ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ
ملک شام میں چودہ برسوں تک بشار الاسد کے جرائم کے خلاف مسلسل جنگ کے بعد انقلابی عناصر کو کامیابی نصیب ہوئی تو یہ امید کی جانے لگی تھی کہ ماضی کی تمام تلخیوں کو مٹاکر شام کے سارے طبقات و اطیاف کو واحد مقصد کے تحت جمع کیا جائے گا اور ایک نئی قوت و جوش کے ساتھ ملک کی تعمیر نو کا آغاز کیا جائے گا تاکہ تباہ شدہ معاشرہ و اقتصاد اور بے گھر ہونے والے شامیوں کو زندگی کی نئی رمق عطا کی جا سکے اور جس بہتر مستقبل کا خواب لے کر انقلابی فورسز نے اپنا مشن شروع کیا تھا اس کی تکمیل کا انتظام ہوپائے۔ شام کے نئے صدر احمد الشرع نے اس سلسلہ میں شاندار کوششوں کا آغاز بھی کیا اور بہت سے مثبت اقدامات کئے جن میں اسد نظام کے لئے کام کرنے والوں کی عام معافی، ملک گیر سطح پر کانفرنس کا انعقاد کرکے تمام طبقوں کو اکٹھا کرنا اور ان کی رائے لینا، نئے دستور کی تیاری کے لئے کمیٹی کی تشکیل کا عمل جیسے بیشمار کام شامل ہیں۔
لیکن شاید اسرائیل کو یہ بات پسند نہیں آ رہی ہے کہ ملک شام کو کامیابی اور استقرار نصیب ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل نے شام کے خلاف جنگ کا محاذ اسی دن سے کھول رکھا ہے جس دن شام کے انقلابیوں کو دمشق پر فتح حاصل کرنے میں کامیابی ملی تھی اور بشار الاسد کو روسی مدد سے ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑا تھا۔ اب اسرائیل کی طرف سے مسلسل یہ کوشش ہو رہی ہے کہ شام کی نئی حکومت کو گرا کر شام کی زمینوں پر قبضہ جما لیا جائے۔ اسرائیل کا دعوی یہ ہے کہ اس کا یہ ملٹری آپریشن اس لئے ضروری ہے تاکہ شمالی اسرائیل میں بسے ہوئے آبادکاروں کو مستقبل میں ‘‘طوفان اقصی’’ جیسے حملوں سے بچایا جا سکے۔ لیکن اس منطق کو بیان کرتے ہوئے نتن یاہو اور ان کے مددگاروں نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ کس حد پر جاکر ان کا یہ آپریشن رکے گا اور بشار الاسد کے فرار ہونے کے فورا بعد سے شام میں اسرائیل کی طرف سے جاری توسیع پسندی پر مبنی ملٹری آپریشن کی نوعیت کیا ہے؟ کیونکہ حقیقت تو یہ ہے کہ جس شب کو شامی انقلابیوں نے دمشق پر اپنی گرفت مضبوط کی تھی اسی رات سے وہاں اسرائیل کی جارحیت کا سلسلہ جاری ہے۔ شامی فوج کے اسلحوں کو نشانہ بنایا گیا، فوجی ٹھکانے تباہ کئے گئے اور جنگی سازو سامان کو بھی نیست و نابود کر دیا گیا۔
یہاں تک 1974 کے معاہدہ کے مطابق گولان کا وہ علاقہ جس کو کسی بھی جھڑپ سے خالی ہونا چاہئے تھا اسرائیل اس کو بھی تجاوز کر گیا ہے اور قنیطرہ و درعا کے علاقوں پر قابض ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ شمال میں اسرائیلی توسیع کا دائرہ بڑھتے بڑھتے دمشق کے مغرب میں واقع جبل الشیخ تک پہنچ گیا ہے۔ ابھی حال ہی میں نئی حکومت نے جب شامی ڈائیلاگ کانفرنس کا انعقاد کیا تھا تو اس موقع پر بطور خاص اسرائیل کے اس توسیعی مشن کی مذمت کی گئی تھی اور اسرائیل کے اس عمل کو شام کی سیادت و بالادستی کی کھلی مخالفت سے تعبیر کرتے ہوئے اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ فوری اور غیر مشروط طور پر شامی زمینوں سے باہر چلا جائے۔ لیکن نتنیاہو نے اس کے جواب میں شام کے جنوبی حصے اور دمشق کے آس پاس کے علاقوں پر بمباری شروع کردی اور یکطرفہ یہ اعلان کر دیا کہ جنوبی اضلاع مثلا قنیطرہ، درعا اور سویدا ہتھیاروں سے پاک رہیں گے۔ اس کا مطلب شام کے سپاہی وہاں تعینات نہیں ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ یہ شام کے داخلی معاملوں میں کھلی مداخلت ہے۔
اس کے علاوہ اس خطہ میں اپنے وجود کے جواز کے لئے اسرائیل نے ایک دوسرا بہانہ یہ وضع کر لیا ہے کہ وہ دروز طبقہ کی حفاظت کر رہا ہے اور مقبوضہ فلسطین میں ان کو روزگار فراہم کرنے کے لئے ان کی خاطر کام کاج کا دروازہ کھولا جائے گا۔ واضح رہے کہ دمشق کے مشرق میں واقع جرمانا شہر میں دروز اسلحہ برداروں نے جب اپنی حرکت شروع کی تھی تو اس کی پشت پر بھی اسرائیل کی حمایت ہی تھی۔ اسرائیل نے شام کی نئی حکومت کو خبردار بھی کیا تھا کہ ان مسلح دروز ملیشیا کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرے۔ اسرائیل کا گمان تھا کہ وہ شامی دالحکومت میں دروز کی حمایت کے لئے مداخلت کرے گا۔ لیکن شام پر اس دھمکی کا کوئی اثر نہیں ہوا اور دروز ملیشیا کو سبق سکھاکر ملک میں امن و ضبط کو بحال کر دیا گیا۔
شام کی نئی حکومت کو صرف اسرائیل کی شکل میں ہی چیلنج درپیش نہیں ہے۔ ایک طرف شام کے جنوب اور مغرب میں دروز کی حمایت و تحفظ کے بہانہ اگر صہیونی فوج موجود ہے تو دوسری طرف امریکی فوج نے شام کے مشرقی حصہ پر قبضہ جما رکھا ہے اور اس کے لئے بہانہ کرد اقلیت کی حمایت کو بنایا ہوا ہے۔
اس کی وجہ سے ترکی و امریکہ کے تعلقات میں بھی تناؤ کی کیفیت بنی رہتی ہے۔ ان دونوں طاقتوں نے مل کر شام کی نئی قیادت کو الجھا رکھا ہے تاکہ وہ اپنی قوت کو اکٹھا کرکے اپنے ملک کی مکمل آزادی کا انتظام نہ کر پائے۔ دراصل معاملہ یہ ہے کہ اسرائیل کو شام کے اسلام پسند حکمرانوں سے خطرہ محسوس ہونے لگا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ 1948 سے لے کر اب تک اس محاذ پر اسرائیل کے امن و امان کا جو ہالہ قائم تھا وہ اب ٹوٹ چکا ہے اور اسی لئے ترکی کے حمایت یافتہ سنّی عرب کو وہ اپنے مستقبل کے لئے سخت خطرہ تصور کر رہا ہے۔ حالانکہ اس کے خلاف کسی طرح کی محاذ آرائی یا عداوت کی اب تک نہ تو کوئی نیت پائی جا رہی ہے اور نہ ہی اس کا کسی طور پر کوئی اعلان کیا گیا ہے۔ اس کے باوجود اسرائیل نئی صورتحال کو بدلنا چاہتا ہے اور انقلاب شام کا گلا گھونٹنے کے درپے ہے۔ اب چونکہ اسرائیل کے پاس اس وقت اثر و نفوذ کے ایسے وسائل شامی زمین پر موجود نہیں ہیں جن پر بھروسہ کرکے وہ اپنے مقاصد حاصل کر سکے اس لئے اس نے فوجی کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور جاسوسوں کے خلیے تیار کرنے پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے تاکہ مستقبل میں ان کا استعمال کرکے شام میں بدامنی پھیلانے کا کام لیا جا جا سکے۔ اسرائیل میں ایسا کرنے کی جرأت اس لئے پیدا ہوگئی ہے کیونکہ اس کو یہ وہم ہوگیا ہے کہ امریکہ نے اس کو آدھا ملک شام ہڑپ لینے کا اشارہ دے رکھا ہے۔
گویا ایک طرف ٹرمپ کی نظر پنامہ، کناڈا، گرین لینڈ اور غزہ پر ٹکی ہوئی ہے تو دوسری طرف اسرائیل کی خواہش ہے کہ شام کی 36 خط عرض تک قابض ہونے کا جو مقدس خواب اس نے برسوں سے پال رکھا ہے اس کو پورا کر لیا جائے، لیکن شاید اسرائیل کو یہ اندازہ قطعا نہیں ہے کہ شام کی زمینی صورتحال ان صہیونی اوہام و خرافات کو نافذ کرنے کی اجازت اس کو قطعا نہیں دیتے۔ بھلا جس زمین پر لاکھوں کی تعداد میں ایسے انقلاب پسند موجود ہوں جنہوں نے 14 برسوں تک اسد جیسے جنگی مجرم کے مظالم کا مقابلہ کرکے اس کو شکست سے دوچار کیا ہو کیا وہ اس بات کو قبول کرلیں گے کہ اسرائیل ان کی زمینوں پر غاصبانہ قبضہ جما لے۔
یہ ٹھیک ہے کہ کچھ ایسی اقلیتیں شام میں اس وقت موجود ہیں جو سنی عرب کو پسند نہیں کرتی ہیں اور ان کا تعاون اسرائیل کو مل سکتا ہے لیکن اسرائیل و امریکہ کی جنگ لڑنے کے لئے یہ بشری تعداد کافی نہیں ہے۔ اس کے برعکس بڑی اکثریت غاصبانہ قبضہ کو ناپسند کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ و اسرائیل جن اقلیتوں پر تکیہ کر رکھے ہیں وہ ان کے پلان کو نافذ کرنے میں موثر آلہ کار نہیں بن پائیں گے۔ کیونکہ ان اقلیتوں کو بھی یہ خطرہ صاف نظر آتا ہے کہ وہ خیانت کرنے والوں کی فہرست میں شمار کئے جائیں گے اور ان کا مستقبل تاریک ہو جائے گا۔
اسرائیل کو یہ سمجھنا چاہئے کہ شام اس حد تک کمزور نہیں ہے کہ اس کو لقمہ تر سمجھ کر نگل جائے۔ اسد کے دور کے جن اسلحوں اور ذخیروں کو اس نے تباہ کیا ہے اس سے نئی حکومت کو کوئی خاص فرق نہیں پڑنے والا ہے کیونکہ یوکرین اور غزہ کی جنگ نے یہ ثابت کیا ہے کہ روایتی ٹینکوں اور اسلحوں کی کوئی خاص اہمیت باقی نہیں رہ گئی ہے۔ غزہ نے تو بطور خاص یہ ثابت کیا ہے کہ جو قوم جذبہ شہادت سے سرشار ہو کر اپنے وطن کی حفاظت کرتی ہو اس کو شکست دینا کتنا مشکل ہے۔
اگر غزہ پر حصار در حصار کا سلسلہ نہ ہوتا تو اسرائیل کو مزید شرمناک شکست سے دوچار ہونا پڑتا۔ غزہ کے مقابلہ میں شام کے انقلابیوں کا تجربہ اور ان کے جنگجوؤں کی تعداد دونوں ہی بہت زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ وہ جنگ کے جدید ترین آلات کے استعمال کا ہنر رکھتے ہیں۔ ان کے لئے امداد کے بہتر راستے بھی موجود ہیں۔ اگر یہ جنگ شام پر تھوپی گئی تو سوویت یونین کے افغان جنگ کا نتیجہ اسرائیل کو دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ اسرائیل اور امریکہ دونوں ہی اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے کہ شام کی موجودہ حکومت کو ترکی کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ ترکی کو یہ کبھی قبول نہیں ہوگا کہ شام میں بد امنی اور انارکی کا ماحول پیدا ہو۔ کیونکہ ایسی صورت میں خود ترکی کا امن متاثر ہو جائے گا۔ اس لئے وہ ہر حال میں شام کو عدم استقرار کے انجام سے بچائے گا۔ امریکی حمایت میں جو کرد سرکشی جاری ہے اس کا خاتمہ بہر صورت کیا جائے گا ورنہ شام کا مستقبل خطرہ میں پڑ جائے گا۔ ترکی اور شام دونوں کے مفادات اس حد تک آپس میں گتھے ہوئے ہیں کہ دونوں کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔ ترکی نے فرات کے مشرق میں کرد کے خلاف جو آپریشن جاری کر رکھا تھا اس کو وقتی طور پر صرف اس لئے روک دیا ہے کیونکہ وہ امریکہ کے ساتھ بات چیت کرکے اس کو شام سے نکلنے اور کرد اور اس کی مسلح جماعت قسد کی حمایت سے باز آنے کے لئے راضی کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔
اس کا پورا امکان ہے کہ امریکہ اس بات کے لئے راضی بھی ہوجائے گا۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو پھر ترکی کی طرف سے کھلی جنگ کا اعلان ہوگا اور کرد اس کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔ لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کا شامی اقلیت والا کارڈ اتنا ہی بے معنی ہے جتنا کہ کرد کی حمایت کا امریکی بہانہ۔ جلد یا بہ دیر اس کو ختم ہوجانا ہے۔ اس لئے اسرائیل کو چاہئے کہ شام کی زمینوں سے واپس لوٹ آئے اور نئی حکومت کو کمزور اور بے حیثیت بنانے کے اپنے ایجنڈہ سے باز آ جائے کیونکہ اس کا توسیعی پلان یہاں بالکل کامیاب نہیں ہوگا۔
(مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں)