ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ
ارض مقدس فلسطین جس کو سر زمینِ انبیاء کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے اور جہاں وہ مسجد اقصی واقع ہے جس کو مسلمانوں کا قبلۂ اولی ہونے کا شرف اور معراج کے موقع پر تمام انبیاء کا آخری نبی کے پیچھے نماز ادا کرنے کے لئے مصلی ہونے کا امتیاز حاصل ہے وہ سر زمین گزشتہ 8 دہائیوں سے ایک ایسی قوم کے ناجائز قبضہ میں موجود ہے جو خدا کے پیغام سے واضح روگردانی اور انبیاء کے ساتھ بد سلوکی بلکہ ان کے قتل کے جرائم میں ملوث ہونے کی بناء پر مبغوض اور راندۂ درگاہ قرار پا چکی ہے۔ اسی مبغوض قوم سے اس ارض مقدس کو آزاد کروانے کی خاطر وہاں کی مزاحمت پسند تنظیمیں سرگرم عمل ہیں کیونکہ ان کا پختہ عقیدہ ہے کہ فتح و کامرانی آخرکار ان کے حصہ میں آئے گی۔ ان مزاحمت کاروں میں سب سے ممتاز جماعت کا نام’اسلامی تحریک مقاومت‘ ہے جس کو مخفف طور پر ’حماس‘کہا جاتا ہے، لیکن یہ فلسطین کی اکلوتی جماعت نہیں ہے جو فلسطین کی آزادی کے لئے اپنی قربانیاں پیش کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی جماعتیں مثلاً ’حرکۃ الجہاد الاسلامی‘وغیرہ ہیں جو اس مقصد میں شامل اور باہم متحد ہوکر اپنی آزادی کے لئے کوشاں ہیں۔ 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل کے خلاف جو ’آپریشن الاقصیٰ‘ انجام دیا گیا تھا اور جس کے نتیجہ میں آج تک اہل فلسطین بالخصوص اہالیان غزہ و رفح صہیونی بربریت کے نشانہ پر ہیں اس آپریشن میں ’حماس‘ کی مسلح ونگ ’القسام‘ اور ’حرکۃ الجہاد الاسلامی‘ نے بنیادی طور پر حصہ لیا تھا۔ حماس کی مسلح جماعت کا یہ اقدام درست تھا یا نا درست اس پر آج تک بحث جاری ہے۔ خود فلسطین کے اندر موجود ’فتح‘ یا ’پی ایل او‘ جیسی جماعتوں کا ماننا ہے کہ حماس کا یہ آپریشن درست نہیں تھا کیونکہ اس کے نتائج کو پیش نظر نہیں رکھا گیا اور یہی وجہ ہے کہ اب تک 37 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اور 80 ہزار سے زیادہ لوگ زخمی ہیں جن کے علاج کے لئے نہ اسپتال مہیا ہیں اور نہ دوائیں۔ یہاں تک کہ ہر قسم کی امداد پر اسرائیل نے روک لگا رکھی ہے جس کے نتیجہ میں اہل فلسطین بھوک و پیاس اور بچے نقص تغذیہ کی وجہ سے بھی فوت ہو رہے ہیں۔ ویسے بھی شہداء اور زخمیوں میں زیادہ بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی ہی ہے۔’آپریشن الاقصیٰ‘ کے نتیجہ میں چونکہ فلسطینیوں کو اتنی بھاری قیمت چکانی پڑ رہی ہے اس لئے ’فتح‘ اور اس کی ہمنوا تنظیمیں ’حماس‘ اور’الجہاد الاسلامی‘ کے ذریعہ 7 اکتوبر کو اسرائیل کے خلاف کئے گئے ’آپریشن الاقصیٰ‘ کو غیر مناسب اور غیر ضروری قرار دیتے ہیں۔ شاید مسلم دنیا میں بھی مسلمان عوام و خواص میں ایسا ایک طبقہ موجود ہوگا جو اس ’آپریشن‘کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے اس کی حمایت نہ کرتے ہوں، لیکن کیا ایسا سوچنا حقیقت حال کے مطابق ہے؟ کیا ’حماس‘ اور ’القسام‘ کی قیادت کو اس کا اندازہ نہیں تھا کہ اسرائیل کا رد عمل بہت بھیانک ہوگا اور اس کی بڑی قیمت چکانی پڑ سکتی ہے؟ انہیں یقینا اس بات کا پورا پورا اندازہ تھا۔ تو اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ انہوں نے جان بوجھ کر ایسا قدم کیوں اٹھایا جس کے بھیانک انجام تک سے وہ واقف تھے؟ اس کا جواب معلوم کرنے کے لئے ایک عام قاری کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس ’آپریشن‘ سے قبل اہل فلسطین کس قسم کی زندگی گزار رہے تھے یا مسئلہ فلسطین کی کیا حیثیت رہ گئی تھی اس کو گہرائی سے سمجھیں۔ اسرائیل کا رویہ اتنے برسوں میں اہل فلسطین کے ساتھ کیسا تھا؟ خود فلسطین کی وہ جماعتیں جو آج ’حماس‘ اور ’الجہاد الاسلامی‘ کو لعن طعن کر رہی ہیں کیا ان کی پالیسیاں فلسطین کے حق میں مفید ثابت ہوئی ہیں؟ جو شخص مسئلہ فلسطین کے ان تمام پہلوؤں سے واقف ہوگا وہ یہ بھی جانتا ہوگا کہ اسرائیل کا رویہ پوری مدت میں صرف غرور و ہٹ دھرمی کا رہا ہے اور اس کی تمام تر توجہات مسئلہ فلسطین کو جڑ سے ختم کر دینے پر مرکوز رہی ہیں۔ ’آپریشن الاقصیٰ‘ کے ذریعہ فلسطینی مزاحمت کاروں نے جو مقاصد حاصل کئے ہیں ان میں یہ دونوں باتیں پائی جاتی ہیں کہ ایک طرف تو انہوں نے صہیونی غرور کو توڑا ہے اور دوسری طرف مسئلہ فلسطین کو از سر نو زندہ کرکے اسے عالمی نقشہ پر پوری قوت کے ساتھ ڈال دیا ہے۔ ’آپریشن الاقصیٰ‘ نے یہ ثابت کیا ہے کہ اسرائیل جن وسائل پر اپنی سلامتی کے لئے انحصار کرتا تھا اور ان پر وہ نازاں بھی تھا ان وسائل کی اتنی حیثیت نہیں ہے کہ ناجائز صہیونی ریاست کو امن و سلامتی مہیا کرا سکے۔ انہی وسائل دفاع و نگرانی کی بدولت اسرائیل مسلسل فلسطینی زمینوں پر قابض ہوتا رہا تھا اور ان پر ناجائز یہودی بستیاں بناکر اہل فلسطین کو ان کی زمینوں سے محروم کرتا رہتا تھا۔ لیکن فلسطینی مزاحمت کاروں نے اس بات کا ثبوت پیش کر دیا کہ صہیونیوں کے لئے ہمیشہ یہ راستہ اتنا آسان نہیں ہوگا اور جب تک مسلح جماعتیں اپنی زمین و تاریخ کی حفاظت کے لئے کمربستہ رہیں گی تب تک اسرائیل کے مقاصد پورے نہیں ہو سکتے۔ اگر گزشتہ 8 دہائیوں کی اسرائیلی حرکتوں کا جائزہ لیا جائے تو سوائے اس کے کوئی دوسرا پہلو سامنے نہیں آتا کہ اسرائیل نہایت مغرور ہوچکا تھا اور اس کے غرور کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ اسرائیل کے ناجائز قبضہ کے خلاف جہاد و نضال کے لئے کوئی جماعت نہ کھڑی ہو پائے۔ تمام قسم کے آلات و حرب و ضرب سے لیس صہیونی ریاست کے دل میں یہ خوف ہر وقت چٹکی لیتا رہتا تھا کہ کہیں کوئی ایسی طاقت جنم نہ لے جو اس کی قوت سے بے خوف ہوکر اس کے وجود کو چیلنج کرنے کے لئے سامنے آ جائے۔ اسرائیل کا یہ خوف ہی اس کی سب سے بڑی کمزوری رہا ہے۔ اسی لئے جب 7 اکتوبر کا آپریشن عمل میں آیا تو اسرائیل کا پورا وجود لرز اٹھا کیونکہ اس آپریشن نے صہیونی سلامتی کی دیوار میں اتنا بڑا سوراخ پیدا کر دیا کہ وہاں سے اس کی بے سلامتی کے سارے راستے کھل جاتے ہیں۔ اسرائیل کے اس غرور کی گرچہ بہت بڑی قیمت اہل فلسطین نے چکائی ہے اور اب تک چکا رہے ہیں لیکن اسرائیل انہیں اس بات پر مجبور کرنے میں بری طرح ناکام رہا ہے کہ وہ قومی آزادی کی راہ میں نضال و جہاد کا راستہ ترک کردیں۔ اسرائیل کو اپنی قوت کا جو زعم تھا وہ اس کے لئے کافی فریب کن ثابت ہوا ہے کیونکہ ایک طرف تو وہ فلسطینیوں کے دل و دماغ سے ہر قیمت پر حصول آزادی کا شعور نہیں مٹا سکے اور دوسری طرف اپنی قوت کے بل پر اسرائیل جو ریاست فلسطین کے قیام کے بغیر ہی اس خطہ میں ایک فطری ریاست بننے کا خواب دیکھ رہا تھا وہ بھی چکنا چور ہو گیا۔ یہ اسرائیلی غرور ہی کا نتیجہ تھا کہ اہل فلسطین کے سامنے کوئی دوسرا چارہ کار نہیں رہا اور مجبورا انہیں اس راستہ کو اختیار کرنا پڑا جس پر چلنے کی قیمت بہت مہنگی ہے، لیکن قضیۂ فلسطین تاریخ کے جن پرخم راستوں سے ہوکر گزرا ہے ان میں اہل فلسطین ایسی قیمتوں کی ادائیگی کے عادی ہو چکے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے جب بھی کبھی امن و سلامتی کے راستے سے اس مسئلہ کو حل کرنا چاہا انہیں بس مایوسی و ناکامی کا ہی سامنا کرنا پڑا۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ پی ایل او نے امن و سلامتی کے راستہ ہی سے مسئلہ فلسطین کا حل نکالنا چاہا تھا لیکن اسرائیل نے فلسطینیوں کے اس قدم کو ہی اپنی سب سے بڑی طاقت میں تبدیل کر لیا اور ارض فلسطین پر اپنے ناجائز قبضہ کو مزید طویل کرنے کے لئے استعمال کیا۔ 1993 کے اوسلو معاہدہ اور اس کے مابعد کی تاریخ کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہئے۔ فلسطینیوں نے اوسلو سے یہ تلخ تجربہ حاصل کیا کہ اسرائیل کو امن و سلامتی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے بلکہ جب بھی کبھی اہل فلسطین کی جانب سے ایسی کوئی سنجیدہ کوشش کی گئی اس کے معا بعد ہی اسرائیل نے فلسطینی جماعتوں اور قیادتوں کے درمیان انتشار کو بڑھاوا دینے، اپنی آبادکاری کی اسکیم کو وسیع تر بنانے اور فلسطین پر اپنے قبضہ کے دائرہ کو وسعت دینے پر توجہ مرکوز کر دی۔ اس کے علاوہ جن جماعتوں نے اسرائیل کے ساتھ مصالحت اور امن و سلامتی کا ہاتھ بڑھایا ان کو اس قدر بے قیمت اور بے جان بنا دیا کہ آخر کار وہ خود اسرائیلی آبادکاری کے لئے آلہ اور ذریعہ بن گئیں۔ گویا یہ کہا جا سکتا ہے کہ فلسطین کی آزادی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ فلسطینی جماعتوں اور تنظیموں کا آپسی انتشار نہیں بلکہ خود اسرائیل کی اپنی مذموم حرکت رہی ہے۔ مغربی طاقتیں اسرائیل کی اس حرکت پر پردہ ڈالتی رہی ہیں اور اسرائیل کے غرور کو بڑھاوا دیتی رہتی ہیں اور بلا وجہ ہی مزاحمت کاروں کو 7 اکتوبر کے لئے ذمہ دار قرار دینے کی ضد پر اڑی ہوئی نظر آتی ہیں۔ مغرب کے اس رویہ کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ خود ہی اسرائیل کے غرور کو تحفظ فراہم کرتا رہا ہے۔ مغرب کو معلوم ہے کہ اگر وہ اسرائیل کو اس کے غرور کی چھت سے نیچے اتارنے کی کوشش کرے گا تو خود اس کا جرم پوری دنیا کے سامنے آشکارہ ہوجائے گا اور اسی لئے وہ اسرائیل کے بجائے مزاحمتی تحریکوں کو مورد الزام ٹھہراتا ہے تاکہ دنیا کی توجہ اس کے داغ دار کردار پر نہ پڑے۔ ’آپریشن الاقصیٰ‘ کے مابعد کے واقعات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اسرائیلی غرور ہی کی وجہ سے جنگ کی مدت طویل ہو رہی ہے اور امن و سلامتی کا راستہ مسدود نظر آتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی فلسطینیوں کا ایک بڑا طبقہ اس بات کا قائل بھی ہوا ہے کہ اگر وہ اپنے قضیہ کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں تو مزاحمت ان کے لئے آپشن نہیں بلکہ ایک ضرورت ہے۔ ’آپریشن الاقصیٰ‘ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے یہ بات مسلم ہو گئی کہ جب تک فلسطینیوں کو ان کی اپنی آزاد ریاست نہیں مل جاتی تب تک اسرائیل کے لئے بھی ایک فطری ریاست کے طور پر اس طرح باقی رہنا کبھی ممکن نہیں ہوگا کہ اس کو امن و سلامتی کا منہ دیکھنا نصیب ہو اور وہ اس خطہ میں ضم ہو کر رہ سکے۔ اس لئے ضروری ہے کہ اسرائیل اپنے غرور سے باز آئے، قضیۂ فلسطین کو ختم کرنے کے بجائے فلسطینیوں کو ان کے جائز حقوق سے لطف اندوز ہونے کی راہ ہموار کرے اور ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر عالمی قوانین کی پاسداری کرے اور ان پر عمل کرکے یہ ثابت کرے کہ وہ عدل پر مبنی عالمی نظام کے قیام میں اپنا کردار ادا کرنے میں سنجیدہ ہے۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو یہ جنگ آخری جنگ نہیں ہوگی۔ اسرائیل کے ہر غرور کے لئے ایک نئی تحریک مقاومت پیدا ہوگی جو اپنے حق کی بازیابی تک خاموش نہیں بیٹھے گی۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں