کیا ٹرمپ کی صدارت کے آغاز سے قبل غزہ میں جنگ بندی ہو پائے گی؟ : ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

0

ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

غزہ میں جنگ بندی کے تعلق سے اس بار کافی توقعات وابستہ ہوگئی ہیں۔ میڈیا میں اس کا چرچا زور و شور سے چل رہا ہے کہ جنگ بندی کا معاہدہ بس جلد ہی مکمل ہوجائے گا۔ اسرائیلی اخبار,یدیعوت احرونوت، نے تو دو دن قبل یہاں تک دعویٰ کر دیا ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلہ کا معاہدہ تقریباً مکمل ہوچکا ہے۔ البتہ باضابطہ طریقہ پر اسرائیل یا حماس یا پھر ثالثی کا کردار نبھانے والے ممالک مثلا قطر، مصر اور امریکہ کی جانب سے اس سلسلہ میں ابھی تک کچھ بھی سامنے نہیں آیا ہے۔ یدیعوت احرونوت نے اپنے ’باخبر سیاسی ذرائع‘کے حوالہ سے لکھا ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان قیدیوں کے تبادلہ سے متعلق معاملہ کی نوے فیصد تفصیلات پر اتفاق ہو چکا ہے اور فریقین کے درمیان بنیادی اختلاف اس بات پر قائم ہے کہ حماس مطالبہ کر رہا ہے کہ اس کو یہ ضمانت دی جائے کہ اسرائیل معاہدہ کے دوسرے مرحلہ کو بھی نافذ کرے گا اور اس کو پہلے مرحلہ سے مربوط رکھا جائے گا۔ کیونکہ حماس کو اس بات کا خدشہ ہے کہ معاہدہ کے پہلے مرحلہ کو نافذ کرنے کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے دوبارہ غزہ میں واپسی کرکے جنگ کا آغاز کر سکتے ہیں۔ گرچہ ممکنہ معاہدہ کے دونوں مرحلوں کی تفصیلات کا اعلان ابھی تک نہیں کیا گیا ہے لیکن یدیعوت احرونوت نے جن ذرائع کا حوالہ دیا ہے ان کے مطابق پہلے مرحلہ میں انسانی اسباب کی بناء پر عمر دراز اور بیمار لوگوں کو رہا کیا جائے گا جبکہ دوسرے مرحلہ میں فوج کے افراد رہا کئے جائیں گے۔ اس بار معاہدہ کی کامیابی کے بارے میں امیدیں اس لئے بھی وابستہ کی جا رہی ہیں کیونکہ ٹرمپ نے اپنے نمائندہ کو نیتن یاہو سے ملاقات کے لئے روانہ کیا ہے۔ اس ملاقات کے حوالہ سے یہ اٹکلیں میڈیا میں لگائی جا رہی ہیں کہ ٹرمپ نے اپنے نمائندہ اسٹیو ویٹکوف کو اسرائیلی وزیر اعظم سے ملنے کے لئے روانہ ہی اسی لئے کیا ہے کیونکہ قیدیوں کے تبادلہ کے سلسلہ میں جاری بات چیت میں پیش رفت کے اشارے مل گئے تھے۔ ویٹکوف نے بھی نتن یاہو سے ملاقات کے دوران بہت جلد معاہدہ کی تکمیل کی بات کہی ہے۔

حماس کے اندر ایک دوسرا خدشہ بھی پایا جا رہا ہے۔ حماس کی قیادت کو چونکہ ٹرمپ کی اسرائیل کے تئیں کھلی جانب داری کا پورا علم ہے اس لئے اس کو یہ شبہ بھی ہو رہا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ٹرمپ جب کرسیٔ صدارت پر 20 جنوری کو متمکن ہوں تو اس ممکنہ معاہدہ کو قبول کرنے سے ہی انکار کر دیں۔ حماس کے دل میں ایسے شبہات کا پیدا ہونا بالکل فطری بات ہے۔ معاہدوں کی پرواہ نہ کرنا ٹرمپ کی شخصیت کا بنیادی عنصر بن چکا ہے۔ اس سے قبل ایران کے ساتھ جو نیوکلیائی معاہدہ سابق امریکی صدر براک اوبامہ نے کیا تھا اس کو ٹرمپ نے اپنے عہد صدارت میں کالعدم قرار دیا اور موجودہ صدر بائیڈن نے بھی اس کو بحال کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ جہاں تک فلسطین کا معاملہ ہے تو اس کے بارے میں امریکی پالیسیاں تو کبھی بھی انصاف یا عام منطق پر قائم ہی نہیں رہی ہیں اس لئے امریکہ کے کردار کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ماضی بعید میں امریکہ کی دانستہ شرارتوں کو اگر اس وقت زیر بحث نہ بھی لایا جائے اور صرف گزشتہ ایک سال سے زائد مدت میں فلسطین و اسرائیل معاملہ پر امریکی پالیسیوں کے کھلے تضاد کو ہی پیش نظر رکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ واشنگٹن نے مہلک ترین ہتھیاروں، بموں اور دیگر جنگی آلات و وسائل کو بے روک ٹوک اسرائیل کے حوالہ کرنے کے سوا فلسطینیوں کے قتل عام کو روکنے کے لئے کچھ بھی نہیں کیا ہے۔ اس کے برعکس وہ ان جنگی جرائم کے ارتکاب میں اسرائیل کا شریک و ساجھی رہا ہے اور ہر محاذ پر اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنے میں اپنا مجرمانہ کردار ادا کیا ہے۔ یہاں تک کہ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں ایک دو بار نہیں بلکہ پورے چار بار اسرائیل کو بچانے کے لئے اپنے ووٹ اور ویٹو پاور کا استعمال کیا ہے۔ اسرائیل کے دفاع میں سب سے قریب مدت میں ویٹو کا استعمال امریکہ نے 20 نومبر کو اس وقت کیا تھا جب سیکورٹی کونسل کی جانب سے یہ کوشش کی جا رہی تھی کہ غزہ میں جنگ بندی ہو جائے۔ اس سے قبل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں امریکہ نے اس قرار داد کے خلاف ووٹ کیا تھا جس کو 154 ملکوں کی حمایت حاصل ہوئی تھی اور اس کا مقصد بھی یہی تھا کہ غزہ میں اسرائیل فوری جنگ بندی کرے۔ اس سے زیادہ شرمناک عمل یہ ہے کہ امریکہ کے ایوانِ نمائندگان نے حال ہی میں ایک بل پاس کیا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کو اس بات کی سزا دی جائے کہ اس نے جنگی جرائم کے مبینہ ملزم نتن یاہو اور گالانٹ کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا ہے۔ امریکہ کا یہ حال اس سیاسی پارٹی کے صدر کے عہد میں رہا ہے جو اپنے نام کے ساتھ ڈیموکریٹک اور جمہوری ہونے کا دعویٰ کرتی ہے اور جس کا دعویٰ ہے کہ وہ جمہوری قدروں کی بحالی اور انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کا مشن اپنے پیش نظر رکھتی ہے۔ جب ٹرمپ جیسا انسان امریکی صدر کے طور پر اپنی ذمہ داریاں سنبھالے گا تو اسرائیل کو مزید کتنی مراعات مل سکتی ہیں اس کا اندازہ لگانا اس لئے بہت آسان ہے کیونکہ ٹرمپ نے اپنی صدارت کے دورِ اول میں یہ ثابت کیا ہے کہ وہ اسرائیل کی تمام دیرینہ تمناؤں کی تکمیل کے لئے خود کو پابند سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ نے قدس کو اسرائیل کی راجدھانی کے طور پر قبول کیا اور امریکی سفارت خانہ کو بھی وہاں منتقل کروایا۔ ٹرمپ نے مقبوضہ گولان ہائٹ پر اسرائیل کے غاصبہ قبضہ کو بھی جواز فراہم کیا اور تشدد پسند صہیونیوں کے اس مطالبہ سے بھی ہمدردی رکھتے ہیں کہ ویسٹ بینک کو اسرائیل میں ضم کر لیا جائے۔ ظاہر ہے کہ ایسے ماحول میں حماس کے اندر نیتن یاہو اور ٹرمپ کے تئیں شبہات اور خدشات کا پایا جاتا عین منطقی طرز فکر کی علامت ہے۔ اگر ٹرمپ کی آمد سے نیتن یاہو کو بڑی امیدیں وابستہ نہیں ہوتیں تو ان کا یہ بیان ہی کیوں آتا جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ’میں اب اپنی شرطوں سے پیچھے کیوں ہٹوں جبکہ ٹرمپ کی واپسی کی وجہ سے میرے لئے یہ ممکن ہوگیا ہے کہ میں اپنے اہداف و مقاصد کو حاصل کر سکوں گا۔ ‘نیتن یاہو کے اس بیان کو اس تناظر میں رکھ کر بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ ٹرمپ کے انتخاب کے بعد سے ہی نیتن یاہو نے غزہ پر تشدد میں مزید اضافہ کر دیا ہے اور شہداء کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ حماس پر دباؤ میں شدت پیدا کی جا رہی ہے۔ جنگ بندی کے معاہدہ کے سلسلہ میں نیتن یاہو بس ٹال مٹول اور دروغ و فریب کی پالیسی پر گامزن ہیں کیونکہ انہیں توقع ہے کہ ٹرمپ کے عہد میں اسرائیل کے بارے میں جو پالیسی اختیار کی جائے گی اس میں نیتن یاہو کو اپنی مرضی کے مطابق کام کرنے کا زیادہ موقع ملے گا اور انہیں پوری چھوٹ رہے گی کہ وہ جو چاہیں کریں۔

جنگ بندی کے معاہدہ کو ٹالنے کے پیچھے بھی یہی بڑا مقصد ہے۔ معاہدہ اگر ہو بھی جاتا ہے تب بھی ٹرمپ کی آمد کے بعد فلسطینیوں کے مسائل میں کمی واقع نہیں ہوگی اور ان پر دباؤ میں اضافہ ہوگا۔ اسرائیلی تشدد کا انہیں مزید سامنا کرنا ہوگا کیونکہ صہیونی تشدد پسندوں کے ایجنڈوں پر عمل کو ترجیح دی جائے گی۔ ساتھ ہی ویسٹ بینک کے مسئلہ کو اسرائیلی تشدد پسندوں کی مرضی کے مطابق حل کرنے پر زور دیا جائے گا اور ان تمام معاملوں میں فلسطینیوں پر مسلسل امریکی دباؤ بنا رہے گا۔ حماس اور دیگر مزاحمتی تحریکوں کے خلاف اسرائیل کو امریکہ کی مکمل حمایت بھی حاصل رہے گی کیونکہ ٹرمپ کا بنیادی مقصد ہی یہی ہے کہ اس پورے خطہ کو یکطرفہ حل کی طرف ڈھکیلا جائے جس میں مرکزی طور پر اسرائیل کے مفادات کو بچانا پیش نظر رکھا جائے اوراگر اس مقصد کی راہ میں غزہ کے اندر انسانی بحران بھی بڑھتا ہو تو اس کی پرواہ نہ کی جائے۔ ٹرمپ نے اپنے بیانات سے بھی یہ صاف اشارہ دیا ہے کہ ان کو بات چیت کے ذریعہ کسی منصفانہ حل میں دلچسپی نہیں ہے۔ اس کے برعکس وہ دھمکی کی زبان استعمال کرتے ہیں اور صاف طور پر حماس کو دھمکی دیتے ہیں کہ وہ قیدیوں کو آزاد کریں ورنہ وہ جہنم کا دہانہ کھول دیں گے۔ اس دھمکی کا رخ عام طور سے مشرق وسطیٰ کے لیڈران کی طرف بھی ہے کہ اگر انہوں نے ان کے مطالبے پورے نہیں کئے تو انجام بہت برا ہوگا۔ ٹرمپ نے اپنے ان بیانات سے مشرق وسطیٰ اور بطور خاص فلسطین کے تعلق سے اپنی پالیسی کی جہت واضح کر دی ہے۔ اس کا مطلب فلسطینیوں کی آزمائشوں میں ابھی کوئی کمی نہیں آئے گی اور اس غیور و جان باز قوم کو اپنی آزادی و حقوق کی بازیابی کیلئے ابھی مزید قربانیاں پیش کرنی ہوں گی۔ ایسے وقت یہ بہت ضروری ہے کہ فلسطین کے اندرونی اختلافات کو ختم کیا جائے تاکہ حق و انصاف کے لئے ان کی لڑائی کمزور نہ پڑے اور عالمی برادری کی نظر میں ان کے کاز کو وہی اہمیت ملتی رہے جو اس کا حق ہے۔

(مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS