کیا ٹرمپ کو رام کرپائیں گے مودی؟

0

ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی ایک بار پھر امریکہ کے دورے پر پہنچ چکے ہیں اور امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے ملاقات کے بے صبری سے منتظر ہیں۔مودی ٹرمپ کو اپنا بہترین دوست قرار دیتے ہیں،لیکن سوال یہ ہے کہ ٹرمپ انہیں کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ اس کا جواب اس حقیقت میں پوشیدہ ہے کہ ٹرمپ کی حلف برداری کی تقریب میں مودی کو مدعو نہیں کیا گیا تھا۔

مودی ہمیشہ ٹرمپ کے ساتھ قریبی تعلقات کے دعوے کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ عملی طور پر اپنے ملکی مفادات کو فوقیت دیتے ہیں۔ اس کا واضح مظاہرہ اس وقت دیکھنے کو ملا جب ٹرمپ نے ہندوستان سے درآمد ہونے والی اسٹیل اور ایلومینیم پر بھاری محصولات عائد کردیے۔ حالانکہ مودی نے اپنے پہلے دورۂ امریکہ میں ٹرمپ کو ’دوست‘ کہہ کر گلے لگایاتھا،لیکن اس کے بدلے میں انہیں امریکی منڈی میں تجارتی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر بھی ہندوستانی حکومت کی جانب سے کوئی شدید احتجاج سامنے نہیں آیا۔

اب کی بار بھی مودی کا دورہ ایسے وقت میں ہورہا ہے جب امریکہ کی تجارتی پالیسی مزید سخت ہوچکی ہے۔ ٹرمپ کی خواہش ہے کہ امریکی مصنوعات دنیا بھر میں بغیر کسی رکاوٹ کے فروخت ہوں اور اس کیلئے وہ دیگر ممالک پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔ ہندوستان کو بھی اسی دباؤ کا سامنا ہے اور امریکی صدر نے کئی مواقع پر ہندوستان پر زیادہ کسٹم ٹیرف لگانے کا الزام عائد کیا ہے۔ حالیہ دنوں میں امریکہ نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ اگر ہندوستان عالمی تجارت میں ڈالر کے علاوہ کسی اور کرنسی کا استعمال کرے گا تو اسے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس کے باوجود مودی حکومت نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور ٹرمپ کو خوش کرنے کیلئے مختلف اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

یہاں یہ بھی قابل غور ہے کہ ٹرمپ کے دوسرے دور صدارت میں ہندوستان کو کسی باضابطہ اتحادی کے طور پر تسلیم نہیں کیا گیا بلکہ اسے محض ایک تجارتی پارٹنر کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اگرچہ مودی کا مؤقف ہمیشہ یہ رہا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ گہرے تعلقات چاہتے ہیں لیکن ٹرمپ کی خارجہ پالیسی میں ہندوستان کی حیثیت زیادہ اہم نہیں دکھائی دیتی۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس ملاقات کے دوران بھی ٹرمپ کے دیگر اہم جغرافیائی سیاسی معاملات زیادہ توجہ حاصل کر سکتے ہیں جبکہ ہندوستان کی محتاط پالیسی اس صورت حال سے مطابقت نہیں رکھتی۔

جہاں امریکہ اور ہندوستان کے تعلقات کی یہ ایک نازک گھڑی ہے، وہیں ٹرمپ کا غیر متوقع رویہ بھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ٹرمپ عملی فوائد کے مقابلے میں اتحاد اور دوستی کے مظاہروں کو کم اہمیت دیتے ہیں اور یہ بات ہندوستان کیلئے باعث تشویش ہوسکتی ہے۔ اگرچہ مودی ٹرمپ کو بہترین دوست قرار دیتے ہیں اور ان کی خوشنودی کیلئے کئی رعایتیں دینے پر آمادہ ہیں لیکن ٹرمپ کی پالیسیوں میں ایسی کوئی ضمانت نہیں کہ وہ ہندوستان کے مفادات کو یکسر نظرانداز نہیں کریں گے۔اس دورے کے ممکنہ نتائج پر غور کیا جائے تو بظاہر ہندوستان کو امریکہ کے ساتھ مزید تجارتی تعلقات بڑھانے کا موقع ملے گا لیکن اس کے بدلے میں امریکہ کی طرف سے مزید دباؤ بھی آئے گا۔ اس دباؤ کی چند جھلکیاں ہم پہلے ہی دیکھ چکے ہیں جیسے کہ نیوکلیئر لائیبلٹی ایکٹ میں متوقع ترامیم، امریکی مصنوعات پر محصولات میں کمی اور ہندوستانی مارکیٹ میں امریکی کمپنیوں کی زیادہ رسائی۔ مزید برآں غیر قانونی ہندوستانی تارکین وطن کی واپسی کے معاملے پر بھی امریکہ کا سخت رویہ برقرار رہے گا اور ہندوستان کو اس پر زیادہ مزاحمت کا موقع نہیں دیا جائے گا۔

مزید برآں اس دورے میں وزیراعظم مودی کی ایک غیر رسمی مگر اہم ملاقات ایلون مسک کے ساتھ بھی متوقع ہے۔ مودی کے پہلے دورۂ امریکہ میں ٹیسلا فیکٹری کے وزٹ کو دیکھتے ہوئے یہ قیاس کیا جا رہا ہے کہ ان کے درمیان برقی گاڑیوں اور توانائی کے شعبے میں تعاون کے حوالے سے گفتگو ہو سکتی ہے۔

یہ دورہ اس بات کا بھی امتحان ہوگا کہ ہندوستان کتنی مہارت سے اپنی اقتصادی اور جغرافیائی سیاست کو متوازن رکھ سکتا ہے۔ اگر مودی ٹرمپ سے تجارتی خسارہ کم کرنے، امریکی محصولات کے خاتمے اور ہندوستان کیلئے بہتر اقتصادی شرائط حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیںتو یہ ایک بڑی کامیابی ہوگی۔ تاہم اگر یہ ملاقات محض رسمی بیانات اور تجارتی سمجھوتوں تک محدود رہتی ہے تو ہندوستان کو طویل المدتی اقتصادی اور سفارتی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS