کسی بھی بڑے گروپ کے سربراہ اجلاس کی اہمیت ہوتی ہے۔ اسی لیے بڑے گروپوں کے سربراہ اجلاسوں کا انتظار کیا جاتا ہے تاکہ اس میں شامل ممالک کی ترجیحات سمجھی جا سکیں، اسی مناسبت سے عالمی ایشوز کو سمجھنے، متوقع عالمی تبدیلیوںکا اندازہ لگانے میں آسانی ہو مگر کسی بڑے گروپ کے سربراہ اجلاس کا انتظار زیادہ شدت سے کیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ سربراہ اجلاس اس کے بقیہ سربراہ اجلاسوں سے مختلف ہوگا، اس میں کچھ خاص بات کے ہونے کا امکان یا اندیشہ ہے یا کچھ خاص اشارے ملنے کا امکان ہے۔ 22 تا 24 اکتوبر، 2024 کو روس میں ہونے والے برکس سربراہ اجلاس کا انتظار بھی بڑی شدت سے ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ سربراہ اجلاس ان حالات میں ہو رہا ہے جبکہ یوکرین جنگ ختم نہیں ہوئی ہے، دوسری وجہ یہ ہے کہ غزہ جنگ پھیلتی جا رہی ہے اور اس جنگ نے مشرق وسطیٰ کے ان لیڈروں کے لیے بھی تشویش پیدا کر دی ہے جو امریکہ سے کافی قریب ہیں اور یہ بات ان کے لیے باعث اطمینان رہی ہے کہ امریکہ کا ساتھ انہیں حاصل ہے۔ اسی ساتھ کو مستحکم کرنے کے لیے ان کے ملکوں نے اسرائیل سے تعلقات استوار کیے اور اس کا باضابطہ اعلان کیا اور کچھ نے یہ اشارے دیے کہ موقع ملتے ہی اسرائیل کے تعلقات استوار کرلیں گے، کیونکہ اسی میں ان کی بھلائی ہے۔ رہی بات مسئلۂ فلسطین، غزہ جنگ، فلسطینیوں کی جانوں کے اتلاف کی تواس پر بیانات دینے میں ان کی طرف سے کبھی کمی نہیں کی گئی ہے۔ اس بار کے برکس سربراہ اجلاس کا انتظار بڑی شدت سے کیے جانے کی تیسری وجہ یہ ہے کہ غزہ جنگ کی ایران تک توسیع کا اندیشہ بڑھ گیا ہے جبکہ برکس کے دو اہم ممالک روس اور چین سے ایران کے تعلقات اچھے ہیں۔ ایران کے بارے میں ایسی خبر آئی ہے کہ اس نے یوکرین جنگ میں روس کی مدد کی ہے۔ اسی طرح جوابی کارروائی کی اسرائیل کی دھمکی کے بعد روس کے ایران کی مدد کرنے کی خبر آئی ہے۔ مارچ 2021 سے چین نے ایران سے 25 سال کا معاہدہ کر رکھا ہے۔ اس کے تحت وہ ایران میں 400 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ یہ رقم کتنی بڑی ہے،اس کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ چین کے قریبی سمجھے جانے والے پاکستان کی جی ڈی پی 338.2 ارب ڈالر کی ہے۔ ایسی صورت میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر اسرائیل کے ساتھ امریکہ اور اس کے اتحادی ملکوں نے ایران کے خلاف جنگ چھیڑی تو کیا چین، ایران کو تنہا چھوڑ دے گا اور وہاں لگائے گئے اپنے سرمائے کی پروا نہیں کرے گا؟ اس بار کے برکس سربراہ اجلاس کے شدت سے انتظار کی چوتھی بڑی وجہ یہ ہے کہ روس اور چین یہ دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ کے اتحادی یوکرین اور غزہ جنگ میں مسلسل ہتھیار استعمال کر رہے ہیں اور عالمی برادری میں ان کی ساکھ پہلے جیسی نہیں رہ گئی تو یہ موقع ان ملکوں کو بھی ساتھ کر لینے کا ہے جو آج تک امریکہ کے اتحادی سمجھے جاتے رہے ہیں، مثلاً: ترکیہ ناٹو کا رکن ملک ہے، امریکہ اور یوروپی ممالک سے اس کے رشتے اچھے رہے ہیں مگر اس نے بھی برکس میں شمولیت کے لیے درخواست دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، شام،فلسطین، پاکستان، الجزائر، انڈونیشیا، بنگلہ دیش، میانمار سمیت 34 ممالک نے برکس کی رکنیت لینے کے لیے درخواست دی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ان میں سے 10ممالک کو رکنیت دے دی جائے گی اور 10 ممالک کوپارٹنر بنایا جائے گا۔ ترکیہ کو اگر رکنیت دی گئی تو یہ امریکہ کی سربراہی والے ناٹو کے لیے ایک بڑا جھٹکا ہوگا، شام کو اگر رکنیت دی گئی تو اس سے مشرق وسطیٰ میں روس کی پوزیشن اور مضبوط ہو جائے گی جبکہ فلسطین کو رکنیت دی گئی تو یہ روس اور چین کی طرف سے عالمی برادری کے لیے ایک میسج ہوگا۔ اس کا اثر مسلم ممالک میں امریکہ کے دائرۂ اثر پر پڑے گا۔
برکس سربراہ اجلاس کا انتظار اسی لیے ہے کہ کن ملکوں کو رکنیت دی جاتی ہے، کیونکہ اس سے یہ اندازہ لگانے میں آسانی ہوگی کہ چین اپنے دائرۂ اثر کو بڑھانے کے لیے کیا کر رہا ہے اور روس اس کے ساتھ کس حد تک ہے۔ حکومت ہند حالات سے بے خبر نہیں۔ غالباً اسی لیے فی الوقت برکس میں توسیع کے لیے ہندوستان تیار نہیں ہے۔ اس سلسلے میں اسے زیادہ سے زیادہ ملکوں کا ساتھ حاصل کرنا ہوگا تاکہ چین برکس کا استعمال اپنا دائرۂ اثر اس حد تک بڑھانے کے لیے نہ کر سکے کہ اس کے اثرات دیگر ملکوں پر پڑنے کا اندیشہ ہو۔
[email protected]
شدت سے انتظار کیوں ہے؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS