کیا ’انڈیا‘ لے پائے گا ’ہندوستھان‘سے ٹکر: زین شمسی

0

زین شمسی

مودی نہیں تو کون؟ اس سوال کو عوام کے ذہن میں اس طرح فیڈ کیا جا چکا ہے کہ نہ صرف جہلائے ملک بلکہ دانشوران قوم و ملت بھی مودی کی ناکامیوں کا اعتراف کرتے ہوئے پوچھ لیا کرتے ہیں۔ حزب اختلاف میں دم نہیں، کوئی نہیں جو مودی کا مقابلہ کرسکے، یہ سارے مقولے 2014کے الیکشن میں بی جے پی کی جیت کے ساتھ پیدا ہوئے اور اب تک اسی طرح تازہ دم ہیں۔ اپوزیشن کا آپسی اختلاف اور علاقائی برتری کی جنگ نے قومی سطح پر بی جے پی کو مضبوط تر کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ ایسا نہیں ہے کہ بی جے پی پورے ہندوستان پر قابض ہے اور دیگر پارٹیوں کی کارکردگیوں پر غالب ہے، مگرگودی میڈیا کے ذریعہ ایسا مائنڈ سیٹ تیار کیا گیا جس میں الجھ کر عوام یہ محسوس کرنے پر مجبور ہوگئے کہ کانگریس اور دیگر پارٹیوں کا وجود ہی خطرہ میں پڑگیاہے اور وہ سب خود سیاسی فنا کی جانب گامزن ہیں۔ کچھ تو سرکار کی ایجنسیاں، ان کا انتظامیہ اورباقی کھیل ہندوستان کے میڈیا نے بخوبی انجام دیا کہ اپوزیشن لیڈروں کو یا تو جیل جانے کا خطرہ محسوس ہوا یا پھران کا وقت اپنی بات رکھنے کے لیے عوامی پلیٹ فارم کی تلاش کرنے میں ضائع کرنا پڑا۔ نیشنل ٹی وی پر وہ بی جے پی کے ترجمانوں کو خاموش کرنے کا ہنر تو دکھا پائے مگر اینکرس کے نفرتی جال کوتوڑنے کی ان کی ساری کوششیں رائیگاں ہوگئیں۔ آج کل ہندوستان کی سب سے بڑی جیت ٹی وی کے جادوئی اسکرین پر دکھائی جارہی ہے جہاں بھولے بھالے عوام ٹی وی پر سیما کے بچوں کو دیکھ کر خوش ہورہے ہیں کہ جو کام کرکٹ کا بھگوان سچن تندولکر نہ کر سکا، وہ ایک پب جی کھیلنے والاسچن کر گیا۔ نفرت کے جال میں پھنس چکے عوام کو ٹماٹر، پٹرول کی قیمت، بے روزگاری اور مہنگائی کااتناغم نہیں ہے جتنی خوشی ایک فرضی مسلم عورت کے ہندو بن جانے سے ہے۔ایسے میں اگر یوپی اے، انڈیا بھی ہو جائے تو کیا فرق پڑتا ہے؟2024کا الیکشن رام مندر کی افتتاحی تقریب کے لائیو ٹیلی کاسٹ سے شروع ہوجائے گا اور یکساں سول کوڈ کی بحث کے ساتھ ختم ہو جائے گا۔
سیاست میں اخلاقیات کا کچھ دخل کبھی ہوا کرتا تھا، اب اخلاقیات اور سیاسیات دو بالکل مختلف موضوعات ہیں۔ اس لیے مندر اور نفرت کے لیے ووٹ ڈالنے والے لوگ اب سڑکوں کی خستہ حالی اور مہنگائی پر اپنی زبان کھولنے کا کوئی حق بھی نہیں رکھتے اور کبھی کھولتے ہیں تو زد میں آجاتے ہیں۔ مگر کیا حالات ایسے ہی رہیں گے۔ کیا سیاست کا مزاج کبھی بدلے گا۔ پڑھے لکھے لوگوں کی آنکھیں کبھی کھلیں گی۔ کیاسیاست میں بدلائو آئے گا یا پھر یوں ہی زندگی کا سفر چلتا رہے گا۔دراصل بھارت کی سیاست تبھی بدلتی ہے جب سیاست دانوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ عوام کی بدحالی سے کبھی کسی پارٹی کاکوئی واسطہ نہیں رہا ہے، اس لیے کسی بھی پارٹی نے غریبی کو ہٹانے کی کوشش نہیں کی ہے، مگر سیاست جب سیاستدانوں کو غریب کرنے لگتی ہے تب سیاست کو بدلنے کا وقت آجا تا ہے۔سب سے پہلے نوٹ بندی نے تمام پارٹیوں کو غریب کیا، پھر ملک کے بڑے بڑے سرمایہ کاروں نے سرکار ی پارٹی جوائن کی اور دیگر پارٹیوں سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا، سرکاری ایجنسیوں نے اپنا بھرپور زور لگایا، رہی سہی کسر ملک کے میڈیا نے پوری کر دی کہ اس نے اپوزیشن کے لیڈروں کو سوالوں کی بوچھار سے دبا دیا اور جھوٹے بیانات کا ایک لامتناہی سلسلہ جوشروع ہوا،وہ ہنوز جاری و ساری ہے۔ ایسے میں سرکاری پارٹی کے علاوہ دوسری پارٹیوں میں اتنا دم خم ہی نہیں بچا کہ وہ کسی صورت حزب اقتدار کو نیچا بٹھا سکیں، لیکن اب غریبی اپوزیشن لیڈروں کو ستانے لگی ہے، اس لیے نئی حکمت عملی بنائی جانے لگی ہے، جس کی پہلی چال بنگلورومیں چل دی گئی۔
یوپی اے نے اپنا نام بدل کر ’انڈیا‘ رکھ لیا ہے، یعنی ’یونائٹیڈ پروگریسیو الائنس‘ اب ’انڈیا‘ یعنی ’انڈین نیشنل ڈیولپمنٹل انکلوسیو الائنس‘ سے معروف ہوگا۔ جس کا پہلا نعرہ یہ سننے کو ملا کہ جو انڈیا سے پیار نہیں کرے گا وہ پاکستان جائے گا، گویا اس الائنس کی نیا بھی پاکستان ہی پار لگائے گا، مگر تعریف کرنی ہوگی راہل گاندھی کی کہ ایسا نام دیا کہ بی جے پی کو دھرم سنکٹ میں ڈال دیا۔ اب بی جے پی والے کیا نعرہ دیں گے کہ ’بھاجپا جتائو انڈیا ہرائو‘، اگر وہ انڈیا کو ہراتے ہیں تو پھر راشٹر پریم کا کیا کریں گے۔ نئے نام کے ساتھ کانگریس اور اس کا الائنس حزب اقتدار کو ہرائے یا نہ ہرائے مگر نام کے معاملے میں اس کا ڈپلومیٹک نظریہ کمال کا ہے، یہ تو کہا ہی جا سکتا ہے۔
اس الائنس میں ابھی 26پارٹیاں ہیں، جبکہ این ڈی اے کا کنبہ اب بھی اس سے بڑا یعنی 38 پارٹیوں کا ہے، گویا عوام کے ساتھ ساتھ زیادہ تر سیاستداں اب بھی این ڈی اے کے ساتھ ہیں، مگر جب ہم سنجیدگی کے ساتھ غور کریں تو انڈیا کے ساتھ متعدد ریاست کے حالیہ اور سابقہ وزیراعلیٰ موجود ہیں،جبکہ این ڈی اے کے پاس صرف ایک وزیراعظم ہیں جو کہ خود بی جے پی کے ہیں، دوسری الائنس پارٹیوں کا کوئی بڑا چہرہ اس اتحاد میں نہیںہے۔سیاسی طور پر ’انڈیا‘ کے ساتھ بھارت کی کئی ریاستوں کی بڑی پارٹیاں ہیں اور وہ عوام میں اپنا رسوخ رکھتی ہیں، جبکہ این ڈی اے صرف بی جے پی کی طاقت پر وجود میں ہے۔ اب سیاسی تجزیہ نگار ہی طے کریں گے کہ کس کا پلڑا بھاری ہے، مگر ایک سوال یہاں پر یہ بھی اٹھتا ہے کہ ’انڈیا‘ کے ساتھ آنے والی کئی پارٹیاں بی جے پی کے نقش پا کو اپنا اصول بناتی ہیں اور ان کے ذریعہ پیش کیے گئے قوانین مثلاً این آر سی اور یوسی سی کی حمایتی ہیں، اس میں عام آدمی پارٹی کا نام لیا جا سکتا ہے تو کیا یہ الائنس مضبوط تر ثابت ہوگا یا پھر الیکشن آتے آتے ان میں سے کئی پارٹیاں اپنا پلّہ جھاڑ لیں گی۔
مسلم نام والی پارٹیوں میں سے چار کو جگہ ملی ہے۔ انڈین یونین مسلم لیگ،نیشنل کانفرنس،پی ڈی پی اور ایم ایم کے کو اس لائق سمجھا گیا کہ وہ ’انڈیا‘ کے ساتھ رہ سکتی ہیں، اجمل صاحب کی پارٹی اے آئی یو ڈی ایف کو مدعو کیا گیا، مگر وہ نہیں آئے پتہ نہیں کیوں؟ مگر اویسی کے لیے اس الائنس میں کوئی جگہ خالی نہیں رکھی گئی، جواز یہ دیا جا سکتا ہے کہ ان کی پارٹی بی جے پی کی بی ٹیم ہے اور مسلمانوں کا ووٹ کاٹ کرکے بی جے پی کو فائدہ پہنچا دیتی ہے۔یہاں پر یہ بھی سوال اٹھ سکتا ہے کہ عام آدمی پارٹی، سماج وادی پارٹی بہار میں، آر جے ڈی یو پی میں اور دیگر علاقائی پارٹیاں دوسروں کے علاقے میں جب الیکشن لڑتی ہیں تو وہ کس کی بی ٹیم ہوتی ہیں۔ شرد پوار تنہا ہیں تو انڈیا میں ہیں اور ان کے بھتیجے پوری ٹیم کے ساتھ این ڈی اے میں چلے گئے تو وہ کس کی بی ٹیم کا حصہ تھے۔ مسلمان یہ سوال تو پوچھیں گے ہی کہ آخر وہ انڈیا کے ساتھ کیوں آئیں جبکہ اس کے ساتھ بھی کئی مسلم مخالف پارٹیاں ہیں۔
لیکن آج کی سیاست میں سب حساب کتاب غلط ثابت ہوجاتا ہے۔ کووڈمیں انسانی لاشوں کے درمیان بی جے پی کی جیت، نوٹ بندی میں اقتصادی پریشانیوں کے باوجود بی جے پی کی جیت، مہنگائی،بے روزگاری اور نفرت کے درمیان بی جے پی کو ووٹنگ صاف اشارہ ہے کہ اب بی جے پی کو ہرانا مشکل ہے، اسے ہرانے کے لیے محبت کی دکانداری میں منافع بڑھانا ہوگا، وگرنہ کسی بھی عوامی ایشو پر عوام اب کان نہیں دھرنے والے ہیں، خواہ ’انڈیا‘ ایک بار نہیں کئی بار ہارے۔انہیں ’ہندوستھان‘ ملنے والا ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS