وہی شہر اپنی عظمت رفتہ پر ماتم کناں ہے۔ کبھی اسی ملک شام سے عبدالرحمن الداخل نام کی وہ تاریخی اموی شخصیت پیدا ہوئی تھی جو عباسیوں کے ستم سے چھپتے چھپاتے اور بھاگتے بھاگتے اندلس پہنچ گئی تھے اور وہاں اسلامی عظمت کا وہ علم بلند کیا جو آٹھ سو برسوں تک لہراتا رہا۔ گویا یہاں سے تہذیب اسلامی کو وہ عروج نصیب ہوا جو عراق کے شہر بغداد اور خلافت عباسیہ کے مرکز کے علاوہ کسی دوسرے اسلامی ملک اور شہر کو میسر نہیں ہو سکا۔ لیکن آج دونوں ملکوں یعنی عراق و شام کی جو حالت ہے اس میں تاریخ و سیاست کے ہر طالب علم کے لیے عبرت کے بے شمار اسباق دفن ہیں۔ یہ دونوں آج اس حالت میں نہیں ہیں کہ اپنی سرزمین کی وحدت کو برقرار رکھ سکیں اور اپنے پرایوں کی مداخلت سے اسے محفوظ بناسکیں۔ جہاں ایک طرف عراق میں امریکی مداخلت کے بعد مسلسل سیاسی، سماجی اور اقتصادی مسائل کا انبار لگا ہوا ہے وہیں عراقی لیڈران عراقی عوام کے مفادات کا تحفظ کرنے کے بجائے اپنے یا اپنے خارجی آقاؤں کے محدود مفادات کی حفاظت میں لگے ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں پورا ملک انارکی کا شکار ہے اور عراقی عوام اس کی سخت قیمت چکا رہے ہیں۔ سیاسی بحران کا عالم یہ ہے کہ ایک سال قبل یعنی اکتوبر 2021 میں ہی عام انتخابات کے ذریعے عوام نے اپنے نمائندوں کو چن کر ملک کے پارلیمنٹ میں بھیج دیا تھا لیکن وہاں سیاسی لیڈران کی رسہ کشی کی وجہ سے کوئی حکومت تشکیل نہیں ہو پائی اور اب یہ صورت حال ہے کہ یہ ملک دوبارہ خانہ جنگی کے منہ میں جانے کو تیار ہے۔ گرین زون میں مقتدیٰ الصدر کے حامیوں اور کولیشن فریم ورک سے وابستہ مسلح افراد کے درمیان جو جھڑپیں ہوئی ہیں، ان میں اب تک بیس سے زائد افراد جاں بحق اور سات سے زیادہ لوگ زخمی ہو چکے ہیں۔ جس ملک میں لاکھوں لوگ بے گھر ہوکر دربدر ہو چکے ہوں اور پناہ گزینی کی ذلت الگ الگ ملکوں میں جھیل رہے ہوں وہاں کی قیادت کی اس بے حسی پر صرف ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف ملک شام ہے جہاں2011 میں خانہ جنگی شروع ہوگئی تھی۔ اس خانہ جنگی نے ملک کو اس قدر تباہ کر دیا ہے کہ یقین نہیں آتا کہ کبھی اس کی اتنی قابل فخر تاریخ بھی رہی ہوگی جس کا ذکر اوپر کی سطروں میں کیا گیا ہے۔ اس خانہ جنگی میں صرف شام کے لوگ ہی آپس میں نہیں گتھے ہوئے ہیں بلکہ دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں یہاں مفادات کی زمین قائم کرنے اور ان کی حفاظت کے لیے اپنے مسلح فوجیوں کو اتار چکی ہیں۔ ایک طرف امریکہ کی فوجیں ہیں جو تیل کے ذخائر پر قابض ہوکر ان کے دفاع میں لگی ہوئی ہیں تو دوسری طرف روس ہے جس نے بڑی مشکل سے اس خطے میں قدم جمایا ہے اور ہر حال میں اس پر قائم رہنا چاہتا ہے۔ ان بڑی طاقتوں کے علاوہ ترکی، ایران اور اسرائیل کی مداخلت بھی برقرار رہتی ہے اور روز بروز اس کے کسی نہ کسی خطے پر ان میں سے کوئی نہ کوئی بمباری کرتا رہتا ہے جس کے نتیجے میں شامیوں کا خون پانی سے بھی سستا ہوکر بہتا رہتا ہے۔ اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق اب تک چار لاکھ شامی اپنی زندگیاں گنوا چکے ہیں۔ آزاد تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ مقتولین کی تعداد چار لاکھ سے متجاوز ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ پچاس لاکھ سے زیادہ آبادی بے گھر ہو کر پڑوسی اور یوروپی ملکوں میں در بدری اور پناہ گزینی کی ذلت بھری زندگی گزار رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی ہی رپورٹ کے مطابق ایک کروڑ تیس لاکھ شامیوں کی اقتصادی حالت ایسی نہیں ہے کہ وہ اپنا پیٹ بھی ٹھیک سے بھر سکیں۔ ان کے لیے بین الاقوامی کمیونٹی کی مدد کی سخت ضرورت ہے۔ لیکن دقت یہ ہے کہ عالمی غذائی بحران، مغربی افریقہ میں قحط، یمن کی ابتر حالت اور یوکرین پر روسی جارحیت کے نتیجے میں مطلوب عالمی امداد بھی نہیں پہنچ رہی ہے جس کی وجہ سے بھکمری کا ماحول ہے اور علاج ندارد۔
2011 میں شروع ہوئی خانہ جنگی کا ہی نتیجہ تھا کہ داعش جیسی جماعت پیدا ہوئی اور اس نے2014 میں عراق و شام کے بیشتر حصوں کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ امریکی صدر براک اوباما کے عہد میں امریکی فوجیں یہاں داعش کے خلاف جنگ کے لیے بھیجی گئی تھیں۔ دراصل داعش کے خلاف اس جنگ میں امریکہ نے ایک عالمی اتحاد قائم کیا تھا جس کی قیادت اس کے ہاتھ میں تھی۔ اس جنگ میں امریکہ کو فتح ملی اور ابوبکر البغدادی اور پھر اس کے خلیفہ بھی قتل کر دیے گئے اور فتح کا جشن بھی منا لیا گیا لیکن شامیوں کو وہ دن ابھی تک دیکھنا نصیب نہیں ہوا ہے۔ امریکہ کی دلچسپی ان دنوں شام میں بس اس حد تک ہے کہ وہ مشرقی شام میں واقع تیل کے ذخائر، خاص طور سے العمر آئیل فیلڈس پر قابضہوکر ان کی حفاظت کرے۔ دوسری طرف اسرائیل کے تحفظ کا سامان مہیا کروائے اور اس کے لیے ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا تنظیموں پر وقتاً فوقتاً حملے کرے۔ ان حملوں میں اسرائیل کی وہ بمباریاں بھی شامل ہیں جو شام کے اندر ہوتی رہتی ہیں اور اسی منطق کے تحت ہوتی ہیں کہ اس علاقوں میں وہ ایرانی ملیشیا تنظیمیں سرگرم عمل ہیں جن سے اسرائیل کی سیکورٹی کو خطرہ ہے۔ گویا امریکہ اور اسرائیل ایک ہی مشترک دشمن (ایران) کو بہانہ بناکر حملے کرتے ہیں اور جنگ کا سلسلہ رکنے نہیں دیتے۔ یہ اور بات ہے کہ گزشتہ دو برسوں سے شام میں جنگ کی وہ شدت اب برقرار نہیں جو 2015 میں روس کی آمد سے قائم ہوگئی تھی۔ بشار الاسد جب مقامی مسلح جماعتوں کے خلاف جنگ ہار رہے تھے تب انہوں نے روس اور ایران سے مدد مانگی تھی اور انہیں اس جنگ میں کامیابی بھی مل گئی۔
اب تقریباً پورا شام ایک بار پھر بشار الاسد کے کنٹرول میں ہے۔ صرف شام کا شمالی حصہ ادلب بشار الاسد کے قبضے سے باہر ہے۔ یہاں بشار مخالف مسلح جماعتیں اور ترکی کی حمایت یافتہ اپوزیشن فورسز کا کنٹرول ہے۔ ترکی کی فوجوں کا مقابلہ اس خطے میں زیادہ تر کرد مسلح جماعت وائی پی جی کے ساتھ رہتا ہے جس کو ترکی دہشت گرد جماعت مانتا ہے اور اس کے وجود کو اپنی سیکورٹی کے لیے خطرہ تصور کرتا ہے۔ واضح رہے کہ وائی پی جی کا تعلق کرد تحریک پی کے کے سے ہے جو ایک الگ کرد ریاست کے قیام کے لیے کوشاں ہے۔ اس کے لیڈر عبداللہ اوگلان کئی برسوں سے ترکی کے جیل میں بند ہیں۔ ترکی نے پی کے کے اور وائی پی جی دونوں کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں ڈالا ہے جبکہ امریکہ اپنے ناٹو حلیف ترکی کے ساتھ اتفاق نہیں رکھتے ہوئے صرف پی کے کے کو ہی دہشت گرد مانتا ہے۔ امریکہ کی دلیل یہ ہے کہ وائی پی جی نے داعش کے خلاف جنگ میں بڑا کردار ادا کیا ہے، اس لیے اس کو دہشت قرار نہیں دے سکتے۔ اس کی وجہ سے امریکہ و ترکی کے درمیان کشیدگی برقرار رہتی ہے جس کا عکس ناٹو میں نئے ممبران کی شمولیت پر بھی پڑا تھا اور امریکہ نے ایف-16 ترکی کے ہاتھوں فروخت کرنے سے منع کر دیا تھا۔ اس کے جواب میں ترکی نے امریکہ کے ازلی حریف روس سے S-400 کا سودا کرلیا جس کی وجہ سے تلخیوں میں مزید اضافہ ہوگیا۔ شام کے تعلق سے ترکی کے دو مسائل ہیں: ایک تو ان شامیوں کو وہاں بسانا جو ترکی میں پناہ گزیں ہیں، دوسرے وائی پی جی کے وجود کو ختم کرنا تاکہ ترکی کی سیکورٹی کو لاحق خطرہ سے نجات ملے۔
اب تک بشار الاسد کے بارے میں اردگان کا موقف یہ رہا ہے کہ بشار الاسد کے لیے شام کے سیاسی مستقبل میں کوئی جگہ نہیں ہے اور ان کو جانا ہی ہوگا، کیونکہ ان پر خود اپنے عوام کے خلاف کیمیائی ہتھیار تک استعمال کرنے کا الزام ہے جو کہ جنگی جرائم میں شمار ہوتا ہے۔ لیکن حالیہ دنوں میں روس کے مشورے پر لگاتار یہ اشارے مل رہے ہیں کہ شاید اب بشار الاسد کے ساتھ گفتگو ہوسکتی ہے اور ان کے بغیر شام کا سیاسی مستقبل طے نہیں ہوگا۔ اگر ایسا ہوتا بھی ہے تو بشار الاسد کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ برقرار رہے گا کہ وہ شام میں باز آبادکاری کا کام کیسے انجام دیں گے؟ کیونکہ امریکہ اور یوروپ کو اب شام میں اتنی دلچسپی نہیں رہی اور روس کی مالی حالت ایسی نہیں ہے کہ وہ شام کی باز آبادکاری کے لیے مطلوب 250 ارب ڈالر کا انتظام کرے۔ سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے واضح طور سے امریکہ کو شام کے مسئلے سے الگ کر لیا تھا لیکن جو بائیڈن نے واضح الفاظ میں کچھ کہا نہیں ہے۔ البتہ ایران کے حامیوں کے ساتھ اس کی نورا کشتی جاری رہتی ہے۔ یوروپ کا معاملہ یہ ہے کہ وہ یوکرین کی وجہ سے خود بڑے مسائل سے دوچار ہے اور شام کی طرف توجہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ خود بشار الاسد کے وجود کو امریکہ اور یوروپی ممالک کبھی قبول نہیں کریں گے جس کی وجہ سے شام کو دوبارہ آباد کرنے کے لیے مطلوب فنڈ کی فراہمی میں مشکلات پیش آئیں گی۔ ایسی صورت میں شام ایسے دو راہے پر کھڑا ہے جہاں سے اس کی جہت کو طے کر پانا مشکل معلوم ہوتا ہے۔ شام و عراق اور لیبیا و تیونس و مصر کا تجربہ یہ بھی بتاتا ہے کہ اب اسلام کے نام پر ہتھیار کے ذریعے انقلاب پیدا کرنے والوں کو بھی اپنی حکمت عملی پر از سر نو غور کرنا ہوگا اور یہ سمجھنا ہوگا کہ ہتھیار سے انقلاب کا دور ختم ہو چکا ہے۔ اگر اس فکر کو مسلم نوجوانوں کے ذہن میں راسخ کر پائیں تو بہت سی قیمتی جانوں کو بچاکر علم و فکر کی بنیاد پر معاشرے کی تشکیل کی جا سکتی ہے۔ اب تک مسلح تجربہ یہی بتاتا ہے کہ اس سے صرف قبریں اور کھنڈرات تیار ہوتے ہیں، زندگیاں اور ملک دونوں تباہ ہو جاتے ہیں۔ اگر جدید مغربی سامراج کا مقابلہ کرنا ہے تو اس کے لیے جنگ کی نوعیت میں تبدیلی بہت ضروری ہے۔ n
(مضمون نگار سنٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS