اسد مرزا
اسرائیل پر حماس کے حملے کی پہلی برسی سے صرف ایک ہفتہ قبل، ایران کی طرف سے داغے گئے میزائلوں سے اسرائیل میں کھلبلی مچ گئی۔ یہ ایرانی حملہ لبنانی مسلح گروپ حزب اللہ کے سربراہ اور تہران کے اہم اتحادی حسن نصر اللہ کے اسرائیلی قتل کے بدلے میں آیاتھا۔اس کے بعد اسرائیل نے ایران پر حملہ کرنے کا عزم کیا تھا لیکن ایرانی حملے کے تقریباً 15دن بعد بھی ابھی تک اسرائیل کی جانب سے جوابی کارروائی کے کوئی آثار نظر نہیں آئے ہیں اور اس دوران عالمی سطح پر سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ کیا اسرائیل ایران پر حملہ کرنے کی جرأت کرے گا یا نہیں۔
یکم اکتوبر کو ایران کے میزائل حملے کے بعد، اسرائیل نے جوابی حملے کا ’وعدہ‘ کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ اسلامی جمہوریہ ایران کے لیے ’مہلک، تکلیف دہ اور حیران کن‘ ہوگا۔ تاہم، بیان بازی کے باوجود، اسرائیل نے ابھی تک اپنے وعدے کے مطابق جوابی کارروائی نہیں کی ہے، جس سے یہ سوال اٹھ رہے ہیں کہ آیا اسرائیل ایران جیسے طاقتور ملک کے خلاف ایسی جنگ کرنے کی صلاحیت یا عزم رکھتا ہے جس کے پاس جوہری ہتھیار ہونے کا شبہ ہے۔ہو سکتا ہے کہ اسرائیلی ابھی بھی ایران پر حملے کے ’’کامل‘‘ طریقہ کار پر غور کر رہے ہوں، کیونکہ اسرائیل چاہتا ہے کہ یہ حملہ ’’انتہائی تباہ کن‘‘ ہو تاکہ پوری دنیا کو پیغام دیا جا سکے، یا ہو سکتا ہے کہ اس کے سب سے بڑے اتحادی اور سرپرست -امریکہ کی طرف سے اسے یہ حملہ نہ کرنے کی صلاح دی جارہی ہو۔ مزید یہ کہ اس طرح کے کسی بھی اقدام کے لیے اسرائیل کو جس سب سے بڑے چیلنج کا سامنا ہے وہ ہے ایک ایرانی’’غیر مرئی دیوار‘‘ہے، جو کہ ایران کا مضبوط فضائی دفاعی نظام ہے۔
ایسے کسی ممکنہ حملے کے خلاف اسرائیل کے کٹر اتحادی- امریکہ نے تشویش کا اظہار کیا ہے جبکہ عرب ممالک کھلے عام کہہ چکے ہیں کہ وہ ایران کے خلاف حملے کے لیے اپنی فضائی حدود یا زمین استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ صدر جو بائیڈن نے 9 اکتوبر کو صحافیوں کو بتایا کہ امریکہ ایران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملوں کی حمایت نہیں کرے گا۔مزید یہ کہ اس وقت اسرائیل مشرق وسطیٰ میں کئی محاذوں پر خونریز جنگ لڑ رہا ہے، جن میں غزہ، یمن، شام اور لبنان شامل ہیں اور اس نے اپنے اتحادیوں کو اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹتے دیکھا ہے، ایسے میں ایران کے خلاف کوئی نیا محاذِ جنگ شروع کرکے اپنی مشکلات میں اضافہ نہیں کرنا چاہے گا۔ کیونکہ اسرائیل-ایران تنازع پورے خطے میں ایک مکمل جنگ کی صورت میں نکلے گا اور ممکنہ طور پر تیسری عالمی جنگ کا محرک بھی بن سکتا ہے۔ ایرانی حملے کا بدلہ لینے کے لیے اسرائیل کے پاس دو راستے ہیں، یا تو وہ ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرے یا پھر ایرانی تیل کی تنصیبات پر حملہ کرے۔ ساتھ ہی وہ ایران کے فوجی اڈے، اس کا فضائی دفاعی نظام اور میزائل لانچ کرنے کی صلاحیتوں کو بھی اپنا بنیادی ہدف بناسکتا ہے۔ تاہم، اگر اسرائیل کے لڑاکا طیارے ایرانی فضائی حدود میں داخل ہونے اور اس کی میزائل صلاحیتوں کو تھوڑی دیر کے لیے ناکارہ بنانے میں کامیاب ہو جائیں، تب بھی اس کا سب سے بڑا اثاثہ یعنی کہ ایران کی جوہری صلاحیتیں محفوظ رہیں گی۔
درحقیقت ایران نے اپنے اہم فوجی اور جوہری مقامات کی حفاظت کے لیے ایک مضبوط فضائی دفاعی نظام تیار کررکھا ہے۔ اس میں روسی ساختہ S-300، SA-22 اور ایران کے اپنے خرداد- 15 اور-373 Bavar جیسے جدید نظام اور اسلحہ شامل ہیں۔ ان فضائی دفاعی نظام کی مدد سے ایران کی فضائی حدود کو انتہائی محفوظ تصور کیا جاتا ہے اور ان پر کوئی بھی حملہ اسرائیلی فضائیہ کے لیے ایک بڑا چیلنج ثابت ہوسکتا ہے۔ ایران کے فضائی دفاعی نظام میں سب سے اہم نظام روس سے ملنے والا S-300 ہے۔ یہ نظام 100 میل (160 کلومیٹر) دور سے لڑاکے طیاروں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اور یہ درجنوں میزائل بیک وقت متعدد اہداف پر فائر کر سکتا ہے، جو آواز کی رفتار سے 5گنا زیادہ تیزی سے اڑتا ہے۔اس ایرانی صلاحیت کی وجہ سے اسرائیلی لڑاکا طیاروں کے لیے اسے چکما دینا مشکل ثابت ہو سکتا ہے۔ تاہم، اگر اسرائیل کو ان سسٹمز کی صحیح جگہ کا علم ہو جائے تو اس کے لڑاکا طیارے S-300 کی حد سے باہر رہتے ہوئے حملہ کر سکتے ہیں۔
اس کے علاوہSA-22 سسٹم کی بآسانی نقل و حرکت اسے مزید خطرناک بناتی ہے۔ یہ نظام ٹرکوں پر نصب ہے، جس سے اسے کہیں بھی آسانی سے تعینات کیا جا سکتا ہے۔ یہ 40 ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کرنے والے طیاروں کو مار گرانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مزید برآں، ایران کے پاس خرداد- 15 اور باوار- 373 جیسے جدید نظام بھی ہیں جو پرانے سوویت SA-6 سسٹم پر مبنی ہیں۔ یہ تمام نظام مل کر ایران کی فضائی حدود کو مزید محفوظ بناتے ہیں۔اسرائیل کے پاس F-35 جیسے جدید ترین اسٹیلتھ لڑاکا طیارے ہیں، جو ایران کے ریڈار سسٹم سے بچنے کے قابل ہوسکتے ہیں۔ تاہم، اگر یہ طیارے بڑے بموں کے ساتھ اڑتے ہیں، تو ان کی ساخت بدل جاتی ہے اور ان کے وزنی ہونے کی وجہ سے ان کا ریڈار پر پتہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس سے اسرائیلی پائلٹوں کے لیے چیلنج بھی بڑھ جاتا ہے۔
مزید یہ کہ اسرائیل، امریکہ کے کہنے کے باوجود ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ تاہم، ماہرین کے مطابق، ان میں سے 90 فیصد سے زیادہ تنصیبات گہری زیر زمین واقع ہیں، جس کی وجہ سے اسرائیلی فضائی حملے کے ذریعہ ان کو تباہ کرنا ناممکن ہے، حتیٰ کہ ان بنکر بسٹر بموں سے بھی جو کہ اسرائیل نے حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کو قتل کرنے کے لیے استعمال کیے تھے۔اسرائیل کے لیے ایک اور چیلنج ہے۔ اسرائیل ایران کی بنیادی جوہری تنصیبات سے ایک ہزار میل (1,600 کلومیٹر سے زیادہ) دور ہے۔ ان مقامات تک پہنچنے کے لیے اسرائیلی طیاروں کو سعودی عرب، اردن، عراق، شام اور ممکنہ طور پر ترکی سمیت کئی ممالک کی فضائی حدود سے گزرنا ہوگا۔ ان میں سے بیشتر ممالک پہلے ہی اس معاملے پر اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کے تعاون سے انکار کر چکے ہیں۔ایک اور چیلنج ان طیاروں کا ایندھن کا مسئلہ بھی ہے۔ یو ایس کانگریشنل ریسرچ سروس کی ایک رپورٹ کے مطابق،اسرائیلی طیارے اپنا تمام فضائی ایندھن استعمال کرتے ہوئے ایرانی اہداف تک جاکر واپس اسرائیل آنے تک ہی کامیاب ہوسکتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی وہ کسی بھی دوسرے طریقے کی فضائی لڑائی میں ایندھن کی وجہ سے حصہ نہیں لے سکتے اور ساتھ ہی ایسے کسی حملے میں کسی بھی غلطی کی گنجائش نہیں رہ پائے گی۔ اور مزید، اس کے لیے تقریباً 100 طیاروں کے ایک اسٹرائیک گروپ کی ضرورت ہوگی، جو اسرائیل کے 340 جنگی تیار طیاروں کا تقریباً ایک تہائی ہے۔
نیز، اسرائیل کو ایران کے دو بنیادی جوہری افزودگی کے مقامات کو ختم کرنے یا تباہ کرنے میں ایک بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ نتنز میں ایران کی ایندھن کی افزودگی کی بڑی تنصیبات گہرائی میں زیر زمین دفن ہے، جب کہ فورڈو میں دوسری سب سے بڑی جگہ ایک پہاڑ میں بنائی گئی ہے۔ انہیں تباہ کرنے کیلئے ایسے ہتھیاروں کی ضرورت ہوگی جو پھٹنے سے پہلے کئی میٹر چٹان اور مضبوط کنکریٹ کوریزہ ریزہ کرکے اپنے اہداف تک پہنچ سکیں۔اسرائیل نے ایسے بنکر بسٹر بموں کا حال ہی میں استعمال کیا تھا، جن میں 2,000 پاؤنڈ وزنی GBU-31 بم بھی شامل تھے، جنہیں اس کی فضائیہ نے 27 ستمبر کو بیروت میں چار عمارتوں پر گرایا، جس میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ ہلاک ہوئے تھے۔تاہم، اسرائیلی رپورٹس نے اشارہ کیا ہے کہ اس حملے میں 80 بم استعمال کیے گئے تھے اور یہ شبہ ہے کہ ایسا ہی حملہ ایران کے زیادہ مضبوط جوہری مقامات کو تباہ کرنے کے لیے کافی ہوسکتا ہے،جبکہ اس کے امکان بہت کم ہیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ ممکنہ طور پر کام کرنے کے قابل واحد روایتی ہتھیار GBU-57A/B Massive Ordnance Penetrator (MOP) بم ہے، جیسا کہ اخبار فنانشل ٹائمز نے رپورٹ کیا ہے،لیکن یہ بم B-2 بمبار طیارے سے ہی گرائے جاسکتے ہیں، جس کے لیے اسرائیل کو امریکہ کے ساتھ مشترکہ حملے کرنے ہوں گے۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ ایران پر حملہ کرنے میں براہ راست ملوث ہونے کے لیے تیار ہوگا؟ کیونکہ اس اقدام کے علاقائی اور عالمی جغرافیائی سیاست پر سنگین اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔اسرائیلی مقاصد کی راہ میں حائل رکاوٹوں کے پیش نظر، اسرائیل کے پاس جوابی کارروائی اور اپنے غرور کو بچانے کا واحد آپشن یہ ہو سکتا ہے کہ وہ قاسم سلیمانی اور حسن نصر اللہ پر حملوں کی طرح اعلیٰ ایرانی قیادت کے خلاف خفیہ کارروائیوں کا سلسلہ شروع کرکے اپنی جھوٹی انا کو بچانے کی کوشش کرسکتا ہے۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں)